QR CodeQR Code

علم اور تعلیم کے مفہوم پر نگاہِ نو

4 Dec 2024 20:17

اسلام ٹائمز: اب علم اور تعلیم کو ماضی کے فکری سانچے میں رکھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس سے مراد درسگاہوں میں اپنایا جانے والا وه منظم اور رسمی طریقہ کار ہے کہ جسکے ذریعے ایک نسل اپنی مجموعی معلومات، اخلاقی اقدار ہنر، سماجی روایات، علمی میراث اور تعلیمی تجربات کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی جدید دنیا میں علم سے مراد انسان کی اُن تمام جبلتوں اور خصلتوں کا نکھار اور رُشد ہے کہ جن پر انسانی فطرت کی بنیاد ہے۔ ایسی تمام جبلتیں اور خصلتیں انسان کے کمال کیلئے ضروری ہیں اور یہ انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

دینِ اسلام کا مقصود و مطلوب ہی انسان سازی اور انسان کی تعلیم و تربیّت ہے۔ لہذا قرآنی آیات کی مانند بہت ساری روایات میں بھی حصولِ علم کی تاکید اور اہمیّت بیان کی گئی ہے۔ جیسے: جو علم کی تلاش کے راستے میں نکلے الله عزوجل اس کیلئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور فرشتے اس کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور مچھلیاں و زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی خاطر استغفار کرتی ہے۔[1] حصولِ علم کے لئے نکلنے والا واپس پلٹنے تک ﷲ کے راستے میں ہے۔ [2] علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے اور حکمت مومن کی گمشده میراث ہے وغیره۔[3] علم اور تعلیم کی دینِ اسلام میں اتنی زیاده اہمیت ہے کہ خود ہمارے نبی اکرم ؐ کو قرآن مجید میں "قُل ربِّ زِدنی علما": "اے رب میرے علم میں اضافہ فرما"[4] کی دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور صدرِ اسلام میں بڑی عمر کے صحابہ کرام بھی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔[5]

ایک معلّم کی ذمہ داری ہے کہ وه متعلم میں چھپی ہوئی صلاحیتوں اور قوتوں کو پروان چڑھایا جائے اور اسے مکمل ترقی و کمال تک پہنچائے۔ لہذا انسان کا حقیقی معلم خود خدا ہے، اس لیے کہ وه انسانوں کو اس طرح سے تعلیم دیتا ہے کہ وه اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں، جس کے وه مستحق ہیں۔ قرآن مجید کے نزول کا ایک اہم مقصد   انسانوں کو جہالت کی ظلمت سے نکال کر علم کے نور کی طرف لے جانا ہے۔[6] جب انسان ایک طالب علم کے طور پر اپنے آپ کو  قرآن مجید کی بارگاه میں پیش کرتا ہے تو اسے اپنے متعلق قرآن حکیم کی دوہری تصریحات کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے اور آیات تعریف و مذمت کے درمیان ظاہری اختلاف بھی دور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جتنے بھی ملحدانہ و مشرکانہ افکار و نظریات ہیں، اُن کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب انسان کی جہالت کی ظلمت کو اُس سے دور کرکے اُسے علم کی روشنی اور نور میں لے جاتی ہے۔[7]

علم اور تعلیم کی ساری دنیا میں یکساں اہمیّت ہے اور یہ اہمیت اس لئے بھی ہے، چونکہ بذریعہ تعلیم انسان کی سوچ، اخلاق اور رویّے کی تبدیلی کو تمام ماہرینِ تعلیم ممکن قرار دیتے ہیں۔[8]  ڈاکٹر سیف کے مطابق تعلیم انسان کی بالقوّه صلاحیتوں کے عمل میں بھی تبدیلی ایجاد کرتی ہے۔[9]  نیشنل کریکلم فریم ورک میں بھی تعلیم کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تعلیم انسانوں کے رویوں اور طرز عمل میں مطلوبہ تبدیلیاں لانے کا عمل ہے۔ تعلیم انسان کو علم، اقدار، عقائد، عادات، مهارتیں سیکھنے اور مزاجوں کو بدلنے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔[10] کلمہ تعلیم دراصل عربی کا لفظ ہے اور اردو میں مستعمل ہے۔ لغت میں تَعْلِیم کا مصدر عِلْم ہے اور اس کی جمع تعلیمات ہے۔ کسی کو علم سکھانے کا عمل، یا کسی کو کچھ سکھانا،  پڑھانا وغیره تعلیم کہلاتا ہے۔ اس لفظ کے معنی میں "دہرانے" اور "بتدریج" کا تصور بھی شامل ہے۔ اسی لئے راغب اصفهانی نے دو الفاظ "تعلیم" اور "اعلام" کا موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اَعلَمتُهُ" اور "عَلَّمتُهُ" بنیادی طور پر ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔  سوائے اس کے کہ اعلام فوری معلومات کے لیے ہے اور تعلیم سے مراد کسی چیز کو بار بار دہرانا ہے، تاکہ وه یاد ہو جائے۔[11]

شعبہ تعلیم میں علم اور تعلیم کی جدید انفرادیت کو سمجھنے کیلئے موجودہ دور میں شعبہ تعلیم کی تخصصی نوعیت اور اس کے خصوصی و جدید زاویوں سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ یوں تو علم منطق میں کسی شئے کی تصویر کا عقل میں آ جانا علم کہلاتا ہے۔[12]  تاہم جو علم اب جدید تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتا ہے، وہ اس تعریف سے کئی گنا زیادہ وسیع مفاہیم پر مشتمل ہے۔[13] انگلش زبان میں تعلیم  کیلئے doctrine، instruction، teaching، training، tutelage کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، لیکن جب ہم کسی تعلیمی ادارے کی تعلیم و تربیت کی بات کرتے ہیں تو اس وقت صرف Education کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔[14] انگلش زبان کے لفظ ایجوکیشن میں بیک وقت تعلیم و تربیت دونوں کے معانی پائے جاتے ہیں۔ اردو لغت میں بھی تعلیم سے مراد پڑھانا، سکھانا، بتانا، تلقین، ہدایت اور تربیت ہے۔[15]

انگریزی میں تعلیم کا متبادل لفظ "ایجوکیشن" ہے، جو لاطینی زبان کے دو الفاظ ‘ّEducere اور “Educare” سے ماخوذ ہے۔ Educere کے معنی “To bring out“ اظہار کرنا، باہر نکالنا، بروئے کار لانا جبکہ Educare کے معنی “To bring up“ پروان چڑھانا،  نشو و نما کرنا، اجاگر کرنا ہے۔ ایجوکیشن کی اصطلاح انہیں دو الفاظ سے مل کر بنی ہے۔[16] یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم شعوری طور پر علم، اقدار، رویے، مهارت یا حساسیت کو منتقل کرنے یا ابھارنے کی منظم اور مسلسل کوشش ہے۔[17] یہ وسیع البنیاد تعریف بتاتی ہے کہ تعلیم ایک شعوری اور بامقصد سرگرمی ہے۔ لفظ "تعلیم" ایسے ڈھانچے کے لیے مخصوص ہے، جو تعلیم کے لیے سوچے سمجھے اور شعوری ارادے کے ساتھ بنایا گیا ہو۔ یہ تعریف جہاں تعلیم کو ایک باہدف عمل کے طور پر بیان کرتی ہے، وہیں اب جدید دور میں علم ایک ایسا عمل ہے، جو معلومات، عقائد،  اقدار، رویوں، مہارتوں اور علمی تجربات کو پروان چڑھاتا ہے۔

علم التعلیم میں ایجوکیشن کی اصطلاح سے مراد سیکھنے اور سکھانے کی وه سرگرمی ہے، جو تعلیمی اداروں میں ماہرین تعلیم کی طرف سے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے انجام دی جاتی ہے۔ دنیا کی ساری اقوام تعلیم کے ذریعے ہی اپنے علوم و فنون اور دینی اقدار و اخلاقی محاسن کو آئنده نسلوں میں منتقل کرتی ہیں۔ ہر نسل کو اُس کے دور کے مطابق تعلیم دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کا نیشنل کریکلم فریم ورک تعلیم کے حوالے سے کہتا ہے کہ “تعلیم اپنی صلاحیتوں کو زیاده سے زیاده استعمال کرنے کا علم ہے۔ یہ ایک شخص کو سوچنے اور آگاہانہ طور پر (جانچ پرکھ کے ساتھ) انتخاب اور فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے۔[18] تعلیم کے ذریعے تبدیلی یہ کسی ایک مخصوص قسم کی تعلیم تک محدود نہیں، ہر تعلیم کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی امکان پذیر ہے۔[19] دینِ اسلام بھی بذریعہ تعلیم اس تبدیلی کی تائید کرتا ہے۔[20] الله نے جتنے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں، اُن سے بھی یه ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نکتہ نظر سے انسان میں بذریعہ تعلیم تبدیلی بعض صورتوں میں مُشکل ضرور ہے، لیکن ممکن ہے۔[21]

چنانچہ اب تعلیم ایک ایسی سرگرمی ہے، جو بہت سے متنوع مقامات پر انجام پاتی  ہے، گھر میں بیٹھے ہوئے، راستہ چلتے ہوئے یا بستر میں لیٹے ہوئے ہر حال میں تعلیم حاصل کرنے کا عمل انجام پا سکتا ہے۔ تعلیم کا یہ عمل اپنے ہمراه مقصد، اصول اور روشیں لئے ہوئے ہوتا ہے۔  فخرِ رازی کے مطابق علم انسان کی ایک اندرونی کیفیّت کا نام ہے کہ انسان اُسے واضح طور پر اپنے اندر پاتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق جو چیز انسان کیلئے اتنی واضح ہو، اُس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ فخر رازی علم کو ایک نظری تصور نہیں سمجھتے بلکہ اُن کے نزدیک علم ایک واضح و بدیهی مفهوم یے، جو کسی تعریف کا محتاج نہیں۔[22] تعلیمی اداروں میں مروّجہ تعلیم کی ایک مختصر  اور جامع تعریف ڈاکٹر نیکوزاد نے بھی پیش کی ہے: تعلیم سے مراد وه سرگرمی یا عمل ہے، جسے اسکول یا تعلیمی ادارے آگاہانہ طور پر معیّن شده ہدف کیلئے مخصوص پروگراموں کے ساتھ، درکار شعبہ جات میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و  تربیت کے لیے انجام دیتے ہیں۔[23]

علامہ حسن‌ زاده آملی کے مطابق علم و عمل ایک دوسرے سے مستقل طور پر جدا نہیں ہیں، بلکہ یه نفس کا جوہر ہیں اور دونوں ایک ہو جاتے ہیں تو انسان سازی کرتے ہیں۔[24] قرآن کریم کے نقطہ نظر سے انسان خدا کی اعلیٰ ترین مخلوق ہے اور اسی وجہ سے اس میں انسان کی تعلیم و تربیت کا سارا سامان فراہم کر دیا گیا ہے۔  قرآن مجید انسان کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پر نگاه رکھے ہوئے ہے اور انسان کی اچھائی اور برائی کی مقدار اور معیار اور اُس کی ہدایت و گمراہی کے تناسب کو سامنے رکھ کر اُسے تعلیم دیتا ہے۔ اس تعریف کی بنیاد پر تعلیم کا مطلب انسان کی اندرونی صلاحیتوں کی پرورش کرنا اور انہیں عملی جامہ پہنانا ہے۔[25] اسی طرح اسلام میں جو علم مطلوب و مقصود ہے، وہ فقط علم ہی نہیں ہے، بلکہ اسلام علوم نافع کی تاکید کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ علمِ غیر نافع ایسا علم ہے، جو ضروری نہیں کہ جادو ٹونے کی مانند مضر بھی ہو، بلکہ ہر ایسا علم جس کیلئے انسان اپنا وقت صرف کرے اور وه انسان کو فائده نہ دے تو وه غیر نافع ہے۔ اس بارے میں اسلامی ممالک میں تعلیم و تربیت کی تاریخ سے متعلقہ مباحث میں ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ افسوس کا مقام ہے کہ اُستادوں نے بےکار درسی مواد کا ڈھیر پڑھانے کی عادت اپنا لی ہے اور یہ کبھی بھی اپنی اس عادت کو ترک نہیں کریں گے۔ [26]

نافع علوم کو تعلیم و تربیت کے درسی مواد کے اعتبار سے تین اقسام (علوم نافع دنیاوی، علوم نافع اُخروی، علوم نافع ِدنیا و آخرت) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کا معیار زیاده سے زیاده فائده اور منافع ہے۔ علومِ نافع اخروی سے مراد وه علوم ہیں، جو ہر معاشره کے روحانی کمال اور اخروی زندگی سے زیاده سے زیاده فائده حاصل کرنے کی خاطر ہیں، جیسے صحیح عقائد کی تعلیم۔ ایسے عقائد کی تعلیم کا حصول مطلوب ہے۔ سارے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وه درست عقائد کی تعلیم کو اپنی توانائی کے مطابق سیکھنے میں مشغول ہوں۔[27] امام غزالی نے واضح طور پر کہا ہے کہ  علم کو مفید اور نفع بخش ہونا چاہیئے، ایسا علم جو انسان کیلئے نفع بخش نہ ہو، اُسے ایک طرف کر دیا جانا چاہیئے۔[28] سیّد احمد رہنمائی نے بھی تعلیم کی ایک مفید تعریف کی ہے۔ ان کے مطابق تعلیم و تربیت ایسی طے شُده تکنیکی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا ایک مجموعہ ہے، جو علم کے درست حصول کیلئے، نیز طلباء کی استعداد، تخلیقی صلاحیتوں، ذہنی وسعت اور رویّے و کردار کو پروان چڑھانے کی خاطر، مربّی کے مسلسل میدانی تجربات اور سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔[29]

جمع بندی
اب علم اور تعلیم کو ماضی کے فکری سانچے میں رکھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس سے مراد درسگاہوں میں اپنایا جانے والا وه منظم اور رسمی طریقہ کار ہے کہ جس کے ذریعے ایک نسل اپنی مجموعی معلومات، اخلاقی اقدار ہنر، سماجی روایات، علمی میراث اور تعلیمی تجربات کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی جدید دنیا میں علم سے مراد انسان کی اُن تمام جبلتوں اور خصلتوں کا نکھار اور رُشد ہے کہ جن پر انسانی فطرت کی بنیاد ہے۔ ایسی تمام جبلتیں اور خصلتیں انسان کے کمال کے لیے ضروری ہیں اور یہ انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہیں۔ اسی طرح تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جو متعلم کی تمام صلاحیتیوں کے اظہار اور ہمہ پہلو نشو و نما کے نیتجے میں اس کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی سیرت و کردار کی اس طرح تعمیر و تشکیل کرتا ہے، تاکہ وه معاشرے میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی ایک کامیاب شهری کی حیثیت سے بسر کرنے کے قابل ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 منابع:
[1] محمد بن یزید بن ماجه، سنن ابن ماجه، ج ا، ص ۸۱، رقم الحدیث: ۲۲۲۔
[2] ابو عیسیٰ محمد ترمذی، سنن الترمذی، ابْوَابُ العلم رقم الحدیث: ۲۶۴۷۔
[3] محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج۱، ص ۱۷۷؛ محمد بن یعقوب بن اسحاق  کلینی، الکافی ج ۸ ص ۹۔
[4] طہ ۱۱۴۔
[5]  محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرة بن بردزبه، بخاری صحیح البخاری، ج۱، ص۲۵۔
[6] کتَابٌ انزَلْنَاهُ الَیْکَ لتُخْرجَ النَّاسَ منَ الظُّلُمَات الَى النُّوره، ابراهیم۱
[7]  “لتهديهم به من ظلمات الضلالة والكفره، الى نور الايمان وضيائه،  وتُبصّهر به اهلَ الجهل والعمَى سُبُل الرَّشاد والهُدَى، تفسیر طبری، لتخرج الناس اي بالكتاب، وهو القران، اي بدعائك اليه. من الظلمات الى النور اي من ظلمات الكفر والضلالة والجهل الى نور الايمان والعلم; وهذا على التمثيل; لان الكفر بمنزلة الظلمة; والاسلام بمنزلة النور“،  تفسیر قرطبیی ذیل ایه ابراهیم۱، انما بعثناك يا محمد بهذا الكتاب; لتخرج الناس مما هم فيه من الضلال والغي الى الهدى والرشد۔ تفسیر ابن کثیر
https:، ،
quran.ksu.edu.sa، tafseer، katheer، sura14-aya1.html
[8] ارسطو، اخلاق نیکو ماخوسی، مترجم محمد حسن لطفی، ص ۵۳-۵۴۔
[9] علی اکبر سیف، مقدمه ای بر نظریه های یادگیری، ص ۳۰۔
[10]  نیشنل کریکلم فریم ورک کے ص ۱۷ پر واضح الفاظ میں لکھا ہے:
" Education is the process of bringing desirable changes in the attitudes and behaviours of human beings. It facilitates learning or acquisition of knowledge, values, beliefs, habits, skills and dispositions."

[11] راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القران، ص۵۸۰۔
[12] العلم صورة حاصلة من الشیء فی النفس
[13] ملا صدرا، مفاتیح الغیب، ص۲۶۲، ابن سینا، تعلیقات، ص۸۲۔
[14] آکسفورد Education
[15] مولوی فیروز الدین، فیروز اللغات، ص ۸۵
[16] علم التعلیم، بی اے، علامه اقبال اوپن یونیورسٹی، ص ۵۵
[17] یہ تعریف امریکی ماہره تعلیم کریمین، لارنس اے (لارنس آرتھر) نے کی ہے اور اسے ماہرین تعلیم کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ مزید تفصیلات کیلئے رجوع کیجئے: Cremin, Lawrence, Public Education, p. 27 
[18] نیشنل کریکلم فریم ورک کے ص ۱۷ پر ہی یہ بھی درج ہے:
"Education is the knowledge of putting one‘s potentials to the maximum use enabling a person to think and take informed choices and decisions."

[19] جورج فردریک نلر، ترجمه، محمد رضا آهنچیان،  یحییٰ قائدی، انسان شناسی تربیتی، ص ۶-۲۸۔
[20] نصیر الدّین طوسی، اخلاق ناصری ص۱۰۲-۱۰۶۔
[21] ابوحامد غزالی، کیمیای سعادت، ج۲، ص ۹-۱۰۔
[22] فخرالدین رازی، مباحث مشرقیه، ج ۱، ص ۳۳۱۔
[23] محمود نیکزاد، کلیات فلسفه تعلیم و تربیت، کیهان، تهران، ۱۳۸۱ش۔
[24] حسن‌ زاده آملی، انسان در عرف عرفان، ص۷۱ ۔
[25] مرتضیٰ مطهری، تعلیم و تربیت در اسلام ص ۵۷۔
[26] عبدالرحمن بن محمد ابن خلدون، مقدمۀ ابن خلدون، ج۱،  ص ۲۸۔
[27] علی رضا اعرافی، فقه تربیتی مبانی و پیش‌فرض‌ها، تحقیق و نگارش: سید نقی موسوی، ج ۲،  ص ۵۶۔
[28] ابوحامد غزالی، المستصفی من علم الاصول، ص ۲۲۰-۲۲۔
[29] سید احمد رہنمائی، درآمدی بر فلسفه تعلیم و تربیّت، ص ۳۷۔


خبر کا کوڈ: 1176597

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1176597/علم-اور-تعلیم-کے-مفہوم-پر-نگاہ-نو

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com