QR CodeQR Code

عمران خان اور بھٹو میں فرق

1 Dec 2024 20:42

اسلام ٹائمز: بھٹو نے یہ کیا اور سب سے اہم بات جو ہم بھول جاتے ہیں، وہ یہ کہ وہ اپنے آخری ایام میں در اہل بیتؑ پر آگئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس وقت کے معروف شیعہ عالم دین علامہ نصیر اجتہادی سے آئمہ اہلبیتؑ سے منسوب دعائیں مانگی تھیں۔ یقیناً اپنے آخری دنوں میں انہوں نے جن ہستیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو مایوس نہیں کیا ہوگا۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو عمران خان اور بھٹو میں ہے۔


تحریر: سید تنویر حیدر

عمران خان اس وقت اپنے مخالفین کے زیر عتاب اور سخت مشکلات میں ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ بعض معاملات میں اپنے سیاسی مخالفوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے موقف میں کس حد تک حق بجانب ہیں، اس پر تبصرہ کیے بغیر ان کی اس خوبی کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں دلیر انسان ہیں۔ ہمیں ان سے ہمدردی ہے اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ خدا ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ ہم ان کے اقتدار کے ایام میں بھی ان کی بعض بنیادی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے رہے۔ مثلاً جب وہ اقتدار میں تھے، تب بھی ہم نے ان کے حوالے سے یہ شعر ببانگ دہل کہا تھا کہ:
چھین کر حق ہمارا جینے کا
نام لے کوئی پھر مدینے کا


اگرچہ ہم نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ انہیں ہی دیا تھا، لیکن ہمارا ان سے سب سے بڑا اختلاف اس وقت پیدا ہوا، جب انہوں نے خود کو ایک خاص آدمی سمجھنا شروع کردیا اور اپنی اس خصوصیت کو باقی رکھنے کے لیے سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے جنازوں کے حوالے سے ایسی باتیں کیں، جنہیں سن کر پتھر بھی اندر سے ریزہ ریزہ ہو جائے۔ اس موقعے پر ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ”آج شہداء کے جنازے جس کے انتظار میں وقت پر دفن ہونے سے رہ گئے ہیں، اس کا اقتدار وقت سے قبل دفن ہوسکتا ہے۔“ پھر عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ میں نے اس کے بعد ان کے حقیقی ہمدرد اور ان کے سچے مخلص ہونے کے ناطے سے ایک مخلصانہ مشورہ دیا تھا اور حیران ہوں کہ اس قسم کا مشورہ انہیں ان کے بعض قریبی ساتھیوں نے کیوں نہیں دیا، جن کا حق مجھ سے ہزار گنا زیادہ بنتا تھا۔

مشورہ یہ تھا کہ اب بھی وقت ہے کہ شہداء کے ان وارثوں سے معافی مانگیں، جنہیں آپ نے بلیک میلر کہا تھا۔ شاید اس صورت میں شہداء کا خون بھی انہیں کو معاف کر دیتا اور پھر یقیناً جن ہستیوں کی محبت میں ان کا خون ناحق بہایا گیا تھا، وہ بھی آپ کو معاف کر دیں گی اور یوں آپ کے مصائب کا خاتمہ ہوگا۔ عمران خان کے لیے میرے اس مشورے پر عمل کرنا مشکل نہیں۔ وہ شہداء کے وارثین سے کسی بھی صورت میں معافی مانگ سکتے تھے۔ آخر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی مبارک باد بھی تو ایک ٹیوٹ کے ذریعے دی تھی۔ شہداء کے لواحقین کو بھی ایک ٹویٹ ہی کر دیتے، لیکن انہوں نے ایسا کرنا ضروری نہ سمجھا۔

اب میں مذکورہ دوسری شخصیت یعنی ذوالفقار علی بھٹو کی طرف آتا ہوں۔ بھٹو خوبیوں اور خامیوں کا مرقع تھے۔ وہ مذہبی آدمی نہیں تھے۔ سوشلزم کو راہ نجات مانتے تھے۔ بہت سے حوالوں سے وہ ڈکٹیٹر بھی تھے۔ ان سے بہت سی غلطیاں ہوئیں، لیکن عمران خان کی طرح طالبانائزیشن کے حامی نہیں تھے۔ آخرکار ملا ملٹری الائنس کے ہاتھوں تختہ دار پر جھول گئے لیکن جو بات انہیں امر کر گئی، وہ یہ کہ انہوں نے اپنے آخری دم تک جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل نہیں کی۔ انسان بعض اوقات اپنی زندگی کی آخری سانسوں میں کوئی ایسا عمل کر جاتا ہے، جو اس کی زندگی کے تمام گناہوں کو لپیٹ دیتا ہے۔

بھٹو نے یہ کیا اور سب سے اہم بات جو ہم بھول جاتے ہیں، وہ یہ کہ وہ اپنے آخری ایام میں در اہل بیتؑ پر آگئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس وقت کے معروف شیعہ عالم دین علامہ نصیر اجتہادی سے آئمہ اہلبیتؑ سے منسوب دعائیں مانگی تھیں۔ یقیناً اپنے آخری دنوں میں انہوں نے جن ہستیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو مایوس نہیں کیا ہوگا۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو عمران خان اور بھٹو میں ہے۔


خبر کا کوڈ: 1176022

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1176022/عمران-خان-اور-بھٹو-میں-فرق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com