پاراچنار پھر سے لہو لہان
25 Nov 2024 23:45
اسلام ٹائمز: پورے عالم انسانیت کی ذمے داری بنتی ہیں اور ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم سب ملکر اس درد کو محسوس کریں، اس کرب کو سمجھیں اور اس ظلم کیخلاف آواز بلند کریں۔ ہمیں اپنی محبتوں، اپنی خوشیوں اور اپنی امیدوں کیلئے لڑنا ہوگا۔ ہم سب کو ملکر ایک نئی صبح کی امید کیلئے کوشش کرنی ہوگی، تاکہ کوئی اور بے گناہ جان اس طرح نہ جائے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انکی یاد میں ایک مضبوط آواز بنیں، تاکہ ہمارے پیارے ملک کی سرزمین پر امن اور سکون قائم ہوسکے۔
تحریر: ایم اختر شگری
پاراچنار کی سرزمین، جہاں محبت، امن اور بھائی چارے کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں، آج ایک دردناک حقیقت کا سامنا کر رہی ہے۔ حالیہ دہشتگردی نے اس خوبصورت علاقے کو خون کے آنسوؤں سے بھر دیا ہے۔ 40 سے زائد بے گناہ جانیں، جن میں خواتین اور شیر خوار بچے شامل ہیں اور 100 سے زائد مرد، خواتین اور بچے زخمی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ ظلم و بربریت کی انتہاء ہوگئی کہ وہ چہرے جو کبھی خوشیوں سے بھرپور تھے، جن کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب تھے، مگر افسوس آج ان کی جگہ صرف سناٹا اور غم دکھائی دے رہا۔ کیا آپ ان بچوں کی معصومیت کا تصور کرسکتے ہیں، جن کی عمریں صرف 6 ماہ سے 13 سال کے درمیان ہیں، وہ بچے جو کل تک صرف کھیلتے، ہنستے اور مسکراتے تھے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی آرزو رکھتے تھے، آج ان کی زندگیوں کا چراغ بجھ چکا ہے۔ ان کی ماں، جو اپنے بچوں کی مسکراہٹوں کے لئے جیتی تھی، آج اس درد کو سہہ رہی ہے، جس کا کوئی مداوا نہیں۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہماری حکومت اور سکیورٹی فورسز اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ وہ ان درندوں کو روکنے میں ناکام ہیں یا انہیں غریب عوام کی جان و مال کی حفاظت کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔؟ ہمیں یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ کیا ہماری حکومت عوام کی حفاظت کے لیے سنجیدہ ہے یا صرف سیاسی کھیل میں مصروف ہے۔؟ ہماری ذذمے داری بنتی ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں، تاکہ ان بے گناہوں کی جانوں کا نذرانہ رائیگاں نہ جائے۔ ہم سب کو مل کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، تاکہ ہمارے پیارے ملک کے ہر شہری کو تحفظ مل سکے۔ پاراچنار میں بے گناہ لوگوں کی جانوں کا ضیاع ایک ایسا دل توڑ دینے والا سانحہ ہے کہ ہم انہیں اپنے الفاظ میں بیاں کرنے سے قاصر ہیں۔
اس دردناک دہشتگردی میں ہر ایک جان جو چلی گئی، وہ ایک ماں کی آغوش، ایک باپ کی دعاؤں اور ایک خاندان کی خوشیوں کا حصہ تھی۔ یہ وہ معصوم چہرے ہیں، جو اپنی زندگی کی سادہ خوشیوں میں مگن تھے، لیکن افسوس ایک ہی لمحے میں ان وحشی درندوں اور دہشتگردوں نے ان غریبوں کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ایک ماں اپنے بچے کو گھر سے باہر بھیجتی ہے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ وہ ہر لمحہ خوف میں رہتی ہے کہ کہیں اس کا پیارا واپس نہ آئے اور پھر جب وہ خبر آتی ہے کہ بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، تو دل کی دھڑکن رک جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا درد ہے، جو کسی کے دل میں بھی ہوسکتا ہے کہ جب ایک معصوم جان چلی جاتی ہے، تو اس کے پیچھے ایک ٹوٹا ہوا خاندان رہ جاتا ہے، جس کی خوشیوں کا ہر خواب چکناچور ہو جاتا ہے۔
کانوائے اور سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں یہ درندے بے خوف و خطر عوام الناس اور بےگناہ لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں اور ہماری حکومت اور سکیورٹی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں؟ کیا ان حکمرانوں کے دلوں میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے یا ان کی آنکھیں بند اور کان بہرے ہیں کہ وہ عوام کی چیخیں نہیں سن سکتے۔؟ پورے عالم انسانیت کی ذمے داری بنتی ہیں اور ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم سب مل کر اس درد کو محسوس کریں، اس کرب کو سمجھیں اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہمیں اپنی محبتوں، اپنی خوشیوں اور اپنی امیدوں کے لیے لڑنا ہوگا۔ ہم سب کو مل کر ایک نئی صبح کی امید کے لیے کوشش کرنی ہوگی، تاکہ کوئی اور بے گناہ جان اس طرح نہ جائے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی یاد میں ایک مضبوط آواز بنیں، تاکہ ہمارے پیارے ملک کی سرزمین پر امن اور سکون قائم ہوسکے۔
خبر کا کوڈ: 1175655