طاقت فوبیا، پاکستان کے لیے زہر قاتل
28 Nov 2024 11:33
اسلام ٹائمز: ہماری نسلوں کا مستقبل فقط معیشت سے نہیں بلکہ قانون و آئین کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی، ریاستی امور کی اعتدال کے ساتھ بجا آوری اور علم کو طاقت سمجھنے سے جڑا ہوا ہے۔ حامد میر نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والی در گھٹنا کے حوالے سے کیا خوب لکھا "آئین کی خلاف ورزی اندھیروں کو جنم دیتی ہے اور اندھیروں کی جیت پر فتح کے جشن منانا بیوقوفی ہے۔" پنجاب کی پاکستان پر حاکمیت کی باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں، خدا کرے حالیہ واقعات سے ان باتوں کو تقویت نہ ملی ہو اور کسی صوبے کے عوام کو احساس محرومی نہ ہوا ہو۔ پاکستان اس طرح کے احساسات کا مزید متحمل نہیں ہے۔
تحریر: سید اسد عباس
حالات کچھ ایسے ہیں کہ سب باتیں کھل کر نہیں لکھی جاسکتیں، بس کلی گفتگو سے ہی کوئی سمجھ جائے تو غنیمت ہوگی۔ ملک کی صورتحال پر کچھ لکھنا سورج کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ اہل وطن، پاک دیس کی صورتحال سے، مجھ سے زیادہ آگاہ ہیں۔ میں تو فقط اتنا جانتا ہوں کہ جب قانون، انصاف، مکالمہ اور سیاسی عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کی جگہ لاقانونیت، بے انصافی، زور زبردستی، دھونس اور تشدد کی راہ اپنائی تو پھر طرف مخالف کے پاس بھی اسی زبان میں بات کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچ جاتا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسند بلکہ علیحدگی پسند تنظیمیں پیدا ہوگئیں۔ ہم ان کو دہشت گرد کہیں، باغی کہیں یا غدار، ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر، گلگت بلتستان متنازع علاقے ہیں، خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، بلوچستان میں علیحدگی پسند جب اور جہاں چاہتے ہیں، کارروائی کر دیتے ہیں، لے دے کر ہمارے پاس پنجاب اور سندھ بچتے ہیں، جس کے عوام بھی مطمئن نہیں۔
عام شہری کا بندوق اٹھانا آسان کام نہیں ہوتا اور یقیناً عوام کی اکثریت ایسا نہیں کرتی ہے، تاہم جو لوگ بندوق اٹھا لیتے ہیں، خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہوں، ریاست کے لیے ایک مشکل بن جاتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی مشکلات مل کر ایک بڑے مسئلے کا روپ دھار لیتی ہیں، جیسا کہ ہمیں بلوچستان میں اس کا عینی مشاہدہ کرنے کو مل رہا ہے۔ اگر مکالمہ، گفت و شنید اور سیاسی عمل کو جاری رکھا جاتا، نیز انصاف کیا جاتا تو شاید ستر کی دہائی میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا نہ ہوتا، تاہم ہم نے اپنی اس غلطی سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اگر سیکھا ہے تو بس اتنا کہ طاقت کا استعمال مکمل طور پر نہیں کیا جاسکا، سرحدوں کا فاصلہ تھا، بیچ میں ہندوستانی سازشیں آگئیں، ورنہ ہم بنگالیوں کو دیکھ لیتے۔
پنجاب اور سندھ جہاں ظاہراً کوئی شدت پسند اور دہشت گرد نہیں ہے، وہاں ہم زبردستی لوگوں کو دہشت گرد بنا رہے ہیں۔ معروف کالم نگار اور مزاحیہ شاعر خالد مسعود نے اپنے آج کے کالم میں لکھا کہ "یہ ملک ایک عرصے سے جتھوں کے نرغے میں ہے۔ کبھی سوات میں جتھے بند پوری وادی کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور ریاست کو کھدیڑتے ہوئے مالاکنڈ اور درگئی سے پار دھکیل دیتے ہیں۔ کبھی یہ جتھے دل کے ہسپتال پر حملہ کرکے مریضوں کی آکسیجن بند کرکے ان کی موت کا سامان بنتے ہیں، مگر کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی اپنے جتھے کے زور پر مسیحا ہڑتال کر دیتے ہیں اور مریض بے چارگی میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں، مگر کسی کو اس جتھے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ کبھی یہ جتھے ملک کے دارالحکومت کی شہ رگ پر دھرنا دے کر سارا نظام جامد کر دیتے ہیں اور ریاست ان کو خرچہ پانی، کرایہ آمدورفت اور ٹی اے ڈی اے کے لفافے عطا کرتی ہے۔"
خالد مسعود صاحب، جب ہم طاقت کو مشکل کشاء تسلیم کر لیں اور قانون و انصاف کا سر عام قتل کریں تو پھر جتھے ہی بنتے ہیں، جن کا آپ نے حوالہ دیا اور جب جتھے اپنی بات سیاسی زبان میں نہیں منوا سکتے تو اگلا مرحلہ عسکریت ہے۔ زیادہ طاقت کے اس فلسفے نے صدر مملکت سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں بعض لکھاری اور دانشور ملک میں ہونے والے گذشتہ روز کے واقعات کے مقابل ملکی معیشت کا رونا لیے بیٹھے ہیں، یقیناً معیشت ایک اہم مسئلہ ہے، تاہم اگر انصاف اور قانون کی حکمرانی نہ ہو، یعنی اچکوں کی حکمرانی ہو تو کیسے کوئی سرمایہ کاری کرے گا یا مال بنائے گا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کے محلے میں رہنے والا کوئی بھی شریف آدمی اپنا قیمتی مال کم از کم اس محلے میں نہیں رکھے گا اور نہ ہی اس محلے میں کاروبار کرے گا۔
سیاسی، قانونی، معاشرتی اور معاشی مسائل کی اپنی اپنی جگہ ہے، کسی مسئلہ کا دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، یعنی نہیں کہا جاسکتا کہ ملک کی معیشت بہتر ہو رہی ہے، اس لیے فلاں بندہ انصاف کا تقاضا نہ کرے۔ عدالت کا الگ مقام ہے اور معیشت کی اپنی جگہ، پاکستان کب سنگاپور رہا ہے کہ لوگ آج سٹاک مارکیٹ کی بہتری کو دیکھ کر اپنے آئینی اور قانونی حقوق سے دستبردار ہو جائیں۔غالب تو ہماری معاشی صورتحال کے بارے عرصہ قبل اظہار کرکے چلے گئے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہمارا فاقہ مستی ایک دن
ہماری نسلوں کا مستقبل فقط معیشت سے نہیں بلکہ قانون و آئین کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی، ریاستی امور کی اعتدال کے ساتھ بجا آوری اور علم کو طاقت سمجھنے سے جڑا ہوا ہے۔ حامد میر نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والی در گھٹنا کے حوالے سے کیا خوب لکھا "آئین کی خلاف ورزی اندھیروں کو جنم دیتی ہے اور اندھیروں کی جیت پر فتح کے جشن منانا بیوقوفی ہے۔" پنجاب کی پاکستان پر حاکمیت کی باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں، خدا کرے حالیہ واقعات سے ان باتوں کو تقویت نہ ملی ہو اور کسی صوبے کے عوام کو احساس محرومی نہ ہوا ہو۔ پاکستان اس طرح کے احساسات کا مزید متحمل نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ: 1175344