جلتا پاراچنار، مسائل اور حل
23 Nov 2024 11:34
اسلام ٹائمز: ایک بریگیڈیئر صاحب کی تحریر زیر گردش ہے کہ پولیس کی زیر نگرانی کانوائے پر ایک جگہ حملہ ہوتا ہے اور وہاں پر لوگ شہید ہو جاتے ہیں، کچھ گاڑیاں بچ جاتی ہیں، وہ آگے جاتی ہیں، دوسرے گاؤں میں ایک دوسرا حملہ ہوتا ہے، مزید شہادتیں ہو جاتی ہیں اور جو گاڑیاں بچ جاتی ہیں، وہ آگے جاتی ہیں اور تیسرے گاؤں میں مزید شہادتیں ہو جاتی ہیں۔ اتنے منظم طریقے سے اور اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ کوارڈینیٹڈ اٹیکس ہو جاتے ہیں، کیا عام آبادی کے پاس اتنے وسائل ہیں۔؟ اس طرح حملے تو ہالی وڈ کی فلموں میں ہوتے ہیں۔ یہ بات مزید سوالات پیدا کرتی ہے کہ پچاس پولیس اہلکاروں میں سے کہا جا رہا ہے کہ ایک بھی زخمی بھی نہیں ہوا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سو لوگ شہید کر دیئے جائیں اور حفاظت پر مامور لوگوں کو خراش تک نہ آئے۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پاراچنار جنت نظیر خطہ ہے، جو خوبصورت پہاڑوں اور زرخیر وادیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگ دیگر قبائلی علاقوں کے برعکس انتہائی پڑھے لکھے اور مہذب ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی بڑے تعلیمی ادارے میں چلے جائیں، آپ کو پاراچنار کے اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں ملیں گے۔ اب تو یہ بات دنیا کے بڑے تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ جنوبی کوریا سے آسٹریلیا تک دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں پاراچنار کے اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں ایک ماہ کے قریب پاراچنار میں رہا ہوں، اس دوران ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو پاراچنار آئے تو انہوں نے ہمارے مشیران سے کہا آپ کو کیا چاہیئے۔؟ اس پر انہوں نے کہا آپ ہمیں ایک کالج دے دیں۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ کالج کو کیا کرو گے۔؟ کوئی روڈ یا کوئی چھوٹا موٹا ڈیم لے لو۔ اس پر مشیران نے کہا کہ ہمیں تو کالج ہی چاہیئے۔ یوں وہ کالج قائم ہوا، جس نے تمام قبائلی ایجنسوں میں کرم ایجنسی کی تعلیمی برتری میں اہم کردار ادا کیا۔
یہاں کے لوگ بہت محنتی ہیں، آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلیں جائیں، وہاں بھی آپ کو زراعت کرتے لوگ ملیں گے۔ یہاں کا چاول بہت مشہور ہے۔ ایک وقت تھا، یہاں کی شرح خواندگی اسلام آباد سے زیادہ تھی۔ جب پورے کے پی میں بچیوں کے سکول جلائے جا رہے تھے، پاراچنار کی سڑکیں چھٹی کے ٹائم پر چادروں میں ملبوس بیٹیوں سے بھر جاتی تھیں۔ اس تعلیمی مزاج نے پاراچنار کے لوگوں کو دیگر ایجنسیوں کے لوگوں سے مختلف سوچنے والا بنا دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چار سال تک پاراچنار کا محاصرہ رہا تھا اور لوگ افغانستان سے پاراچنار میں داخل ہوتے تھے۔ اس وقت بھی بنیادی لڑائی طالبان کی اطاعت اور انہیں افغانستان میں جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی تھی۔ میری طرح آپ نے بھی سوچا ہوگا کہ جب دیگر ایجنسیوں سے افغانستان میں داخلے کے لیے راستے موجود ہیں تو ایک شیعہ علاقے کا انتخاب ہی کیوں کیا جاتا ہے۔؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے پاراچنار کا محل وقوع سمجھنا ہوگا۔
پاراچنار طوطے کی چونچ کی طرح افغانستان سے یوں متصل ہے کہ تین طرف افغانستان اور ایک طرف پاکستان ہے۔ افغانستان کے تین صوبے یہاں سے نزدیک ہیں اور پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر سے کابل یہاں زیادہ نزدیک ہے۔ یہی دفاعی اہمیت یہاں کی طاقت ہے اور ہر مسلح گروہ اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاراچنار کے لوگوں نے کسی کے لیے استعمال ہونے سے انکار کر دیا۔ جس کی انہیں قیمت چار سال تک مسلسل افغانستان سے آ کر ادا کرنا پڑی۔ آپ مالی، تعلیمی، نفسیاتی نقصان کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ لوگوں کی بیرون ملک ملازمتیں چلی گئیں، اسی طرح سینکڑوں مریض علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے اور کانوائے پر ہونے والے حملوں میں سینکڑوں لوگ شہید ہوگئے۔ اہلیان پاراچنار نے اس جبر کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا۔ پاراچنار کے لوگ جانتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اس ظالمانہ فسادی گروہ کو راستہ دے دیا تو ہمیشہ کے لیے محکوم ہو جائیں گے اور دین و دنیا دونوں میں خسارہ میں رہیں گے۔
ایک بریگیڈیئر صاحب کی تحریر زیر گردش ہے کہ پولیس کی زیر نگرانی کانوائے پر ایک جگہ حملہ ہوتا ہے اور وہاں پر لوگ شہید ہو جاتے ہیں، کچھ گاڑیاں بچ جاتی ہیں، وہ آگے جاتی ہیں، دوسرے گاؤں میں ایک دوسرا حملہ ہوتا ہے، مزید شہادتیں ہو جاتی ہیں اور جو گاڑیاں بچ جاتی ہیں، وہ آگے جاتی ہیں اور تیسرے گاؤں میں مزید شہادتیں ہو جاتی ہیں۔ اتنے منظم طریقے سے اور اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ کوارڈینیٹڈ اٹیکس ہو جاتے ہیں، کیا عام آبادی کے پاس اتنے وسائل ہیں۔؟ اس طرح حملے تو ہالی وڈ کی فلموں میں ہوتے ہیں۔ یہ بات مزید سوالات پیدا کرتی ہے کہ پچاس پولیس اہلکاروں میں سے کہا جا رہا ہے کہ ایک بھی زخمی بھی نہیں ہوا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سو لوگ شہید کر دیئے جائیں اور حفاظت پر مامور لوگوں کو خراش تک نہ آئے۔آپ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں یا آپ اس کی مذمت کریں یا نہ کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
21ویں صدی ہے اور کیمرے کی انکھ سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں۔ ویڈیوز میں صاف نظر آرہا ہے، پشتو زبان میں سارے مقامی لوگ کہہ رہے ہیں کہ پکڑو پکڑو آگے نہ جائیں۔ لاشوں کی گاڑی پر لوگ پتھر برساتے نظر آ رہے ہیں۔ بچے، خواتین اور بزرگ شہید کیے جاتے ہیں اور ان کی لاشوں کی بیحرمتی کی جاتی ہے۔ اہلیان پاراچنار کو ہمیشہ راستے کے معاملے پر بلیک میل کیا جاتا ہے اور ان کی دکھتی رگ سمجھ کر اس کو ہی دبایا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف ایک یہی راستہ ہے، ایک اور متبادل راستہ موجود ہے، جس کے نوے فیصد پر شیعہ آبادی ہی ہے اور باقی کچھ زمینیں جو افغان مہاجرین کو بطور امداد کچھ عرصہ کے لیے دی تھیں اور بعد میں انہوں نے ٹھیکہ پر لے لی تھیں۔ آج انہوں نے ہی راستہ روکا ہوا ہے۔ جب انہیں کہا کہ زمینیں خالی کرو تو انہوں نے ٹھیکہ دینا بھی بند کر دیا ہے اور مسلکی سہارے پر بندوقیں اٹھا لی ہیں۔
صدہ میں ایک بڑی آبادی شیعہ تھی، ان پر اجتماعی حملے کیے گئے اور ان کا قتل عام کیا گیا، آج آپ کو صدہ میں ایک بھی شیعہ نطر نہیں آتا۔ آج بھی کاغذات میں مین صدہ بازار اور بڑی بڑی آبادیوں کی ملکیت شیعوں کے پاس ہے اور وہ خرید و فروخت، کرایہ یا اس کے استعمال سے محروم ہیں۔ جب بھی اس سلسلے میں حکومت سے بات کی جاتی ہے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ یہاں ایک گاوں بوشہرہ کا بہت تذکرہ کیا گیا، یہاں کی زمین طوری شیعہ حضرات کی ملکیت ہے، مالک دربدر ہیں اور عدالت سے لے کر جرگے تک ہر جگہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زمین طوریوں کی ہے، مگر جب بھی وہ اپنی زمین پر جاتے ہیں، دو چار لاشیں لے کر واپس آتے ہیں۔ یہ کہاں کا دستور ہے۔؟ انسان اپنی زمین پر جائے اور خون میں نہلا دیا جائے۔ ریاست کو اپنے قانون کی عملداری یقینی بنانا ہوگی، جو جس کی زمین ہے، اس کے حوالے کرنا ہوگی۔ متبادل راستے میں موجود جو علاقے طوری شیعہ کی ملکیت ہیں، ان کے حوالے کیے جائیں اور اس روٹ کو فوراً نئے سرے سے تعمیر کیا جائے۔ لوگ ایک حد تک قربانی دے سکتے ہیں اور ایک وقت تک انہیں بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔
اہلیان پاراچنار سے قربانی لی جا چکی ہے اور انہیں ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جا چکا ہے۔ جنگ جن کی ہے، انہی کو لڑنی چاہیئے، عام عوام کو استعمال نہ کریں۔ ضرورت ہے تو انہیں فوج میں بھرتی کیا جائے، ان کی تربیت کی جائے، یہ آپ کے لیے بہترین جنگجو ہوں گے۔ مسلک اور فرقہ کے نام پر لڑانا ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ سوچنا ہوگا جن لوگوں نے طالبان کے مقابلے میں پاک فوج کا دفاع کیا اور انہیں کبھی اس بارڈر سے گرم ہوا نہیں آنے دی، ان کو اس قدر سزا کس چیز کی دی جا رہی ہے کہ ان کے چھ چھ ماہ بچے تک ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ظلم ہے، امن پسندی ایک وقت تک اچھی ہوتی ہے، امن وہی اچھا ہوتا، جو ہمیں حاصل ہو، میرے مال و جان کی قربانی کی قیمت پر کسی دوسرے کو امن حاصل ہو، اس سے بڑی کوئی بکواس نہیں ہے۔ میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے اور میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ ہماری فورسز اس قابل نہیں ہیں کہ بیس کلومیٹر کا علاقہ ان سے کلیئر نہ ہو۔
پاراچنار کے مسئلے کے حل لیے چند فوری قابل عمل تجاویز ہیں۔
۱۔ افغان سیاست کے لیے اہلیان پاراچنار کو قربان کرنا بند کیا جائے۔
۲۔ زمینوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کیا جائے۔
۳۔ شہداء کے خاندانوں کی کفالت کی جائے اور زخمیوں کا ریاست علاج کرائے۔
۴۔ واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف بلا تفریق مسلک و قبیلہ کاروائی کی جائے۔
۵۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے براہ راست دھمکیاں دینے اور چیلنج کرنے والوں کے خلاف کاروائی جائے۔
۶۔ تکفیر اور توہین کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے۔
۷۔ راستے پر کرم سکاوٹس کو تعینات کیا جائے، یہ راستے اور قبائل سے آگاہ ہیں، بہتر انداز میں راستے کی حفاظت کریں گے۔
۸۔ علاقے میں مضبوط اور غیر متعصب بیروکریسی اور فوجی انتظامیہ تعینات کی جائے، جو عادلانہ فیصلے کرے اور ان کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
۹۔ متبادل راستے کو ترجیحی بنیادوں پر کھولا جائے۔
۱۰۔ مذہبی اور قومی رہنماوں کو مقامی قیادت کے ساتھ انگیج کیا جائے اور مسائل کے مستقل حل کے لیے کوشش کی جائے۔
خبر کا کوڈ: 1174270