مرغ خیال کی قربانی کا فتویٰ
20 Nov 2024 23:07
اسلام ٹائمز: اگر کوئی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے بعض اقدامات کے ذریعے مرغ خیال کو پرواز کرنے سے روک پائے گی تو سابقہ ٹویٹر (ایکس) نے اس کے اس خیال کو باطل قرار دے دیا ہے۔ غزہ کے بحران میں عالمی جذبات کو ابھارنے میں ”سائبر اسپیس ٹولز“ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حکومتی ذرائع ابلاغ صیہونیوں کے جرائم کو اس طرح سے نہیں دکھانا چاہتے تھے جس طرح سے سابقہ ٹویٹر (ایکس) نے دکھائے۔ اگر ”ورچوئل اسپیس“ اور ٹویٹر نہ ہوتے تو لوگ ان جرائم سے آگاہ نہ ہوتے۔
تحریر: سید تنویر حیدر
جدید دنیا میں ذرائع مواصلات کی حیثیت آفاقی ہے۔ یہ جغرافیائی حدود سے بالاتر ہیں۔ ”وی پی این“ مواصلاتی آلات میں سے ایک آلہ ہے۔ آپ اس آلے کا استعمال اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ آج جس طرح ایک موبائل کے ذریعے ہم دنیا کے ہر سیاہ و سفید کا نظارہ کر سکتے ہیں، ٹیوٹر اور وی پی این بھی اسی نوعیت کا ”جام جہاں نما“ ہے جس سے ہم اپنی دیکھتی آنکھوں سے واقعات عالم کا فوری اور بروقت مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
اگر راہ چلتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے اچانک کوئی ناپسندیدہ منظر آجائے تو ہمارے پاس وقتی طور پر اپنی آنکھوں کو بند کرنے کا آپشن تو موجود ہے لیکن ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ہم اپنی آنکھوں کو ہی سرے سے نکال پھینکیں۔ یوں ہم عمر بھر کے لیے اپنے پسندیدہ مناظر بھی دیکھنے سے محروم ہو جاہیں گے۔ آج کی دنیا میں جہاں ہر شے گلوبلائز ہو چکی ہے وہاں انسانی جذبات بھی گلوبلائز ہو چکے ہیں۔ انہیں اب کسی حصار میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ آج کی حکومتیں اب ان جذبات و احساسات پر قابو پانے کی طاقت کھو چکی ہیں۔
اگر کوئی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے بعض اقدامات کے ذریعے مرغ خیال کو پرواز کرنے سے روک پائے گی تو سابقہ ٹویٹر (ایکس) نے اس کے اس خیال کو باطل قرار دے دیا ہے۔ غزہ کے بحران میں عالمی جذبات کو ابھارنے میں ”سائبر اسپیس ٹولز“ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حکومتی ذرائع ابلاغ صیہونیوں کے جرائم کو اس طرح سے نہیں دکھانا چاہتے تھے جس طرح سے سابقہ ٹویٹر (ایکس) نے دکھائے۔ اگر ”ورچوئل اسپیس“ اور ٹویٹر نہ ہوتے تو لوگ ان جرائم سے آگاہ نہ ہوتے۔
صیاد کیا ہوئی وہ تری خوئے احتیاط
مرغ خیال کے نہ مرے پر کتر دیئے
آج ٹویٹر نے ”مین سٹریم میڈیا“ کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ آج بین الاقومی پبلک میڈیا کی یہ مجبوری بن چکی ہے کہ وہ سابقہ ٹویٹر (ایکس) کو فالو کرے۔ ماضی میں مخصوص میڈیا جن خبروں کو اپنی خواہش کے مطابق بناتا سنوارتا تھا، آج وہ ان خبروں کو اپنی مرضی کا جامہ نہیں پہنا سکتا۔ آج ٹویٹر کے افق پر ابھرتی ہوئی کسی خبر کی میڈیا عکاسی نہ کرے تو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ آج بین الاقوامی سٹیج پر ایک عام فرد بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو ایک حکومت یا کوئی ادارہ ادا کر رہا ہے۔ آج کوئی شخص بھی دنیا کے کسی حصے میں ایکٹو ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے پاس ایکٹیوزم کا ٹول ٹویٹر رکھتا ہے۔
سابقہ ٹویٹر (ایکس) ایسے لوگوں کو ایک امکان فراہم کرتا ہے جن کے پاس وسیع امکانات نہیں ہیں۔ ٹویٹر ہی آپ کو آپ کے مخالف فریق کے وسیع تر امکانات کو ایک چھوٹے سے امکان کی مدد سے بے اثر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آج کے ٹویٹر کا ایک لمحہ ماضی کی صدیوں پر محیط ہے۔ اگرچہ ٹویٹر کی سپیس وضاحتی گفتگو یا مکالمے کے لیے نہیں ہے لیکن یہ 280 الفاظ میں ان لوگوں کے لیے پیغام رسانی کا کام کرتا ہے جن کے پاس مغرب کی طرح کے وسیع امکانات تک رسائی نہیں ہے۔
آج کے بین الاقوامی سامعین کے دامن صبر میں گنجائش کم ہے۔ وہ خبر تک فوری رسائی چاہتے ہیں۔ ٹویٹر ان کی اس بے صبری کا علاج کرتا ہے۔ ٹویٹر پر ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوتا ہے۔ یہ ٹویٹر ہی ہے جس نے آج ہر شخص کو ایسے محتسب کے درجے پر پہنچا دیا ہے جسے اپنی حکومت کے احتساب کا حق حاصل ہے۔ لہذا عوام کی اس حیثیت کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ VPN اور ٹویٹر کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔
خبر کا کوڈ: 1173779