امریکی جریدے کا اعتراف
15 Nov 2024 11:57
اسلام ٹائمز: مزاحمتی گروہوں کی کامیابی اور استقامت کی ایک اور اہم وجہ ان گروہوں کے رہنماؤں اور ارکان کا مضبوط ایمان کا حامل ہونا اور مذہبی عقائد سے مضبوطی سے جڑا رہنا ہے۔ مزاحمتی جماعتوں کے قائدین اور ارکان کو نہ صرف موت کا خوف نہیں ہے بلکہ وہ دین اور وطن کی راہ میں شہادت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی صیہونی حکومت کے بے مثال جرائم کے مقابلے میں انکی ذہنی برتری اور نفسیاتی کامیابی کے عوامل میں سے ایک ہے۔
تحریر: سید رضا عمادی
امریکی میگزین "فارن افیئرز" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کے حوالے سے صیہونی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے ان گروہوں کی مختلف صلاحیتوں اور پوٹینشل کو نظر انداز کیا ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی جمعہ پندرہ نومبر کو چودہویں مہینے میں داخل ہو جائے گی۔ اگرچہ لبنان کے خلاف جنگ 8 اکتوبر 2023ء کو شروع ہوئی تھی، لیکن لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو دوسرا مہینہ گزر رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران صیہونی حکومت نے غزہ اور لبنان میں مزاحمتی گروہوں کو بہت سی انسانی اور فوجی ضربیں لگائی ہیں لیکن مطلوبہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 43,736 اور زخمیوں کی تعداد 103,370 تک پہنچ گئی ہے۔ ادھر لبنان کی وزارت صحت نے بھی اعلان کیا ہے کہ 8 اکتوبر 2023ء سے اب تک 3,365 افراد شہید اور 14,344 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انسانی جانوں کے علاوہ صیہونیوں نے مزاحمت کے سیاسی، اقتصادی، فوجی، لاجسٹک اور مواصلاتی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے اور حماس اور حزب اللہ کے رہنماوں کی بڑی تعداد کو بھی شہید کیا ہے۔ صیہونیوں کے جرائم جاری ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غزہ اور لبنان میں مزاحمت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی جریدے فارن افیئرز نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ صیہونی حکومت نے شدید حملوں اور بھرپور امریکی حمایت سے حاصل ہونے والی فوجی برتری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے تعاون سے اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر دیا ہے۔ اب وہ رہائشی گھروں اور دیہاتوں کو تباہ کرکے لبنان میں بفر زون بنا رہا ہے، لیکن وہ مزاحمت کے بلاک کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرسکتا۔ فارن افیئرز کے مطابق مزاحمتی بلاک کی تاریخی استقامت سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو حماس اور حزب اللہ جیسے گروہوں کو ختم کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی ہمہ گیر جنگ مختصر مدت کی مبینہ حکمت عملی کی فتح کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکے گی۔
مزاحمت کتنی مضبوط ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ایک اہم ترین وجہ جس کا فارن افیئرز نے بھی اعتراف کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مزاحمت کا بلاک اپنی عوام اور کمیونٹیز میں جڑیں پکڑ چکا ہے اور اس نے کئی بار اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ یہ مزاحمتی تحریکیں اپنے ملکوں کے عوامی تانے بانے میں اس قدر پیوست ہیں کہ انہیں ختم کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ مزاحمتی گروہوں کی کامیابی اور استقامت کی ایک اور اہم وجہ ان گروہوں کے رہنماؤں اور ارکان کا مضبوط ایمان کا حامل ہونا اور مذہبی عقائد سے مضبوطی سے جڑا رہنا ہے۔ مزاحمتی جماعتوں کے قائدین اور ارکان کو نہ صرف موت کا خوف نہیں ہے بلکہ وہ دین اور وطن کی راہ میں شہادت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی صیہونی حکومت کے بے مثال جرائم کے مقابلے میں ان کی ذہنی برتری اور نفسیاتی کامیابی کے عوامل میں سے ایک ہے۔
صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کی کامیابی اور استقامت کی ایک اور وجہ ان گروہوں کے کمانڈروں کی درجہ بندی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے سرکردہ رہنماؤں کی شہادت ان گروہوں کے خاتمے کا سبب نہیں بنی۔ قائدین کی شہادتوں کے باوجود فوری طور پر شہید کمانڈروں کی جگہ نئے کمانڈروں نے لے لی۔ان مذکورہ اسباب کی وجہ سے صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی استقامت جاری ہے اور ان وجوہات کی وجہ سے صیہونی کابینہ میں شامل بعض اراکین اور مقبوضہ علاقوں کے بعض افراد نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس جنگ میں مکمل فتح ناممکن ہے۔ استقامتی بلاک کی انہیں خصوصیات کو دیکھتے ہوئے صیہونی کابینہ نے جنگ جاری رکھنے کی مخالفت اور جنگ کے خاتمے کا فوری مطالبہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1172789