ٹرمپ دوراہے پر!
12 Nov 2024 21:30
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں روس کے قریب ہونے اور یوکرین میں جنگ ختم کرنے کا یہ خیال حقیقت سے زیادہ خواب جیسا لگتا ہے۔ روس کو کمزور کرنے اور اسکے پھیلاؤ کو روکنے کی امریکی اور یورپی میکرو حکمت عملی پہلے بھی تھی اور آئندہ بھی موجود رہے گی۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے سے بھی واشنگٹن اور اسکے اتحادیوں کی روس کے تئیں پالیسیاں آسانی سے تبدیل نہیں ہونگی اور امریکا اور روس کے درمیان جغرافیائی سیاسی چیلنجز بدستور برقرار رہیں گے۔
تحریر: سید رضا میر طاہر
نیٹو کے رکن ممالک اور یوکرین کے اہم اتحادی امریکہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد یوکرین کی حمایت کو کم نہ کریں۔ اس سلسلے میں برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے پیر کو ایک ملاقات کی اور یوکرین کے حوالے سے امریکی پالیسی کے ممکنہ منظرناموں پر تبادلہ خیال کیا۔ برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے بھی پیر کو کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ امریکی مکمل فتح تک یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2024ء کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہ 20 جنوری 2025ء کو اپنی دوسری مدت کا آغاز کریں گے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یوکرائن کی جنگ کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے اور خاص طور پر دسیوں ارب ڈالر مالیت کی فوجی اور ہتھیاروں کی امداد دینے پر شدید اعتراضات کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو کے یورپی ارکان یوکرین کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ، جو یوکرائن کے مستقبل کے لیے اہم نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اس وقت حساس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کو امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد پر تنقید کی ہے اور اس سے قبل یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو دنیا کا سب سے بڑا دکاندار تک کہا ہے۔ اس طرح کے بیانات کی وجہ سے یوکرین کے لیے امریکی فوجی امداد اور ہتھیاروں میں نمایاں کمی کے بارے میں نیٹو ممالک کی تشویش قابل فہم ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ جونیئر نے سوشل نیٹ ورکس پر ایک پیغام شائع کرتے ہوئے یوکرین کے صدر کا مذاق اڑایا اور کہا ہے کہ یوکرین کے صدر جلد ہی اپنی "پنشن" سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو روس-یوکرین جنگ ختم کر دیں گے اور ایک ایسے معاہدے پر کام کریں گے، جو ماسکو اور کیف دونوں کے لیے اچھا ہوگا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی بار یہ بھی اعلان کیا کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر یوکرین میں جنگ ختم کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس نے کبھی وضاحت نہیں کی کہ یہ کیسے ہوگا، لیکن اس نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ جنگ ختم کرنے کے لیے کیف کو اپنے علاقے کا کچھ حصہ چھوڑنا بھی پڑ سکتا ہے۔ تاہم ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد یوکرین میں جنگ کے فوری خاتمے یا جنگ بندی کے اس خواب کے حقیقت بننے میں بہت ساری مشکلات حائل ہیں۔
ٹرمپ کے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے اس وعدے نے نیٹو کے یورپی ارکان بالخصوص جرمنی میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس حوالے سے جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریس نے نئے امریکی صدر اور روسی صدر کے درمیان یوکرین امن منصوبے پر عمل درآمد اور یورپ کے لیے اس کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ بہرحال یوکرین میں جنگ کے بارے میں ٹرمپ کے تمام سابقہ بیانات کے باوجود، انہیں اپنی صدارت کے دوران ایک اہم مخمصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف، "سب سے پہلے امریکہ" کی پالیسی اور ملکی اقتصادی مفادات کی ترجیح ٹرمپ کو فوجی اخراجات کم کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کو روکنے کی طرف کھینچے گی، لیکن دوسری طرف روس کو کمزور کرنے کی پالیسی اب بھی امریکہ اور نیٹو کی اہم حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ یوکرین میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا اور ماسکو کے اثر و رسوخ کو پھیلنے سے روکنا امریکہ اور یورپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
یوکرین کی فوجی امداد میں کمی لا کر ٹرمپ اس جنگ میں امریکہ کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ پالیسی مختصر مدت میں روس پر دباؤ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے، لیکن موجودہ تناؤ اور متضاد مفادات کی وجہ سے اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہوں گے۔ دوسری طرف ٹرمپ کو امریکی کانگریس اور یہاں تک کہ واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ فروری 2022ء میں یوکرین میں جنگ شروع ہونے والی کشیدگی دراصل امریکہ روس کی سرد جنگ کے بعد کی پالیسیوں اور نیٹو میں یوکرین کی رکنیت پر ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کئی برسوں سے جاری اختلافات کا نتیجہ تھی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی حکومت اور حکمران بدلتے رہے، لیکن اس حوالے سے ان کی پالیسیاں ایک مستقل رجحان کی حامل رہیں۔ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں روس کے قریب ہونے اور یوکرین میں جنگ ختم کرنے کا یہ خیال حقیقت سے زیادہ خواب جیسا لگتا ہے۔ روس کو کمزور کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی امریکی اور یورپی میکرو حکمت عملی پہلے بھی تھی اور آئندہ بھی موجود رہے گی۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے سے بھی واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی روس کے تئیں پالیسیاں آسانی سے تبدیل نہیں ہوں گی اور امریکا اور روس کے درمیان جغرافیائی سیاسی چیلنجز بدستور برقرار رہیں گے۔
خبر کا کوڈ: 1172253