صیہونی، حزب اللہ لبنان کے پنجوں میں
12 Nov 2024 21:45
اسلام ٹائمز: اگرچہ کچھ حلقے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو بنجمن نیتن یاہو کے حق میں مفید سمجھتے ہیں لیکن یہاں اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی ایک اہم وجہ وہ وعدے تھے جو انہوں نے الیکشن مہم کے دوران مغربی ایشیا اور یوکرین میں جنگ بند کروانے کے بارے میں دیے تھے۔ اسی طرح کملا ہیرس کی شکست کی ایک بنیادی وجہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے قیام میں ڈیموکریٹک حکومت کی ناکامی تھی۔ لہذا امریکہ میں مقیم مسلمان اور عرب شہریوں نے کملا ہیرس کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا اور ڈیموکریٹس کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ کابینہ جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر دباو ڈالے گی۔ لہذا غاصب صیہونی حکمرانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کوئی کامیابی حاصل کیے بغیر ہی لبنان کے محاذ سے پیچھے ہٹ جائیں اور یہ نیتن یاہو حکومت کے لیے ذلت آمیز شکست ثابت ہو گی۔
تحریر: محمد شریفی
ان دنوں جنوبی لبنان میں غاصب صیہونی رژیم کے میدان جنگ سے بہت کم خبریں موصول ہو رہی ہیں اور اگرچہ جھڑپیں بدستور جاری ہیں لیکن صیہونی فوج کے زمینی حملوں کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں جنوبی لبنان میں زمینی کاروائی ختم ہونے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں صیہونی ٹی وی چینل 13 نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی لبنان میں زمینی کاروائی شروع ہونے کے ایک ماہ بعد اسرائیل یہ کاروائی اختتام پذیر ہونے کا اعلان کرنے والا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے چند دیگر میڈیا ذرائع نے بھی سیکورٹی ذرائع کے بقول ایسی رپورٹس شائع کی ہیں جن میں لبنان میں فوجی کاروائی ختم ہو جانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر بھی لبنان میں جنگ بندی کے لیے سفارتکاری جاری ہے۔
عام طور پر فوجی کاروائی کا اختتام پذیر ہونا دو اصولوں کے تابع ہوتا ہے: یا تو جارح قوت اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر چکی ہو اور مزید جنگ جاری رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہ پائی جاتی ہو، یا اس کے برعکس، جارح قوت شکست کا شکار ہو چکی ہو اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیابی کی بھی کوئی امید دکھائی نہ دے رہی ہو۔ جنوبی لبنان میں ان دونوں احتمالات میں سے کون سا احتمال حقیقت کے زیادہ قریب ہے؟ کیا غاصب صیہونی رژیم اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے؟ ان سوالات کا جواب پانے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:
1)۔ صیہونی حکمرانوں کو توقع تھی کہ حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی سیاسی و فوجی کمانڈرز، خاص طور پر سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کے بعد اس تنظیم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اس کے بعد ایک مختصر فوجی کاروائی کے ذریعے حزب اللہ کو مطلوبہ شرائط مان کر جنگ بندی پر مجبور کر لیا جائے گا۔
لیکن میدان جنگ اور میدان سیاست کے زمینی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم لبنان میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی ہے۔ مغربی اور صیہونی تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد اس بات پر زور دے رہی تھی کہ شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ لبنان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یوں وہ فتح کے گن گانے میں مصروف تھے۔ لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسلامی مزاحمت کی کوئی اہم اور بڑی شخصیت ٹارگٹ کلنگ یا اغوا کے ذریعے میدان سے باہر نکال دی گئی ہو۔ امام موسی صدر سے لے کر سید عباس موسوی تک اور اب سید حسن نصراللہ اور عظیم فوجی کمانڈرز جیسے عماد مغنیہ، فواد شکر اور ابراہیم عقیل کی شہادت نے حزب اللہ لبنان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور نہ ہی اس کے مجاہدین کا ایمان اور عزم راسخ کمزور کیا ہے۔
2)۔ میدان جنگ کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان سے مقبوضہ فلسطین پر جاری میزائل حملے نہ صرف تعطل کا شکار نہیں ہوئے بلکہ روز بروز ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور آئے دن نئی یہودی بستیوں اور نئے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تو تل ابیب اور حیفا جیسے بڑے شہر بھی ان حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس نے غاصب صیہونی حکمرانوں کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے اور وہ اس کی بالکل توقع نہیں رکھتے تھے۔ دو دن پہلے عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا: "فوج کی جانب سے سرحد پر حزب اللہ کے ٹھکانے تباہ کر دینے اور اس کے میزائل نابود کر دینے کے اعلان کے باوجود حزب اللہ کی فورسز بدستور انہی سرحدی علاقوں سے شمالی اسرائیل کو میزائل اور راکٹ حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔"
یہ اخبار مزید لکھتا ہے: "اس کی ایک مثال ہفتے کے دن ایون مناخم یہودی بستی پر حملہ ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی فوج کو لبنان میں 40 روزہ زمینی کاروائی کے دوران شدید جانی نقصان ہوا ہے اور کم از کم 100 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔"
3)۔ ایک طرف حزب اللہ لبنان اپنے مرکزی رہنماوں اور کمانڈرز کی شہادت کے صدمے سے باہر آ چکی ہے جبکہ دوسری طرف اس کی طاقت بھی مکمل طور پر بحال ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اندرونی طور پر سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے شدید بحرانی حالات سے روبرو ہے اور یہ بحران دن بدن مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ کابینہ میں جاری اقتدار کی جنگ کے نتیجے میں وزیر جنگ یوآو گالانت کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور نیتن یاہو کے مخالفین بھی اس کے خلاف اپنا دباو بڑھاتے جا رہے ہیں۔
4)۔ اگرچہ کچھ حلقے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو بنجمن نیتن یاہو کے حق میں مفید سمجھتے ہیں لیکن یہاں اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی ایک اہم وجہ وہ وعدے تھے جو انہوں نے الیکشن مہم کے دوران مغربی ایشیا اور یوکرین میں جنگ بند کروانے کے بارے میں دیے تھے۔ اسی طرح کملا ہیرس کی شکست کی ایک بنیادی وجہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے قیام میں ڈیموکریٹک حکومت کی ناکامی تھی۔ لہذا امریکہ میں مقیم مسلمان اور عرب شہریوں نے کملا ہیرس کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا اور ڈیموکریٹس کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ کابینہ جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر دباو ڈالے گی۔
5)۔ لہذا غاصب صیہونی حکمرانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کوئی کامیابی حاصل کیے بغیر ہی لبنان کے محاذ سے پیچھے ہٹ جائیں اور یہ نیتن یاہو حکومت کے لیے ذلت آمیز شکست ثابت ہو گی۔
خبر کا کوڈ: 1172231