QR Code
نسل کشی کے شراکت دار، قاہرہ سے برلن تک
11 Nov 2024 15:40
اسلام ٹائمز: یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اسکندریہ بندرگاہ پر ایم وی جہاز کا "استقبال" ایمنسٹی انٹرنیشنل سلوانیا کی چیف نتاشا بسیک کے ایک بیان کے بعد کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس مہلک کارگو جہاز ایم وی کیتھرین کو اسرائیل نہیں پہنچنا چاہیئے، کیونکہ اس طرح کے کارگو سے فلسطینی شہریوں کیخلاف جنگی جرائم کا واضح خطرہ ہے۔
تحریر: محمد حسن سویدان
ترجمہ: ایل اے انجم
1973ء میں مصری اور شامی مسلح افواج نے اسرائیل پر اچانک سرپرائز حملہ کیا، جسے "جنگ اکتوبر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصر کے سابق صدر جمال عبد الناصر نے 26 مئی 1967ء کو عرب ٹریڈ یونینوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: " اسرائیل کے ساتھ جنگ عام ہوگی اور ہمارا بنیادی ہدف اسرائیل کی تباہی ہوگا۔" مصر اپنی جنگ شروع کرنے اور قابض ریاست کو تباہ کرنے کے وعدے کے پانچ دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد اب رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ قاہرہ اب لبنان اور غزہ کیخلاف جارحیت کے دوران اسرائیل کو اقتصادی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہا ہے۔
مصری بندرگاہیں، اسرائیل کی خدمت کرنیوالا ایک لاجسٹک پلیٹ فارم
بحری جہازوں کی آمدورفت سے باخبر رکھنے والی ویب سائٹ میرین ٹریفک اور مالیاتی ڈیٹا کمپنی ایل ایس ای جی ڈیٹا اینڈ اینالیٹکس کے مطابق، جرمن جہاز ایم وی کیتھرین نے 28 اکتوبر کو اسکندریہ کی بندرگاہ پر پڑاؤ ڈالا۔ اوپن سورس نیول ڈیٹا اور انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر اس جہاز میں اسرائیلی فوج کے لیے دھماکہ خیز مواد موجود تھا اور اسے کئی ممالک کی طرف سے ڈاکنگ کے حقوق سے انکار کرنے کے بعد مصری بندرگاہ پر اتارا گیا تھا۔ ایم وی کیتھرین بحری جہاز مبینہ طور پر اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز کے لیے 150,000 کلو گرام RDX دھماکہ خیز مواد پر مشتمل آٹھ شپنگ کنٹینرز لے کر گیا، جو اسرائیل کے سب سے بڑے عسکری مینوفیکچرر ایلبٹ سسٹمز (Elbit Systems) کیلئے ہتھیاروں کی تیاری میں بنیادی کردار ہوگا۔
ستمبر میں، پرتگال کے وزیر خارجہ پاؤلو رینجل نے کہا تھا کہ انہیں جہاز کے مالک کے ذریعے اطلاع ملی کہ کارگو کا نصف دوہری استعمال کی اشیاء تھی، جو اسرائیلی اسلحہ کمپنی کے لیے رکھی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جہاز کو نمیبیا، سلووینیا، مالٹا اور مونٹی نیگرو میں ڈاکنگ سے روک دیا گیا تھا، کیونکہ ان ممالک کی اس تشویش کی وجہ سے کہ تل ابیب دھماکہ خیز مواد کو شہریوں کے خلاف مزید قتل عام کے لیے استعمال کرے گا۔ اس کے بعد مصر ایم وی کیتھرین کے مخمصے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا اور صیہونی ریاست کیلئے لے جانے والے دھماکہ خیز مواد سے لدھا سامان اپنی بندرگاہ پر اتارنے اور آگے منتقل کرنے کی پیشکش کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک طویل رپورٹ میں انسانی حقوق کا گروپ لکھتا ہے: "مصری حکومت نے جرمن پرچم والے جہاز "MV Kathrin" کو، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے دھماکہ خیز مواد لے کر جا رہا ہے، کو اسکندریہ کی بندرگاہ پر اتارنے کی اجازت دی، اس خطرے کے باوجود کہ یہ کھیپ غزہ میں جنگی جرائم میں استعمال ہوسکتی ہے۔" یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اسکندریہ بندرگاہ پر ایم وی جہاز کا "استقبال" ایمنسٹی انٹرنیشنل سلوانیا کی چیف نتاشا بسیک کے ایک بیان کے بعد کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس مہلک کارگو جہاز ایم وی کیتھرین کو اسرائیل نہیں پہنچنا چاہیئے، کیونکہ اس طرح کے کارگو سے فلسطینی شہریوں کیخلاف جنگی جرائم کا واضح خطرہ ہے۔
ان الزامات کے جواب میں، مصر کے فوجی ترجمان نے اپنے فیس بک پیج پر شائع ہونے والے ایک بیان میں جواب دیا: "مصری مسلح افواج واضح طور پر اس بات کی تردید کرتی ہے، جو اسرائیل کیساتھ تعاون کے بارے میں سوشل میڈیا اور مشکوک اکاؤنٹس پر گردش کر رہی ہے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسرائیل کیساتھ تعاون کی کوئی شکل موجود نہیں ہے۔" مصری فوج کے انکار کے باوجود اسکندریہ بندرگاہ کی جانب سے ایم وی کیتھرین کو وصول کرنے کے کافی ثبوت موجود ہیں، اس بارے میں عالمی ڈیٹا کمپنیوں، ٹریکنگ شپنگ لوکیشنز، کئی پارٹیز اور حکومتوں کی رپورٹیں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ صیہونی حکومت کے غزہ پر 13 ماہ کے وحشیانہ حملے کے دوران پانچ مصری بندرگاہوں کو اسرائیلی برآمدات اور درآمدات کے لیے کلیدی کراسنگ حب میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایم وی کیتھرین کو ان مصری بندرگاہوں میں سے کسی ایک پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دینا محض اس کردار کا تسلسل ہے، جو قاہرہ نے اسرائیل کے جنگی مفادات کو پورا کرنے کے لیے سنبھالا تھا۔
اسرائیلی غیر ملکی تجارتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال کے پہلے نو مہینوں کے دوران، پانچ عرب ممالک کے ساتھ قابض ریاست کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا، جن میں متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، مراکش اور بحرین شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق، بحرین کے ساتھ اسرائیلی تجارت کی مالیت میں دس گنا، مراکش کیساتھ 53 فیصد، مصر کیساتھ 52 فیصد اور متحدہ عرب امارات کیساتھ چار فیصد اضافہ ہوا۔ اسرائیل سے اردن کی درآمدات میں کمی کی وجہ سے اردن کے ساتھ مجموعی طور پر تجارت میں ایک فیصد کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اردن کو اسرائیلی برآمدات میں 45 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پانچ عرب ممالک کے ساتھ کل اسرائیلی تجارت کی مالیت 3.4 بلین ڈالر تک بڑھ گئی، جو کہ 12 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کی طرف سے جاری کردہ تجارتی اعداد و شمار میں نمایاں فرق بھی قابل ذکر ہے۔
مصر کی طرف سے اعلان کردہ تجارت کی ویلیو صیہونی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ، لبنان، شام اور یمن پر مہلک حملوں اور قتل عام کے باوجود قاہرہ اسرائیل کے ساتھ اپنے بڑھتے تعلقات کو ظاہر کرنے میں بھی کتراتے نہیں۔ مصر کے غیر ملکی تجارتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال کے آغاز سے جولائی تک قاہرہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت مجموعی طور پر 1.883 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں 155 ملین ڈالر برآمدات اور 1.728 بلین ڈالر کی درآمدات تھیں۔ دوسری طرف اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت صرف 431 ملین ڈالر تک پہنچی ہے، ان کے اعداد و شمار کے مطابق برآمدات 242 ملین ڈالر جبکہ درآمدات 189 ملین ڈالر تھی۔
دوسری جانب اس جنگ کے دوران اسرائیل کیلئے مصر کی خدمات بھی مزید عیاں ہو رہی ہیں، حال ہی میں عرب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بڑے پیمانے پر وائرل ہوئی، جس میں اسرائیلی جنگی جہاز Sa'ar 5 کو نہر سویز سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جس پر اسرائیلی اور مصری جھنڈا لہرا رہا تھا، جبکہ مصری بحریہ اس جہاز کو تحفظ فراہم کر رہی تھی۔ مصر کی سویز کینال اتھارٹی (SCA) نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ تمام بحری جہاز تجارتی یا فوجی کو نہر سے گزرنے کا حق حاصل ہے، مزید کہا کہ یہ نہر سے گزرنے والے تمام جہازوں پر مصری پرچم لہرانے کیلئے ایک ضابطہ موجود ہے۔
صیہونی جرائم میں جرمنی کی شراکت داری
ایم وی کیتھرین جہاز پر جرمنی کا جھنڈا لہرا رہا تھا، یعنی اسرائیل کو ہتھیاروں اور بین الاقوامی مدد کے سب سے بڑے یورپی فراہم کنندہ کا جھنڈا۔ اگست اور اکتوبر کے درمیان جرمن حکومت نے تل ابیب کو 94 ملین یورو کے ہتھیار برآمد کرنے پر اتفاق کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برلن نے 2024ء کے پہلے آٹھ مہینوں میں اسرائیل کو صرف 14 ملین یورو اسلحہ برآمد کیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہتھیاروں کی منتقلی میں بہت زیادہ اضافہ لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے بعد ہوا۔ لبنان پر جارحیت کے بعد سے جرمن اور اسرائیلی روابط جاری ہیں۔ رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ قابض فورسز کی جانب سے شمالی لبنانی قصبے بترون میں ایک لبنانی بحری جہاز کے کپتان کو اغوا کرنے کے لیے لینڈنگ آپریشن کے دوران جرمن بحری افواج نے غیر قانونی اسرائیلی مشن کو ضروری مدد فراہم کی۔
ان رپورٹس کے مطابق لبنانی علاقائی پانیوں کو عبور کرنے میں اسرائیل کی کامیابی کیلئے جرمن بحریہ نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا، جو لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج UNIFIL کے اندر کام کر رہی ہے۔ یونیفل کی میری ٹائم ٹاسک فورس جرمنی کی کمانڈ میں ہے۔ یہ کمانڈ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت لبنان کے سمندری راستوں اور علاقائی پانیوں کی حفاظت کیلئے دیا گیا تھا۔ اس کہانی کا پس منظر، یقیناً برلن کی کھلے عام سیاسی، سفارتی اور میڈیا کی سطح پر اسرائیل کی حمایت ہے۔ تل ابیب کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور کنونشنوں کی سنگین خلاف ورزیوں، عالمی عدالت کی جانب سے غزہ کے قتل عام کی غیر معمولی جانچ پڑتال کے باوجود آج جرمنی قابض ریاست کی حمایت میں محض ایک پارٹی نہیں بلکہ صیہونی ریاست کے جنگی اہداف کے حصول میں ایک باقاعدہ شراکت دار بن گیا ہے۔
الاخبار نیوز پیپر کے مطابق جرمن انٹیلی جنس نے بیروت میں اپنی معلومات اکٹھا کرنے کی سرگرمیوں کو بحال کر دیا ہے اور اس کی بین الاقوامی ایمرجنسی فورسز ٹیم سمندری علاقے کو محفوظ بنانے کے بہانے اضافی کوششیں کر رہی ہیں۔ جرمن فورسز لبنان میں اپنے ریڈاروں کا استعمال اسرائیل کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے، انہیں روکنے، یا ان کے بارے میں انتباہ کرنے کے لیے نہیں کرتی ہیں، بلکہ تل ابیب کو حزب اللہ کے راکٹوں اور ڈرونز کے حوالے سے ابتدائی انتباہی ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، خاص طور پر ڈرون جن کو ٹریک کرنے اور گرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کہ اس حوالے سے سب سے سنگین واقعہ 17 اکتوبر کو پیش آیا، جب ایک جرمن جہاز نے حزب اللہ کے ڈرون کو مار گرایا، جو اسرائیل کی طرف جا رہا تھا۔
حال ہی میں بہت سی رپورٹس بتاتی ہیں کہ حزب اللہ نے جرمنی کے ساتھ تمام رابطے روکنے اور UNIFIL میں اس کے مستقبل کے کسی بھی کردار کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔ UNIFIL کا مینڈیٹ اصل میں لبنان کی خود مختاری، زمین، سمندر اور ہوا کی اسرائیلی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنا تھا۔ تاہم حالیہ واقعات خاص طور پر جرمن افواج کی شمولیت نے لبنان میں، خاص طور پر مزاحمتی دھڑوں کے درمیان خدشات کو جنم دیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں UNIFIL کا کردار اب زیربحث ہے، جیسا کہ اس کے اقدامات نے متعدد مواقع پر ظاہر کیا ہے کہ یہ لبنان پر اسرائیل کی جارحیت کو سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔
بشکریہ: دی کریڈل
https://thecradle.co/articles-id/27614
خبر کا کوڈ: 1171880
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.com