ٹرمپائزیشن کے اقوام عالم پر اثرات
8 Nov 2024 18:38
اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے، علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے اور اقتصادی ترقی کو محفوظ بنانے پر زور دیتی ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب اس توازن کو چیلنج کرسکتا ہے۔ پاکستان، چین کا قریبی اتحادی ہے اور امریکہ چاہے گا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں پر اپنے مؤقف کا از سر نو جائزہ لے اور انہیں امریکی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ یہ دباؤ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ بھی کرسکتا ہے، جو اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ دانشمندی یہ ہے اسٹبلشمنٹ بیرونی دباؤ آنے سے قبل ہی عمران خان کو رہا کر دے اور اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تجارتی مفادات اور سیاسی روابط کا دفاع کرے۔
تحریر: سید اسد عباس
شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کے قتل کا حکم جاری کرنے والا ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکا کا صدر منتخب ہوچکا ہے۔ الیکٹورل کالج کے 538 میں سے ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس 295 اور کملا ہیرس کے پاس 226 ووٹ ہیں، خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکٹورل ووٹوں میں 300 کا ہندسہ عبور کر لے گا۔ اس وقت تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق ایوان نمائندگان میں ریپبلکن 200 اور ڈیموکریٹس 180 ہیں۔ اس وقت امریکی کانگریس اور سینیٹ میں ریپبلکنز اکثریت میں ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں گورنرز بھی ریپبلکنز کے زیادہ ہیں۔ امریکی صدر کے انتخاب کو دنیا بھر میں انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔ روس، چین، ایران، جنوبی کوریا، اسرائیل، برکس اتحاد، شنگھائی ممالک نیز پاکستان میں بھی یہ انتخابات نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ درج بالا ممالک کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات ان ممالک کے حوالے سے ٹرمپ کی آئندہ کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔
اپنے گذشتہ دور اقتدار جو 2016ء تا 2020ء رہا، میں ٹرمپ نے بعض مسلمان ملکوں کے شہریوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی تھی، اسی طرح ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ ٹرمپ کا سب سے بڑا اقدام برجام یعنی پانچ جمع ایک ممالک کے ایٹمی معاہدے کو کالعدم قرار دینا تھا۔ اس معاہدے میں روس، چین، برطانیہ، جرمنی، امریکا اور ایران شامل تھے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنے ملک میں یورینیم کی افزودگی کو کم کرے گا اور عالمی ایٹمی ایجنسی سے تعاون کرے گا، جس کے بدلے میں اس پر عائد تمام معاشی اور تجارتی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔ ایران نے تو اپنے وعدے کے مطابق برجام کی تمام شقوں پر عمل کیا، تاہم امریکا ٹرمپ کے حکم کے تحت اس معاہدے سے نکل گیا۔ یہ معاہدہ آج تک التواء کا شکار ہے اور اب قوی امکان ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
مبصرین کی رائے میں ٹرمپ امیگریشن اصلاحات، اقتصادی تحفظ پسندی اور غیر ملکی تنازعات میں امریکی مداخلت کو کم کرنے جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وہ اپنے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ ایجنڈے کو تقویت دے گا۔ اس کی پالیسیاں ممکنہ طور پر سخت امیگریشن کنٹرول، توانائی کی آزادی اور امریکہ، چین مسابقت پر مرکوز ہوگی، جس سے عالمی سطح پر تجارتی اور جغرافیائی سیاسی اتحاد متاثر ہونگے۔ ٹرمپ کی فتح امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرسکتی ہے، زیادہ تر اتحادیوں اور مخالفین جیسے نیٹو پارٹنرز، روس اور چین کے ساتھ۔ اس کا نقطہ نظر ممکنہ طور پر کثیر الجہتی معاہدوں یا دو طرفہ سودوں پر زور دے گا۔ یوکرائن اور روس کی جنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے، تاہم مشرق وسطی میں حالات مزید پیچیدہ ہونے کے امکانات ہیں۔
نیو یارک ٹائمز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "ان کا دوسرا دورِ حکومت پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں زیادہ غیریقینی اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں دوسرے دورِ حکومت میں ٹرمپ کو انتظامی معاملات میں آئین، قانون اور مروجہ روایات سے ہٹ کر من مانی کرنے سے روکنے والے اعتدال پسند اور تجربہ کار مشیر میسر نہیں ہوں گے۔" نیو یارک ٹائمز کے مطابق "اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اردگرد ایسے مشیر اور ماہرین نے گھیرا ڈال رکھا ہے، جو اُن کے ہم خیال ہیں اور وہ ٹرمپ کو اپنے اختیارات کے استعمال اور فیصلہ سازی میں احتیاط، اعتدال پسندی اور آئین و قانون کی سخت پاسداری کا مشورہ دینے کے بجائے اس کی یک طرفہ، انتہاء پسند اور من مانی پر مبنی سوچ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیں گے۔"
تجزیہ کاروں کے مطابق 2016ء میں جب ٹرمپ پہلی دفعہ صدر بنا تو اسے امریکی حکومتی نظام چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کانگریس اور اسٹیبلشمنٹ کے پرانے اور تجربہ کار حکام بھی اس کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی حکومتی نظام کی پیچیدگیوں کا کافی تجربہ اور ادراک ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں سینیٹ میں اس کی پارٹی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے مطابق حکومت چلانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ اسی لیے بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے طاقتور ترین صدر ثابت ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں معاہدہ ابراہیمی کی گونج دوبارہ سنائی دے گی، عرب ریاستیں ایک مرتبہ پھر ٹرمپ کے چرنوں کو چھوتے دکھائی دیں گی۔ امریکا اسی راستے سے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
چین کے بارے میں ٹرمپ کا رویہ گذشتہ دور حکومت میں انتہائی شدت کا حامل رہا، جس کے اب بھی قوی امکانات ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی کمپین کے دوران میں پاکستانی کمیونٹی سے وعدہ کیا تھا کہ صدر بن کر وہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرائیں گے۔ امریکی کانگریس تو پہلے بھی پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی کیلئے قرارداد منظور کرچکی ہے، مگر اس قرارداد پر عمل درآمد صدر جوبائیڈن نے نہیں کرایا تھا۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کچھ پاکستانی صدر ٹرمپ کے بہت قریب ہیں، انہیں امریکی حکومت میں اہم عہدہ ملنے کے بھی امکانات ہیں۔ عمران نے ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی دی ہے اور امید ظاہر کی کہ ٹرمپ عالمی سطح پر امن، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے زور دیں گے۔
میرے بعض دوستوں نے یہ سوال کیا کہ کیا اب عمران خان جیل سے رہا ہو جائے گا؟ تو راقم کے خیال میں ٹرمپ عمران خان کی قید کو پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرے گا۔ گذشتہ دور حکومت میں ٹرمپ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ فوجی امداد کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پاکستان کے حوالے سے اہم ترین پریشانی اس ملک کا چین سے قرب ہے، شنگھائی اور برکس کی جانب جھکاؤ نیز ایران سے تجارت کی خواہش ہے۔ عمران خان کی قید، سیاسی نظام کی تعطلی، انسانی حقوق کو ان تمام مسائل میں دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ یقینی امر ہے کہ پاکستان کی تجارت، سلامتی، علاقائی استحکام اور اقتصادی امداد جیسے شعبوں پر ٹرمپ کی پالیسی کے اثرات مرتب ہونگے
عمران خان کو فوراً رہا کرنے کی بات نہیں کی جائے گی بلکہ اس کو دباؤ کے عنصر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ٹرمپ پاکستان کو چینی اقتصادی منصوبوں سے دور کرنے پر بھی مجبور کرسکتا ہے، اب اسلام آباد کو اپنے تزویراتی اہداف پر محتاط انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہوگی، علاقائی سلامتی کے خدشات کو دور کرتے ہوئے امریکا اور چین کے ساتھ اپنی شراکت داری میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی قیادت کو ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے سے احتیاط کے ساتھ رجوع کرنے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ واشنگٹن میں کیے گئے فیصلے اس کے ملکی اور خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر دیرپا اثر ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے، علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے اور اقتصادی ترقی کو محفوظ بنانے پر زور دیتی ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب اس توازن کو چیلنج کرسکتا ہے۔ پاکستان، چین کا قریبی اتحادی ہے اور امریکہ چاہے گا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں پر اپنے مؤقف کا از سر نو جائزہ لے اور انہیں امریکی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ یہ دباؤ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ بھی کرسکتا ہے، جو اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ دانشمندی یہ ہے اسٹبلشمنٹ بیرونی دباؤ آنے سے قبل ہی عمران خان کو رہا کر دے اور اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تجارتی مفادات اور سیاسی روابط کا دفاع کرے۔
خبر کا کوڈ: 1171485