ایران کی دفاعی صلاحیت اور فلسطین
7 Nov 2024 13:51
اسلام ٹائمز: حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ، انکے نائب سید ہاشم صفی الدین، حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بعد یحییٰ سنوار کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین کیلئے لڑنے والے مجاہدین، افغانستان اور کشمیر میں جہاد کرنیوالے پاکستانی نہیں، جو اپنی اولادوں کو محفوظ رکھ کر امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائیں اور دوسروں کے بچوں کو محاذ پر بھیجیں۔ حزب اللہ اور حماس کے سربراہان اور انکے خاندان کے افراد خود جنگ میں شریک رہے۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
استعماری مغربی طاقتیں ہمیشہ منافقت اور دو رخی کا شکار رہی ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے سے پہلے دنیا میں کئی انقلابات نے جنم لیا، جن میں فرانس کا صنعتی انقلاب اور روس میں "زاری" حکومت کے خاتمے کے بعد کمیونزم کو اپنی نجات کے راستے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت کی بین الاقوامی قوتوں نے نئے انقلابات سے نہ شدید اختلاف کیا اور نہ ہی اس کی حمایت کی۔ ان ممالک کا اندرونی معاملہ قرار دے کر باقی دنیا غیر جانبدار رہی۔ دوسری طرف ایران میں صدیوں سے جاری پہلوی آمریت اور بادشاہت سے کسی بڑی یورپی یا امریکی حکومت نے کوئی اختلاف نہیں کیا، بلکہ اس کو تحفظ دیتی رہیں۔ اسی طرح یہ استعماری ممالک آج بھی عرب ریاستوں میں قائم بادشاہتوں اور خاندانی حکومتوں کو تحفظ دے رہے ہیں، لیکن آیت اللہ روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں برپا ہونیوالے اسلامی انقلاب کی یورپی ممالک اور سامراج نے بھرپور مخالفت کی اور اس کیخلاف سازشیں تیار کی گئیں۔ تاکہ اسلامی نظام حکومت کے حوالے سے نوازائیدہ مملکت کو غیر مستحکم کرنے اور انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے الجھایا جائے۔
پھر ایسا ہی ہوا، ایران کے ایک پڑوسی ملک جس کا صدر بھی امریکی پٹھو تھا، اس نے شط العرب کے مسئلے پر جنگ شروع کروا دی اور اس کی حمایت میں تمام عرب ممالک کو یکجا کرکے اسلحہ اور مالی وسائل سے حمایت کروائی۔ عراق ایران جنگ آٹھ سال تک جاری رہی، جس میں ایران کی اسلامی حکومت کو اتنا جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا کہ شاید ایران سنبھل نہ سکے گا۔ میں نے جنگ کے ایام میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ متاثرہ علاقے آبادان کی آئل ریفائنری اور خرم آباد شہر حتیٰ کہ جزیرہ مجنون تک جنگ کی تباہ کاریاں دیکھیں، جو ناقابل تحریر ہیں۔ وقت گزر گیا۔ ایرانی قوم نے بڑا نقصان اُٹھایا، مگر اس کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ آٹھ سال بعد جنگ ختم ہوئی۔ ایران اپنی ترقی اور آبادکاری کے منصوبوں کی ابتدا کرنے لگا تو اسی دوران "مجاہدین خلق" نامی دہشت گرد پارٹی معرض وجود میں لائی گئی، جس نے نئی انقلابی حکومت کی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا اور ملک میں افراتفری پھیلانے کا آغاز کیا۔
جس میں رہبر مسلمین امام خمینیؒ کے قریبی ساتھیوں اور حکمران طبقے کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں شہید کیا گیا، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جذبہ شہادت سے سرشار ایرانی قوم نے بڑھتی ہوئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہر روز پہلے سے بہتر ترقی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا۔ اس واقعہ کو میں نہیں بھول سکتا، جس میں امریکی ہیلی کاپٹرز صحرائے طبس میں اتارے گئے، جو ایک بڑی کارروائی کو سرانجام دینے کیلئے آئے تھے، لیکن قدرت کا انتظام دیکھئے، امام خمینی کی قیادت کو مضبوط کرنے کیلئے اور تحفظ دینے کیلئے اس صحرا میں طوفان آیا، جس کی وجہ سے امریکہ کا یہ مشن ناکام ہوا۔ امریکی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوگئے۔ انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے اہم ستون کے طور پر امام خمینیؒ نے فلسطینیوں کی حمایت اور قدس کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ صرف دعائیں مانگنے، سیمینار اور جلوس نکالنے تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے اس کی تیاری بھی شروع کر دی۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔ رہبر کبیر کے اس فرمان کو مسلمان ممالک میں پہنچانے کیلئے ماہ مقدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعة الوداع کو "یوم القدس" قرار دے کر قبلہ اول بیت المقدس سے محبت کرنیوالوں کو یکجا کیا۔ یہ بات بھی ضروری کہنا چاہتا ہوں کہ انہی ایام میں ایران کی انقلابی حکومت پر پابندیاں بھی مسلط کر دی گئی تھیں، جس سے ایران کا ظاہری طور پر عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ لیکن ایران کی بہادر، ذی شعور، ذہین اور صاحب نظر قیادت کی رہنمائی میں ان پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انقلاب کو مضبوط بھی کرتے رہے اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کو وسعت دینے پر بھی توجہ دی گئی، جس کے باعث، اللہ کے فضل و کرم سے ایران آج خطے کی ایک مضبوط طاقت بن چکا ہے۔ ایران نے خصوصاً چین اور روس جیسے ممالک کو اپنی دفاعی ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ لیکن اسی دوران فلسطین اور خصوصاً حماس کے نوجوانوں کو اپنے ملک کی آزادی اور تحفظ کیلئے عملی جدوجہد کرنے کی تیاری میں ان کی پشت پناہی کی ابتدا کی۔
اسرائیل کی صیہونی حکومت نے امریکی اور برطانوی سامراج کی سرپرستی میں فلسطینی عوام پر وہ مظالم ڈھائے، جن کی سابقہ ادوار میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 7 اکتوبر 2023ء کے طوفان الاقصیٰ کے بعد ظالم قابض صیہونی حکومت سمجھتی تھی کہ ہم چند دنوں میں حماس کو ختم کر دیں گے اور فلسطینی مجبوراً ہتھیار ڈال دیں گے، لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حماس آج بھی اسرائیلی فوجیوں کیخلاف نبرد آزما ہے۔ ان کیساتھ یمن کے حوثیوں کی قیادت اور عوام کو بھی سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں امریکہ جیسے بڑے شیطان ملک کے بیڑوں کو دور رکھا ہے۔ اسی طرح لبنان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوجیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنی سرحدوں سے دور رکھا۔ انہی ناکامیوں میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بوکھلاہٹ میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کا اعلان کرتا ہے کہ پھر انہی دنوں میں پینٹاگون سے خفیہ دستاویزات لیک ہوتی ہیں، جن میں ایران پر حملہ کرنے کے حوالے سے تفصیلات منظرعام پر آگئیں۔
جس سے پوری دنیا میں ایران پر حملہ کرنے کی سازش بے نقاب ہوئی، ایران نے بھی اپنے دفاعی سسٹم کو الرٹ کر دیا اور اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے ولی امر مسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنی فوج کے سربراہوں کو ممکنہ اسرائیلی حملے روکنے کیلئے ہر قسمی اقدامات کا حکم دیا۔ پھر اسرائیل نے ایران پر حملہ تو کیا، لیکن اسلامی جمہوری ایران کے دفاعی سسٹم نے حملے کو روکا، جس سے کوئی بڑا نقصان نہ ہوا۔ البتہ جنگ جاری ہے، آج بھی دونوں اطراف سے سخت اقدامات کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ ایران نے کبھی ایٹمی قوت بننے کا اعلان نہیں کیا، مگر اسے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایسے ہی جیسا کہ اسرائیل اور شمالی کوریا نے دھماکے نہیں کیے، لیکن وہ ایٹمی قوتیں ہیں۔ حالات کا جبر کہہ لیں یا منصوبہ بندی، ایران نے انقلاب کے بعد مشکلات سے گزرتے ہوئے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا ہے، جیسا کہ ایران پر پابندیاں تھیں کہ یہ ایٹمی اسلحہ نہ بنا سکے، اس کو روکا جائے، لیکن قدرت کا نظام دیکھیں۔
پینٹاگون سے جو دستاویزات لیک ہوئی ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرے، کیونکہ ایران ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اس کی طرف سے ایٹمی ردعمل بھی آسکتا ہے۔ امریکہ نے دوسرا حکم اسرائیل کو یہ دیا کہ ایران کی آئل تنصیبات پر بھی حملہ نہ کرے، کیونکہ اس سے آئل کی بین الاقوامی ترسیلات میں رغنہ پیدا ہوگا۔ 1989ءمیں امام خمینی کی وفات کے بعد سے ان کے جانشین کے طور پر ایران کے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی سیاسی اور دفاعی بصیرت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کی قیادت میں عالمی استعماری پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی دفاعی فضائی سسٹم کو تبدیل کرتے ہوئے سالہا سال سے اپنے میزائل پروگرام کی صلاحیتی وسعت اور پیداوار پر توجہ دی ہے، جس کی وجہ سے آج روس بھی یوکرین کی جنگ میں میزائل اور ڈرون ایران سے خرید کر مقابلہ کر رہا ہے۔
کوئی دو متحارب ممالک ہوں تو جنگ کے بعد ان کے درمیان اگر امن کی بات ہوگی تو وہ بھی قیادت کی پالیسیوں اور قوم کے اتحاد و یکجہتی کا مظہر ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد شروع ہونیوالی یمن کی جنگ وقتی طور پر ختم ہو جائے گی۔ فلسطینی جنگ وقتی طور پر ختم ہو جائے گی، لیکن امام خمینیؒ کے فرمان کے مطابق کہ جب تک فلسطین فلسطینیوں کیلئے آزاد نہیں ہوتا، اس خطے میں جنگ بند نہیں ہوگی۔ نظریات اور مفادات کی جنگیں جاری ہیں اور اس کیلئے ممالک سازشیں بھی بنتے رہتے ہیں۔ میں تو اس بات کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی شہادت ہیلی کاپٹر کا کوئی فضائی حادثہ تھی۔ میں اس کے پیچھے بھی اسرائیلی اقدامات دیکھتا ہوں، حالانکہ ایرانی حکومت اسے تسلیم نہیں کرتی اور خراب موسمی حالات کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ، ان کے نائب سید ہاشم صفی الدین، حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بعد یحییٰ سنوار کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین کیلئے لڑنے والے مجاہدین، افغانستان اور کشمیر میں جہاد کرنیوالے پاکستانی نہیں، جو اپنی اولادوں کو محفوظ رکھ کر امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائیں اور دوسروں کے بچوں کو محاذ پر بھیجیں۔ حزب اللہ اور حماس کے سربراہان اور ان کے خاندان کے افراد خود جنگ میں شریک رہے۔ اب حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم بن چکے ہیں، جبکہ حماس کی بھی اجتماعی قیادت سامنے آچکی ہے۔ مگر دونوں تنظیموں نے سربراہان کھونے کے باوجود اپنے ہدف اور مقصد کو نہیں چھوڑا اور ان شاء اللہ یہ جنگ بیت المقدس کی آزادی تک جاری رہے گی۔
خبر کا کوڈ: 1171275