QR CodeQR Code

پاراچنار۔۔۔ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

31 Oct 2024 21:33

اسلام ٹائمز: پاراچنار کے غیور اور باشعور عوام اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی صفوں سے شرپسندوں اور تکفیری عناصر کو تو باہر کریں۔ انکا ایسا کرنا خود قیامِ امن کیلئے ایک ناگزیر قدم ہے۔ بدامنی کی وجوہات گننے، جاننے اور پوچھنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جس ملک میں کسی اونٹ کی ایک ٹانگ کٹنے پر واویلا مچ جاتا ہے، آج اُسی ملک کے ایک انتہائی حساس سرحدی علاقے میں طالبان اور تکفیری عناصر کی طرف سے ہزاروں نہتے لوگوں کا محاصرہ کرکے انہیں تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے، لیکن حکومت، میڈیا، سوشل میڈیا، سائنسدان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب خاموش ہیں اور سب خاموش تماشائی ہیں۔


تحریر: نذر حافی

تعلیمی ادارے سنسان پڑے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہونے کو ہے۔ زمین پھٹتی نہیں اور آسمان گرتا نہیں۔ مسافر گاڑیوں پر حملے جاری ہیں۔ یہ کوئی ایک دو یا چند سالوں کی بات نہیں، اب مسئلہ ملکی سالمیّت کا ہے۔ محاصرہ ایسا ہے کہ متاثرہ منطقے میں جانے والی ایمبولینس تک محفوظ نہیں، امدادی راشن اور دوائیاں لے جانے والی گاڑیوں کو بھی لوٹ لیا جاتا ہے، رضاکاروں کو قتل کرنا تو معمول کی کارروائی ہے۔ میڈیا پرسنز کی اپنی اپنی مجبوریاں اور مصروفیات ہیں، ایمبولینس گاڑیوں میں سوار ڈاکٹروں کے قتل کرنے کو برائی نہیں سمجھا جاتا، سکولوں میں اساتذہ کے گلے کاٹنا تو جیسے کوئی نیکی کا کام ہو۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بندش کو ہی سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ انسانیت تو خیر کب سے مرچکی، اب تو ملک کا صدر، وزیراعظم یا چیف آف آرمی اسٹاف بھی دلاسہ نہیں دیتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تو ایسے مقامات کا رُخ ہی نہیں کرتیں۔ یہ سب پڑھ کر یقیناً آپ کا ذہن فلسطین، غزہ اور یا پھر مقبوضہ کشمیر کی طرف چلا گیا ہوگا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ پاکستان کے غزہ کے بارے میں بالکل نہیں جانتے۔

گذشتہ روز میں تفتان میں تھا۔ وہاں سید معین سے میری ملاقات ہوئی۔ سید معین کا تعلق فلسطین یا مقبوضہ کشمیر سے نہیں بلکہ پارا چنار سے نکلا۔ انہیں اپنے گھر والوں سے ملنے کیلئے پاراچنار جانا تھا۔ گاڑی چلنے لگی تو راستے میں بار بار موبائل کے سگنل آف ہو جاتے۔ ٹھنڈی آہ بھر کر انہوں نے کہا کہ ہماری مشکلات اور  ہمارے احساسات کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا!۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ بولے کہ ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہم جیسے ہی انٹرنیٹ آن کرتے ہیں تو سب سے پہلے ایسی خبریں ڈھونڈنے لگتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے عزیزوں اور پیاروں پر کوئی نیا حملہ تو نہیں ہوگیا۔ سید معین کے مطابق مسافروں کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں، کانوائے اور مسافر گاڑیوں پر حملے کرنے والے کسی سے مخفی نہیں۔ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ پاراچنار کی روڈ کو بند کرکے نہتے مسافروں کو قتل کیا گیا ہے۔

محاصرے کی وجہ سے اس وقت بھی لوگ غذائی قلت اور دوائیوں کی کمی کا شکار ہیں۔ بچے بھوک کے مارے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن باہر کی دنیا نہیں جانتی کہ اس وقت پاراچنار میں کیا ہو رہا ہے۔ اس دکھ کو صرف وہی ماں محسوس کرسکتی ہے کہ جس کا لختِ جگر اُس کی آنکھوں کے سامنے کئی دنوں سے بھوکا اور پیاسا تڑپ رہا ہو۔ 30 اکتوبر بروز بدھ کو پاراچنار کے حالات سے آگاہی کیلئے وائس آف نیشن کے زیرِاہتمام ایک آنلائن سیشن کا اہتمام کیا گیا۔ سیشن سے پاراچنار سے تعلق رکھنے والے مولانا اخلاق حسین شریعتی اور مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکرٹری جنرل مولانا شیدا حسین جعفری نے گفتگو کی۔ راقم الحروف نے سیشن کے میزبان محترم حسن اقبال کی وساطت سے معزز مہمانوں سے یہ سوال پوچھا کہ اتنی گھمبیر صورتحال میں عام پاکستانی کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟

یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے، چونکہ پاراچنار دراصل افغانستان و پاکستان کی سرحد پر واقع ہے اور اب تک افغانستان کی طرف سے ہونے والی تمام جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ یہاں کے غیور عوام نے ہمیشہ ڈٹ کر کیا ہے۔ اگر یہاں کے لوگوں کو محصور کرکے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ علاقہ باآسانی افغانستان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ زدہ علاقے کے سارے متاثرین خواہ وہ شیعہ ہوں یا سُنّی، وہ ہرگز تصادم، لڑائی اور جنگ نہیں چاہتے۔ وہ سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستان رہے گا تو ہم بھی رہیں گے اور اگر یہ منطقہ افغانستان کے ہاتھوں میں چلا گیا تو پھر کسی کی بھی عزت و ناموس اور جان محفوظ نہیں رہے گی۔ چنانچہ یہاں کے سُنّی و شیعہ کئی مرتبہ سفید پرچم اٹھا کر امن کیلئے جلوس بھی نکال چکے ہیں۔

آنلائن سیشن سے گفتگو کرنے والے معزز شرکاء کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں امن قائم نہ ہونے کی چند اہم وجوہات ہیں:
۱۔ سرحد پار سے طالبان کی جارحیّت اور مداخلت نیز پاکستانی حکام کے اندر دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ۔
۲۔ لینڈمافیا کی طرف سے لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے اُسے مذہبی رنگ دینا۔
۳۔ لینڈ کمیشن کا اپنے کمیشن کیلئے زمینوں پر قبضہ کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا۔
۴۔ مخصوص افراد کو آگے کرکے کسی بھی علاقے میں زمینی تنازعہ پیدا کرنا اور پھر  اُس زمین کو متنازعہ قرار دے کر سرکار کا اُس زمین پر قبضہ کر لینا۔
۵۔ قبائلی امن روایات کو مٹانے کیلئے نیز جرگے کی اہمیّت کو ختم کرنے کی خاطر جرگے میں شرپسند اور تکفیری عناصر کو دعوت دینا۔
۶۔ اہلِ سُنّت کو نظرانداز کرکے ایسے تکفیری حضرات کو جو مکالمے، بھائی چارے اور  رواداری پر یقین ہی نہیں رکھتے، اُنہیں اہلِ سُنّت کا نمائندہ قرار دینا۔
۷۔ اہلِ تشیع کی نمائندہ تنظیم انجمن حسینیہ کے فیصلوں کو سارے اہلِ تشیع دل و جان سے قبول کرتے ہیں، لیکن اہلِ سُنّت کی نمائندہ تنظیم انجمن فاروقیہ کو ملک دشمن اور طالبان نواز عناصر کی طرف سے بے بس اور اختیار کرنا۔

یاد رہے کہ بے شک مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ بھی پاراچنار میں امن قائم نہ ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن مذکورہ وجوہات فوری توجہ کی طالب ہیں۔ پاراچنار کے غیور اور باشعور عوام اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی صفوں سے شرپسندوں اور تکفیری عناصر کو تو باہر کریں۔ ان کا ایسا کرنا خود قیامِ امن کیلئے ایک ناگزیر قدم ہے۔ بدامنی کی وجوہات گننے، جاننے اور پوچھنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جس ملک میں کسی اونٹ کی ایک ٹانگ کٹنے پر واویلا مچ جاتا ہے، آج اُسی ملک کے ایک انتہائی حساس سرحدی علاقے میں طالبان اور تکفیری عناصر کی طرف سے ہزاروں نہتے لوگوں کا محاصرہ کرکے انہیں تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے، لیکن حکومت، میڈیا، سوشل میڈیا، سائنسدان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب خاموش ہیں اور سب خاموش تماشائی ہیں۔ طالبان اور تکفیریوں کے مظالم پر خاموش پاکستانی تماشائیوں کو پاراچنار کا ہر باشندہ اپنی زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہا ہے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں


خبر کا کوڈ: 1170015

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1170015/پاراچنار-چراغ-سب-کے-بجھیں-گے-ہوا-کسی-کی-نہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com