QR CodeQR Code

تل ابیب کے فوجی جنون کے خلاف اتحاد سازی کی ضرورت

31 Oct 2024 14:59

اسلام ٹائمز: ایران پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد خطے کے تقریباً تمام عرب ممالک نے اس کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کے تحفظ پر بھی زور دیا ہے۔ دوسری طرف صدارتی الیکشن قریب ہونے کے ناطے امریکی حکمران بھی خطے میں جنگ کی شدت مزید پھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لہذا اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف سیاسی اتحاد تشکیل دینے کا سنہری موقع ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کو بھی سختی سے خبردار کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی فوجی مہم جوئی میں شرکت کی صورت میں اس کے خلاف بھی سخت فوجی کاروائی انجام پا سکتی ہے۔ یہ اقدام بھی امریکہ کی جانب سے سفارتی راہ حل کی جانب گامزن ہونے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ اس سطح تک ڈیٹرنس برقرار کرنے کے ساتھ ساتھ فعال سفارتکاری نے خطے میں پائیدار امن کی امید پیدا کر دی ہے۔


تحریر: حسن بہشتی پور
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے اتوار 27 اکتوبر 2024ء کے روز خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "منحوس اور خبیث صیہونی رژیم کے مقابلے میں عالمی سطح پر ایک بڑی کوتاہی انجام پائی ہے، یہ کام جو غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں کیا ہے اور کر رہی ہے، لبنان میں کیا ہے اور کر رہی ہے، وحشیانہ ترین جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ میں نقصان ہوتا ہے لیکن جنگ کے بھی ضوابط ہیں، قوانین ہیں، حدود ہیں، آج وحشیانہ ترین جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والی خبیث صیہونی رژیم کے خلاف ایک عالمی اتحاد تشکیل پانا چاہیے، سیاسی اتحاد، اقتصادی اتحاد اور ضرورت پڑنے پر فوجی اتحاد۔ جنگی جرم دنیا بھر میں ایک مجرمانہ اقدام جانا جاتا ہے، صرف ہم اس کی مذمت نہیں کرتے بلکہ پوری دنیا اور تمام عالمی عدالتیں اس کی مذمت کرتی ہیں۔"
 
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے مزید کہا: "اس سے بڑا جنگی جرم اور کیا ہو گا کہ 10 ہزار بچے اور اتنی ہی یا اس سے زیادہ خواتین شہید ہو چکے ہیں؟" آج ان جنگ طلب پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف ایک عالمی اتحاد کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے جن کا ارتکاب غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اعلی ترین سطح پر اس بات پر زور دے رہا ہے اور سفارتی سطح پر بھی اس اتحاد کی تشکیل کے لیے بھرپور سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہے۔ یہ ایسی حکمت عملی ہے جو غاصب صیہونی رژیم پر دباو کا باعث بن سکتی ہے اور اسے اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی شعبوں میں تناو پیدا کرنے کی بھاری قیمت چکانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اسی طرح یہ حکمت عملی تل ابیب کے توسیع پسندانہ عزائم اور مزید جارحانہ اقدامات کی روک تھام میں بھی موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
 
ایسے جارحانہ اقدامات جن کا مقصد دیگر اسلامی سرزمینوں پر بھی غاصبانہ قبضہ اور تسلط قائم رکھنا ہے۔ ہفتہ 26 اکتوبر 2024ء کی صبح ایران پر اسرائیلی جارحیت بھی اسی تناظر میں انجام پائی ہے۔ البتہ یہ جارحیت اس پروپیگنڈے سے بہت کم سطح پر انجام پائی ہے جو صیہونی حکمرانوں نے گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے جاری رکھا ہوا تھا اور اس میں ایران کو شدید اور فیصلہ کن حملوں کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ صیہونی حکمرانوں نے آخرکار انتہائی محدود پیمانے پر فضائی جارحیت انجام دینے پر ہی اکتفا کر لیا کیونکہ وہ ایران کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے سے شدید خوفزدہ ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ چند ماہ کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے خلاف وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 آپریشن انجام دیے جن میں کامیابی سے صیہونی رژیم کی حساس تنصیبات کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
 
لہذا صیہونی حکمران ایران کی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ایسا کوئی اقدام انجام دینا نہیں چاہتے جو ایران کو طیش دلانے کا سبب بنے اور ایران پوری طاقت سے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کر لے۔ خاص طور پر یہ کہ ایران نے اپنی جوہری اور تیل کی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کی صورت میں شدید جوابی کاروائی کی دھمکی دے رکھی تھی اور خبردار کر رکھا تھا کہ اگر اس کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو آبنائے ہرمز سے تیل کی آمدورفت بند کر دی جائے گی۔ صیہونی حکمران بھی بخوبی آگاہ تھے کہ ایران اپنی دھمکیوں پر عمل پیرا ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی میزائل طاقت صیہونی رژیم کے ایئر ڈیفنس پر مکمل برتری رکھتی ہے۔ لہذا اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران نے دو میدانوں میں فعالیت شروع کر دی ہے۔ ایک فوجی میدان اور دوسرا سفارتی میدان۔
 
سفارتی میدان میں ایران کی سرگرمیوں کا مرکز و محور علاقائی اور عالمی سطح پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے تمام تر سفارتی اور قانونی ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ یہ سرگرمیاں غزہ اور لبنان میں جنگ ختم ہونے اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی مطلوبہ شرائط کے تحت جنگ بندی انجام پانے کے اصول پر استوار ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی پوزیشن کمزور کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں جنگ بندی برقرار ہوتے ہی نیتن یاہو کی حکومت گر جائے گی کیونکہ اس حکومت کا تسلسل جنگ کی شدت بڑھنے پر منحصر ہے۔ لہذا اگر قطر میں شروع ہونے والا حالیہ مذاکراتی سلسلہ نتیجہ بخش ثابت ہوتا ہے اور غزہ اور لبنان میں جنگ بندی ہو جاتی ہے تو ایران کی سفارتکاری کا ایک اہم مقصد حاصل ہو جائے گا۔
 
ایران پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد خطے کے تقریباً تمام عرب ممالک نے اس کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کے تحفظ پر بھی زور دیا ہے۔ دوسری طرف صدارتی الیکشن قریب ہونے کے ناطے امریکی حکمران بھی خطے میں جنگ کی شدت مزید پھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لہذا اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف سیاسی اتحاد تشکیل دینے کا سنہری موقع ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کو بھی سختی سے خبردار کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی فوجی مہم جوئی میں شرکت کی صورت میں اس کے خلاف بھی سخت فوجی کاروائی انجام پا سکتی ہے۔ یہ اقدام بھی امریکہ کی جانب سے سفارتی راہ حل کی جانب گامزن ہونے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ اس سطح تک ڈیٹرنس برقرار کرنے کے ساتھ ساتھ فعال سفارتکاری نے خطے میں پائیدار امن کی امید پیدا کر دی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1169893

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1169893/تل-ابیب-کے-فوجی-جنون-خلاف-اتحاد-سازی-کی-ضرورت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com