اسرائیل کے پیچھے چھپے ہاتھ کو پہچانو
29 Oct 2024 18:21
اسلام ٹائمز: اسرائیل کی نیشنل اکنامک کونسل کے سابق سربراہ "یوجین کینڈل" نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کو آٹھ دہائیوں کی دی جانیوالی بھاری امریکی امداد کے باوجود، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل آئندہ ایک آزاد یہودی ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان میرشائر بھی اسی تناظر میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسیاں نہ صرف امریکی قومی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہیں، بلکہ مغربی ایشیا میں کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں اور اس پالیسی کا تسلسل امریکا کو دنیا میں مزید تنہاء کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
جب سے غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر جارحیت اور نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا ہے، مجھے مختلف ٹی وی چینلوں اور میڈیا کے دیگر ذرائع سے بیسیوں بار گفتگو کا موقع ملا اور ان انٹرویوز یا پوڈ کاسٹوں میں اکثر اینکرز حضرات صرف اسرائیل کو ان تمام جرائم کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں اور صرف اور صرف صیہونی حکومت کو ان جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اسرائیل کو اگر امریکہ اور مغرب کی کھلی حمایت نہ ملے تو یہ مقاومت کے بلاک کیا صرف فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں زیادہ دیر تر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ اس کی زندہ مثال طوفان الاقصیٰ آپریشن ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان قریبی رابطے کو ہمیشہ نظر انداز کرتا ہے، حالانکہ اسرائیل کا تاریک ماضی اس کا شاہد ہے کہ امریکہ نے عالمی اداروں سمیت ہر سیاسی، اقتصادی، سفارتی اور فوجی بحران میں اسرائیل کو ریسکیو کیا۔
غزہ کی موجودہ تباہی اور لبنان پر صیہونی جارحیت کو جب بھی بیان کیا جائے تو امریکہ کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے، یہ عالمی اور علاقائی تناظر میں ایک اسٹریٹجک غلطی ہوگی۔ امریکہ کے اپنے شائع شدہ سرکاری تخمینوں کے مطابق امریکہ نے صرف ایک سال میں صیہونی حکومت کو 22 بلین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی ہے۔ براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے اخراجات کا ایک اہم حصہ امریکہ کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر امریکہ ہمیشہ اور ہر صورت حال میں اسرائیل کا کلیدی حامی رہا ہے اور اس نے صیہونی حکومت کو سب سے زیادہ سیاسی، فوجی اور ہتھیاروں کی امداد فراہم کی ہے۔
دستیاب اعدادوشمار کی بنیاد پر، امریکہ ابھی تک اسرائیل کو 310 ارب ڈالر سے زیادہ امداد دے چکا ہے۔ یہ امداد خاص طور پر مختلف جنگوں اور بحرانوں کے دوران بڑھی ہے، جیسا کہ گذشتہ سال کے دوران اور غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ نے ہر قسم کے ہتھیار اور فوجی امداد بھیج کر اسرائیل کی مدد کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے بھی غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی "واٹسن" انسٹی ٹیوٹ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں صیہونی حکومت کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ نے اس حکومت کو 22 بلین ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد دی ہے، جو کہ ہتھیاروں اور آلات سے لے کر غاصب صیہونی حکومت کے طیارہ بردار جہازوں کی تعیناتی تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس تناظر میں گائیڈڈ اور بنکرز برسٹر بموں کی سپلائی بھی شامل ہے، جو شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کا باعث بنے۔ اسرائیل کو امریکہ کی امداد کا سلسلہ ایسے عالم میں جاری ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم جاری ہیں اور اب یہ نسل کشی کی حدود کو بھی عبور کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے خلاف کئی بین الاقوامی اداروں نے خبردار کیا ہے اور خاص طور پر امریکہ کی اسرائیل کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ "فرانسیکا البانس" کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملے مغرب کی حمایت اور ان کے عطیہ کردہ ہتھیاروں سے کیے جاتے ہیں۔ واشنگٹن حکام نے اعتراف کیا ہے کہ صیہونی حکومت امریکی ہتھیار استعمال کرتی ہے۔
اسرائیل کے لیے امریکی امداد کے حوالے سے کچھ امریکی حکام نے یہ امداد بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ایک آزاد امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ امریکی میڈیا کی زیادہ تر توجہ اس ملک کے صدارتی انتخابات پر ہے۔ ہمیں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے، جہاں انسانی بحران روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ سینڈرز نے مزید کہا ہے کہ وسیع پیمانے پر ہونے والی اس دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے درمیان امریکہ غزہ کے خلاف جارحیت میں اسرائیلی حکومت کی حمایت میں اربوں ڈالر کی مالی امداد اور ہزاروں بم اور دیگر ہتھیار فوجی امداد کی شکل میں بھیج رہا ہے۔ اسرائیل کی مدد کا معاملہ اب امریکی معاشرے میں ایک سنگین چیلنج بن گیا ہے، اس کے باوجود ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتیں مختلف شکلوں میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیتی ہیں۔
بہت سے امریکی شہری اپنے ملک کی ملکی معیشت کے حالات سے غیر مطمئن ہیں اور اس طرح کی امداد کو امریکہ کے معاشی مسائل میں بگاڑ کا سبب سمجھتے ہیں۔ شائع شدہ پولز کے نتائج کے مطابق، دو تہائی امریکی عوام جنہوں نے سی بی ایس پول میں حصہ لیا ہے، وہ اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی امداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس تناظر میں، امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی نے امریکہ کی طرف سے تل ابیب کو فراہم کی گئی سینکڑوں بلین ڈالر کی امداد کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اگر یہ رقم ریاستہائے متحدہ میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے ہر شخص کو دی جاتی تو ہر غریب امریکی کو 10,000 ڈالر ملتے۔ تمام تر امریکی امداد اور غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کے تسلسل کے باوجود اس کی بقا کا کوئی واضح امکان نہیں ہے۔
اسرائیل کی نیشنل اکنامک کونسل کے سابق سربراہ "یوجین کینڈل" نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کو آٹھ دہائیوں کی دی جائے والی بھاری امریکی امداد کے باوجود، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل آئندہ ایک آزاد یہودی ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان میرشائر بھی اسی تناظر میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسیاں نہ صرف امریکی قومی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہیں، بلکہ مغربی ایشیا میں کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں اور اس پالیسی کا تسلسل امریکا کو دنیا میں مزید تنہاء کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1169537