دائیں بازو کی مغربی جماعتیں اور اسلامو فوبیا
28 Oct 2024 22:36
اسلام ٹائمز: یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کی ڈائریکٹر سرپا راؤتی کا کہنا ہے کہ ہم یورپ میں نسل پرستانہ رویئے اور مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں اور یہ مسئلہ مغربی ایشیاء کے تنازعات کے بعد مزید مضبوط ہوا ہے اور پورے براعظم میں کچھ لوگوں کے غیر انسانی اور اسلام مخالف رویوں میں شدت آئی ہے۔ ان تمام انتباہات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اس براعظم میں مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک اور تشدد بھی اسوقت تک جاری رہے گا، جب تک یورپی حکام مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلانے کی پالیسی کو روکنے کیلئے کوئی عملی اور موثر اقدامات نہیں کرتے۔
تحریر: آتوسا دیناریان
یورپ کے مختلف ممالک میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے نے بہت سے یورپی حکام کو اس عمل کے نتائج کے حوالے سے پریشان اور سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جرمنی میں امتیازی سلوک کے خلاف سرگرم ادارے کی کمشنر فردا اتمان نے مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز کے بارے میں خبردار کیا اور تاکید کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اس پر ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں "مذہبی امتیاز کے خلاف جامع حکمت عملی" پر بھی زور دیا۔ اتمان نے کہا ہے کہ مذہبی امتیاز کے خلاف حکمت عملی، اس کی روک تھام نیز اس کے خلاف شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ کے حوالے سے فوری نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر یورپ کی بنیادی حقوق کی ایجنسی (FRA) کی تحقیق کے تازہ ترین نتائج کے مطابق آسٹریا کے بعد جرمنی میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جرمنی ان یورپی ممالک میں سے ایک ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، لیکن یورپی ممالک کے تمام تر انسانی مساوات کے نعروں کے باوجود اس ملک میں مسلمان سات اکتوبر کے بعد بہت زیادہ دباؤ، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ یاد رہے 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس نے اسرائیل کے مظالم کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن انجام دیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ تنظیم کے نسل پرستی کے محقق "الماز ٹیفرا" نے حال ہی میں نشاندہی کی ہے کہ جرمنی میں 50 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، لیکن وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں مسلمان امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں نفرت اور بعض اوقات تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جرمن کے وفاقی فوجداری پولیس کے محکمے کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے خلاف نفرت پر مبنی 400 سے زائد کارروائیاں اور پناہ کے متلاشیوں اور تارکین وطن کے خلاف 500 سے زائد جرائم پیش آچکے ہیں، جن میں سے اکثر اشتعال انگیز کارروائیاں دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کی جانب سے تھیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلم مخالف جرائم اور واقعات میں دوگنا اضافے کے بارے میں خبردار کیا تھا اور اس معاملے میں جرمن حکام کی عدم توجہی کو بھی تشویشناک قرار دیا تھا۔ جرمنی میں اسلامو فوبیا پر نظر رکھنے والی ایک سرکاری تنظیم CLAIM کا کہنا ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 114 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نہ صرف جرمنی بلکہ دیگر یورپی ممالک میں بھی مسلمانوں کے لیے صورتحال مزید مشکل ہوگئی ہے، یورپی یونین کے آئینی حقوق کے ادارے کے ڈائریکٹر "Sirpa Raotiu" کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم نسل پرستی میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ یورپی ممالک نے مسلمانوں کے حالات زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ جرمنی اور آسٹریا سمیت بعض یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کا عروج دراصل امتیازی سلوک میں شدت اور مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے کی ایک وجہ ہے۔ یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور حالیہ برسوں میں انہوں نے مختلف سیاسی اور سماجی جہتوں میں عملی طور پر مسلمانوں کا باقاعدہ مقابلہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی مساجد اور مذہبی مراکز پر حملے، اسلامی لباس پہننے والے مسلمانوں کو ہراساں کرنا، ملازمتوں اور تعلیم کے مواقع میں عدم مساوات یورپی ممالک میں مسلمانوں پر دباؤ کی چند مثالیں ہیں۔
تاہم یہ صورتحال بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اب یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کی طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی طرف سے غزہ جنگ کے جاری رہنے سے اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کی ڈائریکٹر سرپا راؤتی کا کہنا ہے کہ ہم یورپ میں نسل پرستانہ رویئے اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں اور یہ مسئلہ مغربی ایشیاء کے تنازعات کے بعد مزید مضبوط ہوا ہے اور پورے براعظم میں کچھ لوگوں کے غیر انسانی اور اسلام مخالف رویوں میں شدت آئی ہے۔ ان تمام انتباہات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اس براعظم میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد بھی اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک یورپی حکام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی پالیسی کو روکنے کے لیے کوئی عملی اور موثر اقدامات نہیں کرتے۔
خبر کا کوڈ: 1169303