QR CodeQR Code

غاصب صیہونی حکومت اپنے پورے وجود کو خطرے میں محسوس کر رہی ہے، آیت اللہ جوادی آملی

23 Oct 2024 11:30

اسلام ٹائمز: وعدہ صادق 2 کوئی عام بات نہیں تھی۔ سب حیران و ششدر رہ گئے۔ اسرائیل اکیلا نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ، انگلینڈ اور فرانس سب اسکے ساتھ ہیں۔ اسکی مثال جنگ احزاب کی ہے۔ کس ملک نے انکی مدد نہیں کی۔؟ اسلام کی فتح اور انکی کامیابی کے بارے میں ذرہ برابر فکر نہ کریں۔ رہبر انقلاب کو ہمارا سلام پہنچائیں اور انکا شکریہ ادا کریں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ خدا آپکی کوششوں کو قبول فرمائے گا۔ موجودہ حالات میں جن افراد کو کوئی دکھ پہنچا ہے۔ ان سب کیلئے ہمارا سلام، ہماری تعزیت، ہماری عقیدت اور ہماری دعائیں ہیں۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

مرجع تقلید حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے فرمایا ہے کہ صیہونی حکومت ہر ممکن حد تک مقابلہ کرے گی، کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، نہ دوسرے ممالک صیہونیوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دیں گے اور نہ ہی اب وہ مقبوضہ سرزمین میں رہ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اس وقت  اپنے پورے وجود کے ساتھ خطرہ محسوس کر رہی ہے۔ غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کے بعد حضرت آیت اللہ جوادی آملی کا اہم پیغام۔ آئی آر آئی بی نیوز ایجنسی کے مطابق؛ آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی کے پیغام کا متن درج ذیل ہے۔

أعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم

اسرائیل کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا جو سلسلہ جاری ہے، وہ نہ تو فرقہ وارانہ جنگ ہے اور نہ ہی عام مذہبی جنگ بلکہ یہ جنگ حق اور باطل کی جنگ ہے، یعنی ایک اسلامی جنگ، کیونکہ یہ ایک اسلامی جنگ ہے، اس لئے تمام اسلامی ممالک ایک طرف ہیں اور دوسری طرف صیہونی۔ صیہونی حکومت کے اقدام  اصول اسلام کے خلاف ہیں، کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ جو گروہ کسی ملک سے، اس ملک کے شہریوں سے، اس کے ملک کی زمین ہتھیانے کے لیے آئے تو اسے نکال باہر کرنا چاہیئے۔ اس لیے ہم مذہب، شیعہ، سنی، ایران، لبنان، عرب، غیر مسلم وغیرہ کی بات نہیں کر رہے، ہم قرآن اور غیر قرآن کی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت میدان میں ایک طرف قرآن ہے اور دوسری طرف اسرائیل اور اصحاب کفر ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر آج اسلامی ممالک کے قائدین اس تحریک کی حمایت نہیں کریں گے تو کل وہ اسرائیل کا شکار ہوں گے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ  اگر آج وہ مقاومت کے گروہوں کی مدد نہیں کریں گے تو کل خود محفوظ رہیں گے، کیونکہ انہیں بالآخر اسلام کی چھتری تلے ہی رہنا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اسرائیل ہر ممکن حد تک مقابلہ کرے گا، کیونکہ اس کی صرف انفرادی حیثیت نہیں بلکہ اس وقت اس کی  پوری شناخت زیر سوال ہے۔ صیہونی اگر آج اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کہیں جانا چاہیں تو ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوسرے ممالک انہیں اپنے ملک میں آنے کی  اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اب وہ اس مقبوضہ سرزمین میں رہ سکتے ہیں۔

اس لیے اب اسرائیل اپنے پورے وجود کے ساتھ خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ ایک وقت صورت حال ایسی جنگوں کی طرح ہے کہ اگر وہ ہمیں مار ڈالیں تو ہمارے بچے ان کا انتقام لیں گے، بہت اچھا! لیکن یہاں تو ہر فلسطینی اسرائیل کے خلاف ہے۔ وہ غاصبوں سے کہتا ہے کہ تم غاصب ہو اور تم یہاں سے چلے جاؤ۔ تمہارا اس سرزمین سے کیا تعلق  ہے۔ اس لیے ہر فلسطینی اپنی پوری طاقت سے دفاع کرتا ہے۔ یہ اب اس طرح نہیں کہ وہ کہیں میرے بچے، میری آنے والی نسلیں بدلہ لیں گی۔ نہیں! یہ مسلمان جو جیت جائیں گے، وہ اسرائیل کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے، یہ کہتے ہوئے کہ تم غاصب ہو، یہ ملک اور زمین تمہارے لیے نہیں ہے۔ اس لیے اسرائیل پوری طرح لڑتا ہے اور اس کے اتجادی بھی پہلے سے جانتے ہوئے اپنی پوری قوت سے اس کی مدد کر رہے ہیں۔

اگلی بات یہ ہے کہ نہ ایران نہ لبنان اور نہ ہی حزب اللہ ان کے مقابل ہے۔ ان کے مقابل صرف مذہب ہے۔ اگر دین ایک طرف ہو تو ہمیں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ ہم کمزور ہیں یا ہماری طاقت کمزور ہے یا ہم میں استطاعت نہیں ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے (هو معکم) خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اگر خدا کی پاک ذات ساتھ ہو، چاہے وہ کچھ بھی ہو، جیسے اسلامی نظام اور ایران کے اسلامی انقلاب میں تھا، ناکامی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آدھا فیصد بھی ناکامی کا کوئی امکان نہیں۔ اسلامی ممالک کے قائدین، اسلامی ممالک کے علمائے کرام، اسلامی ممالک کے برادرانِ اسلام اور اسلامی ممالک کے مذہبی لوگوں کو میری تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم کی طرف دوبارہ رجوع کریں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں کیا کہا ہے اور ان (دو) کے بارے میں ہمارا کیا فریضہ و ذمہ داری ہے۔

اگلی بات یہ ہے کہ قرآن نے اسرائیل کی شناخت کو واضح کرکے بیان کر دیا ہے کہ صہیونی کون ہیں اور کس حد تک دھوکہ دہی اور توہین پر آمادہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کی لاشیں نکالی جا رہی ہیں، قرآن کریم نے ان لوگوں کی حیثیت کو بیان کر دیا ہے، تاکہ آپ یہ نہ کہیں، آہ جب تک آپ زندہ ہیں یا جب تک ہم زندہ ہیں، ہم اس درد کو نہیں بھولیں گے۔ جیسے ہی ہم عالم برزخ کے مرحلے میں داخل ہونگے، وہاں روح و ریحان ہے۔ خداوند عالم مرحوم سید الاستاد علامہ طباطبائی کی مغفرت فرمائے۔ وہ کہتے تھے کہ جو لوگ میدان جنگ میں شہید ہوتے وقت گولی یا کسی دوسرے زخم سے تڑپ رہے ہوتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ مصیبت اور تکلیف میں ہیں جبکہ یہ ان لوگوں کی طرح ہیں، جو گرم موسم میں تالاب میں داخل ہوئے ہیں اور تیراکی کر رہے ہیں اور اس سے بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

ہمیں قرآن سے بھی اسی طرح کا مفہوم ملتا ہے۔ موت کے دو راستے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ جب کوئی مر رہا ہو اور سخت تکلیف میں مبتلا ہو اور دوسرا یہ کہ جب کوئی شہید ہو رہا ہو، وہ جو شہید ہو رہا ہے اور اسے ہم سخت تکلیف میں ملبے کے نیچے سے نکال رہے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے وہ سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی کے تالاب میں تیر رہا ہو۔ قرآن اسرائیل کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے "اسرائیل کون؟" روح القدس جبرائیل نے اس کی نشاندہی کی اور نبی کو بتایا کہ آپ کو ایک عام گروہ کا سامنا نہیں ہے۔ بابرکت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 13 میں ارشاد ہوتا ہے۔ (لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی‏ خائِنَةٍ مِنْهُمْ) تمہارا سامنا ایک عام ملک سے نہیں ہے۔ وہ ہر روز دھوکہ دے رہا ہے، سازش کر رہا ہے۔ جاسوسی کر رہا ہے۔

(لا تزال) کا مطلب ہے ہمارا مقابل کون ہے؟ آپ کس سے لڑ رہے ہیں؟ کیا یہ معاہدہ، جنگ بندی یا اس طرح کی کسی چیز کو قبول کرتا ہے؟ یہ دشمن ایسے نہیں ہیں۔ آپ نبی ہیںو لیکن وہ روز آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ قرآن میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا مطلب تسلسل کے معنی میں ہے، یعنی یہ قوم ہر روز نیا فتنہ کھڑا کرتی ہے۔ ہر دن کی منصوبہ بندی کرتی ہے، ہر روز غنڈہ گردی کرتی ہے، ہر روز کی خلاف ورزی کرتی ہے، یہ ان کا عمومی اصول ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کا کس سے مقابلہ ہے۔ یہ پہلا اصول ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ اگلا اصول یہ ہے کہ عالم ملکوت میں کیا ہوگا، آپ نے کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا، جو بظاہر بڑے اچھے حالات میں جان دیتے ہیں اور دوسری طرف آپ نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہوگا، جن کی لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جاتی ہیں۔

کیا حقیقت میں بھی ایسا ہے، ہرگز نہیں، جب تک کوئی شخص زندہ ہے، دنیوی قوانین نافذ ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ برزح کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے معیار اور اصول الگ ہیں۔ اگر وہ کافر ہے تو ایک طرح سے مرے گا اور اگر وہ مومن ہے تو دوسرے طریقے سے مرے گا۔ قرآن مجید کی آیات کے دو حصوں میں اس کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن اشارہ کرتا ہے کہ  تم کسی کافر کو بستر پر مرتے ہوئے دیکھتے ہو، لیکن تم نہیں جانتے کہ اس پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔ (إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبَارَهُمْ) "تم نہیں جانتے کہ فرشتے ان کے چہروں اور پشت پر مار رہے ہوتے ہیں۔" یہ بظاہر بسترپر مر رہا ہے، لیکن آپ نہیں جانتے کہ یہ کیسے مر رہا ہے۔ "الْمَلاَئِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبَارَهُمْ" یہ سزا اس لئے کہ ان کا جرم بہت سنگین ہے۔ یہ انبیاء کو قتل کرنے والے تھے۔

اب آپ بتائیں کہ جنہوں نے حزب اللہ کے افراد کو شہید کیا؟ انہوں نے لبنان کے محترم سید حسن نصراللہ رضوان الله تعالیٰ علیه و علیهم کو شہید کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے ماضی میں انبیاء کو قتل کیا۔ آپ ان سے کیا توقع کرتے ہیں؟ جو لوگ انبیاء کو ناحق قتل کرتے ہیں، (یَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍّ)، کیا آپ ان سے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کی توقع رکھتے ہیں۔؟ قرآن فرماتا ہے، یہی وہ گروہ ہے، جب مرتا ہے تو فرشتے ان کے منہ اور چہروں پر مارتے ہیں، تم بظاہر دیکھ رہے ہو کہ یہ بستر پر آرام سے جان دے رہا ہے، لیکن ان کو تھپڑوں سے مارا جا رہا ہے۔ (الْمَلاَئِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبَارَهُمْ)۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو گمراہ کرتے ہیں، ظلم کرتے ہیں اور ایک مسلمان کو قتل کرتے ہیں، جب یہ مریں گے تو عذاب الہیٰ شروع ہو جائے گا۔

اب ہم دوسری جانب جاتے ہیں، وہ لوگ جو ملبے تلے دب کر زخمی ہوگئے ہیں، ان کو جب باہر نکالا جائے گا، وہ ظاہری طور پر زخمی ہیں، لیکن ان کے لیے طیب فرشتے آئیں گے۔ (الَّذینَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِکَةُ طَیِّبینَ)، وہ فرشتے کیا کرتے ہیں؟ وہ ان پر سلام بھیجتے (سَلامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها خالِدین‏)۔ اگر یہ آیات موجود ہیں تو اسلامی ممالک کے ان اسلامی رہنماوں کو جواب دینا پڑے گا۔ مبادا یہ کہیں کہ بے چارے غریبوں کو اس ملبے تلے سے نکالا جا رہا ہے۔ ہاں، وہ ملبے کے نیچے سے نکالے جا رہے ہیں، لیکن ان کا استقبال فرشتے کریں گے، فرشتے ان سے کہتے ہیں (سَلامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها خالِدین)‏۔ اگر ان شاء اللہ ہم نے انبیاء کے راستے پر چلتے ہوئے ان کی مدد کی، ہم نے مومنوں کی مدد کی، ہم نے مجاہدین کی مدد کی، ہم نے حزب اللہ کی مدد کی، ہمیں بھی اس طرح کا اجر ملے گا اور اگر خدا نہ کرے، ہم بے پرواہ اور غیر جانبدار رہے تو ہمارے ساتھ بھی ظالموں جیسا سلوک ہوگا۔ (إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبَارَهُمْ)

اگر ہم سے کہا گیا کہ آپ اپنے اعمال، الفاظ، طرز عمل، سیاسی مسائل، سماجی ایشوز کو قرآن کے سامنے پیش کریں، تو یہ مقدس کتاب کہتی ہے کہ آپ کا دشمن وہ ہےو جو ہر روز اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ جو ظلم کرتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے حزب اللہ کو شہید کیا؟ ناحق انبیاء کو قتل کرنے والوں کے ہاں کوئی فرق نہیں کہ وہ حزب اللہ کے افراد کو قتل کریں یا غیر حزب اللہ کو. ان ممالک کے حکام خواہ وہ حجاز میں بیت اللہ کے خادم الحرمین ہوں یا شام میں اہل بیت کے متولی ہوں یا دوسرے ممالک کے حکام حتی غیر مسلم ہوںو انہیں ان باتوں پر توجہ دینی چاہیئے! "إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ دِینٌ وَ کُنْتُمْ لَا تَخَافُونَ الْمَعَادَ فَکُونُوا أَحْرَاراً فِی دُنْیَاکُمْ"، "اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہیں قیامت کا خوف نہیں ہے تو اپنی دنیا میں تو آزادی سے رہو"

قرآن کہتا ہے (مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّهِ قِیلاً)، "خدا سے زیادہ سچا کون ہے؟" اگر اس نے کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ناحق انبیاء کو قتل کیا ہے تو ان سے کیا توقع رکھتے ہو؟ آپ کس کے ساتھ  تعلقات بنانا چاہتے ہیں؟ کبھی ایسا دن آتا ہے، جب انسان کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے بارے میں سوچو! ہاں، خدا حزب اللہ کی ضرور مدد کرے گا۔ لیکن اپنے بارے میں سوچو! اگر اسرائیل کبھی ایران کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اور ایران جواب میں حملہ کرے تو آپ کی فوج کو ایران کے میزائلوں کو فضا میں نہیں روکنا چاہیئے اور نہ ہی مارنا چاہیئے۔

حقیقت یہ ہے کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی مختلف ممالک میں تشریف لے جا رہے ہیں، وہ انہیں بتا رہے ہیں، سمجھا رہے، البتہ ان ممالک میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اسرائیل نے انہیں کہا کہ اگر ایران مثلاً فلاں ملک کے راستے حملہ کرنا چاہتا ہے تو آپ کو بھی اس کے خلاف کچھ کرنا چاہیئے۔ ایسا نہ کرو، کیونکہ اس سے وہ آپ کی دنیا، آخرت، عزت اور وقار کو نقصان پہنچائیں گے۔ اپنے بارے میں سوچو! ہمارا باقاعدہ حکم یہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کے سامنے پیش کرو۔ اگر معاملات بہت پیچیدہ ہیں تو گویا ہمارے بس میں نہیں۔۔ لیکن قرآن کہتا ہے، ہر روز اپنے آپ کو قرآن کے سامنے پیش کرو۔ نقصان اٹھاؤ گے ۔کیا کرنا چاہ رہے ہو۔ اسلامی ممالک کے کسی عالم یا عہدیدار کی خاموشی جائز نہیں۔

حضرات، آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور سید حسن نصراللہ رحمت اللہ علیہ کے مبارک وجود کے لیے استغفار کرتے ہوئے، وہ بے شک ہمارے زمانے کے عظیم ترین شہداء میں سے ایک ہیں۔ میں لبنان اور غزہ کے تمام شہداء اور ان جیسے دوسرے شہداء کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ اہل لبنان و غزہ فتح یاب ہوں گے۔ تاہم ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم جتنا بھی ہوسکے، ان کی مدد کریں اور اس میں کوتاہی نہ کریں۔ میں اسلامی ممالک کے حکام علماء نیز شیعہ اور سنی تمام بھائیوں کو بڑے احترام سے عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اولین فرض یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو قرآن کے حضور پیش کریں، قرآن پاک کے سامنے پیش کرنے کے لیے یہ پیچیدہ مسائل نہیں ہیں۔ قرآن کہتا ہے، ان کو دیکھو، سمجھ جاؤ گے۔ ممکن ہے کہ بعض باطنی مفاہیم سب کے لیے قابل فہم نہ ہوں، لیکن (یَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍّ) کو سمجھا جاسکتا ہے، (لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی‏ خائِنَةٍ مِنْهُمْ) کو درک کیا جاسکتا، (إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ) کو ہم سمجھ سکتے ہیں، (سَلامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها خالِدین‏) کو سمجھا جاسکتا ہے۔

لہٰذا عالم اسلام میں سے کوئی عالم دین، اسلامی ممالک کے حکام میں سے کوئی خواہ اس کا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے، مشرق سے ہے یا مغرب سے، ان کی خاموشی جائز نہیں! اس کا مصداق وہی قول ہے کہ جو سچ نہیں کہتا شیطان نے اس کا منہ بند کر دیا ہے۔ شیطان کبھی بات کرکے گمراہ کرتا ہے، کبھی خاموش کروا کر گمراہ کرتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جہاں نصیحت کرنی ضروری ہوتی ہے، وہاں خاموش کروا دیتا ہے۔ جہاں رہنمائی کرنی چاہیئے، نصیحت کرنی چاہیئے یا حق کا دفاع کرنا چاہیئے۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت حال میں نہیں بولتا تو اس کی مثال ہے کہ  "السکتو عَنْ الْحقِّ شيطانٌ اخْرَسٌ۔" بعض نے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک سے منسوب کیا ہے، لیکن سند کمزور ہے، تاہم بیان صحیح و سچ ہے۔ اس لیے ہمیں یہ دو کام کرنے چاہئیں۔ ایک اپنے آپ کو قرآن کے سامنے پیش کریں اور دوسرا موجودہ واقعات کو قرآن سے تطبیق دیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ خداوند عالم کی مدد جلد فراہم ہوگی اور بالخصوص رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کی کوششیں بالخصوص نماز جمعہ کی ادائیگی جو واقعی اسلام کے لئے ایک اعزاز تھا، قبول و مقبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ فردوسی شاعر کو سلامت رکھے! وہ کہتے ہیں: "فلک نے کہا کہ احسن ملک نے کہا بہت عمدہ " ہم نے یہ بات وعدہ صادق 2 کے بارے میں کہی۔ وعدہ صادق 2 کوئی عام بات نہیں تھی۔ سب حیران و ششدر رہ گئے۔ اسرائیل اکیلا نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ، انگلینڈ اور فرانس سب اس کے ساتھ  ہیں۔ اس کی مثال جنگ احزاب کی ہے۔ کس ملک نے ان کی مدد نہیں کی۔؟ اسلام کی فتح اور ان کی کامیابی کے بارے میں ذرہ برابر فکر نہ کریں۔ رہبر انقلاب کو ہمارا سلام پہنچائیں اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ خدا آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے گا۔ موجودہ حالات میں جن افراد کو کوئی دکھ پہنچا ہے۔ ان سب کے لیے ہمارا سلام، ہماری تعزیت، ہماری عقیدت اور ہماری دعائیں ہیں۔ "غفر الله لنا و لکم و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته"


خبر کا کوڈ: 1168268

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1168268/غاصب-صیہونی-حکومت-اپنے-پورے-وجود-کو-خطرے-میں-محسوس-کر-رہی-ہے-آیت-اللہ-جوادی-آملی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com