سید حسن نصراللہ تا ابد زندہ ہیں
23 Oct 2024 16:07
اسلام ٹائمز: سید حسن نصراللہ کی بصیرت اور حکمت عملی تھی، جس نے غزہ پر آگ و خون برسانے والی صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کو کاری ضرب لگا کر نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ فلسطینیوں کے سب سے بڑے مددگار تھے اور آخرکار انہوں نے فلسطین کی خاطر اپنی جان قربان کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم ظالم اور فاسق طاقتوں کے سامنے نہ تو پہلے کبھی سر بتسلیم ہوئے تھے اور نہ آج ہو رہے ہیں۔ آج سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، لیکن انکا اخلاص، جہاد، محبت، بصیرت اور انکی دانائی ہمارے درمیان موجود ہے اور آج انکے خون کی برکت سے ہزاروں حسن نصراللہ جنم لے رہے ہیں، وہ عالم ارواح سے شہدائے طریق القدس کے ہمراہ فلسطین و لبنان سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ شہید حسن نصراللہ تا ابد زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان میں 31 اگست سنہ1960ء کو آنکھ کھولنے والی سید حسن نصراللہ کی شخصیت کے بارے میں بیان کرنے یا تحریر کرنے کے لئے اتنا کچھ مواد ہے کہ شاید راقم کے قلم میں اس قدر سکت نہ ہو۔ حسن نصراللہ صدی کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے موجودہ زمانہ میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کے بارے میں قیامت تک آنے والی نسلیں مطالعہ کریں گی اور اس تاریخ سے سبق بھی حاصل کریں گی۔ حسن نصراللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا، جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔ جس وقت حسن نصراللہ جوانی کو پہنچے تھے، اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخرکار صیہونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ سید حسن نصراللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا، ہرگز اس بات کو قبول نہ کرسکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرج آئے۔
حسن نصراللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسیٰ صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب سنہ 1982ء میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ سید حسن نصراللہ سے قبل شہید ہونے والے قائدین میں شہید عباس موسوی، شہید راغب حرب ہیں، جنہوں نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالی تھی اور شہید عباس موسوی کے بعد سید حسن نصراللہ نے قیادت کے منصب کو سنبھالا اور تحریک کو آگے بڑھایا۔سنہ1992ء میں عباس موسوی کے شہادت کے بعد حزب اللہ کو نئی طرز پر تیار کرنے میں حسن نصراللہ نے اہم کردار ادا کیا اور اس کا نتیجہ آخرکار سنہ2000ء میں برآمد ہوا کہ غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کی فوجوں کو لبنان سے فرار کرنا پڑا۔
اس سے قبل بھی سنہ1982ء کے زمانہ میں حسن نصراللہ اور ان کے شہید ساتھیوں میں عماد مغنیہ، فواد شکر، ایوب، حسن القیس، حاج ذوالفقار سمیت متعدد ایسے ساتھی تھے، جنہوں نے اس زمانے میں بیروت پر قابض غیر ملکی فوجوں بالخصوص امریکی فوجیوں کو بھگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالیہ جنگ میں سات اکتوبر کے بعد حزب اللہ نے جنوبی لبنان کے محاذ پر جنگ کا آغاز کیا تو امریکہ نے بارہا سید حسن نصراللہ کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ ہم اپنے بحری بیڑے لبنان کے سمندروں میں لے آئیں گے اور پھر حزب اللہ کو امریکہ سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ ان دھمکیوں کا سید حسن نصراللہ نے دو ٹوک جواب دیا اور کہا کہ غزہ پر جارحیت بند کر دو، بس یہی ایک راستہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے امریکی حکومت کو سنہ1982ء کی تاریخی شکست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمھارا واسطہ آج بھی سنہ1982ء والوں سے ہے، تاہم آج ہمارے بیٹے اور ہمارے پوتے بھی اسی راستے پر یعنی مزاحمت کے راستے پر موجود ہیں۔
اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالی تھی تو اس وقت کچھ عرصہ بعد آپ کا نوجوان فرزند ہادی نصراللہ اگلے مورچوں پر اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا تھا، لیکن آپ نے اس شہادت پر کوئی غم نہ کیا بلکہ اس شہادت کو حزب اللہ کی تقویت کا وسیلہ قرار دے کر دشمن کے ان تمام خیالات اور عزائم کو خاک میں ملا دیا، جو وہ چاہتے تھے کہ شہید ہادی نصراللہ کے جسد خاکی کے عوض آپ کے ساتھ مذاکرات کریں اور مزاحمت کو شرائط پر مجبور کریں، لیکن آپ کی بصیرت نے دشمن کو ناکام کیا۔ اس طرح آپ ابو شہداء بھی کہلانے لگے۔ سید حسن نصراللہ کے جملوں میں امریکہ کو واضح پیغام تھا کہ ایک تو ہم غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر تم ہمیں قتل کروں گے تو ہماری اگلی دو نسلیں مزاحمت کے راستے پر ہیں، جو تمھارے ساتھ وہی سلوک کریں گی، جو ہم نے سنہ1982ء میں کیا تھا۔
سید حسن نصر اللہ کی زندگی کا خلاصہ کیا جائے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ایک ایسی زندگی بسر کی ہے، جس میں جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی ہمیشہ دنیا کے ظالم اور فاسق نظام کے خلاف سینہ سپر رہے۔ لبنان کے عوام چاہے وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہوں، ان کی جان و مال اور آبرو کا ہمیشہ حسن نصراللہ نے اپنی جان و مال اور آبرو کی مانند تحفظ کیا۔ ہمیشہ فلسطین سمیت خطے میں موجود اسرائیلی جارحیت کا شکار ممالک اور ان کی عوام کی حمایت کی۔ حسن نصراللہ اور ان کے ساتھیوں کی ایک طویل داستان مزاحمت ہے، جس پر ہزاروں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دنیا کے ہر اس خطے میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کی، جہاں امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتیں تسلط حاصل کر رہی تھیں یا ان علاقوں کے عوام کو محکوم کر رہی تھیں۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت ان کی طویل جدوجہد پر مبنی زندگی کے شایان شان ہے۔ ایسا انسان کبھی بستر مرگ پر نہیں مرتا۔ ایسے انسان کے لئے یہی شان ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں مظلوموں کی حمایت میں اپنی جان قربان کر دے۔ دنیا کے لئے شاید حسن نصراللہ کی شہادت ایک اچانک حادثہ ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت میں سید حسن نصراللہ اسی شہادت کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے اپنی شہادت سے قبل تقریر میں جو کہ 19 ستمبر کو لبنان میں پیجر حملوں اور شہید ابراہیم عقیل کی شہادت کے بعد کی تھی، اس تقریر میں واضح پیغام تھا۔ آپ نے کہا دشمن نے میرے لئے دو راستوں کا انتخاب کیا ہے، ایک یہ ہے کہ میں ذلت قبول کر لوں اور دوسرا یہ کہ مارا جائوں، سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میں دوسرے راستے کو انتخاب کروں گا یعنی شہادت کو۔
یہ ذلت کا راستہ کیا تھا، جو دشمن نے حسن نصراللہ کے لئے انتخاب کیا تھا۔؟ دشمن پہلے دن سے چاہتا تھا کہ حزب اللہ جنوبی لبنان سے غاصب صیہونی فوج کے خلاف اپنی کاروائیوں کو روک دے۔ لیکن سید حسن نصراللہ کا واضح اور دو ٹوک موقف تھا کہ ہمارا محاذ فلسطین کی حمایت کا محاذ ہے، جب تک غزہ پر جارحیت بند نہیں کی جائے گی، ہم اسرائیل کے خلاف کاروائیوں کو نہیں روکیں گے۔ سات اکتوبر کے بعد سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا، اس طرح کئی عرب ممالک کی حکومتوں نے بھی سید حسن نصراللہ کو امریکہ اور اسرائیل کے پیغامات پہنچائے تھے کہ آپ کو قتل کر دیا جائے گا، لبنان پر حملہ کر دیا جائے گا اور نہ جانے کیا کچھ دھمکیاں دی تھیں۔ ان سب دھمکیوں کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے ماضی کی اپنی تقریروں میں موقف واضح کیا تھا اور امریکہ کو یاد دلوا دیا تھا کہ تمھارا واسطہ سنہ1982ء والوں کے ساتھ ہے۔
اسی طرح جب شہادت سے قبل آخری تقریر کی، اس میں بھی حسن نصراللہ نے کہا کہ سب جان لیں، ہمارا راستہ واضح ہے، یعنی مزاحمت کا راستہ ہے۔ ہم اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ غزہ پر جارحیت کے خاتمہ تک ہمارا محاذ بھی جاری رہے گا اور اسرائیل کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ اگر ہم سب کے سب مارے جائیں اور قتل کر دیئے جائیں اور ہمارے گھر ہمارے سروں پر ملبہ بن کر گر پڑیں، تب بھی ہم غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے کچھ بھی قربانی دینا پڑے، ہم غزہ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ سید حسن نصراللہ کا عزم اور ارادہ تھا، جس نے آخرکار ان کی قربانی بھی مانگ لی۔ سید حسن نصراللہ نے جنوبی لبنان سے سات اکتوبر کو جس محاذ کا آغاز کیا تھا، اس محاذ نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پر اس قدر کاری ضرب لگا دی ہے کہ جس کو اسرائیل ختم نہیں کرسکتا۔
اسی ضرب کاری کے بارے میں جمعہ کے تاریخی خطبہ میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اشارہ کیا تھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے، یعنی ستر سال پہلے جن علاقوں پر آج اسرائیل قابض ہے، وہاں قابض نہیں تھا۔ آج شمال فلسطین میں ایک بہت بڑا رقبہ اگر صیہونی آبادکاروں کے فرار سے خالی ہوا ہے تو یقیناً اسرائیل کو ستر سال پیچھے پھینک دیا گیا ہے۔ اس کے لئے بہت بڑی بڑی قربانیوں میں ایک سب سے بڑی قربانی سید حسن نصراللہ نے خود پیش کی ہے۔ آج اسرائیل پوری دنیا کی طاقت کے ساتھ بھی اپنے آباد کاروں کو شمال فلسطین میں واپس نہیں لاسکتا ہے، کیونکہ یہ سید حسن نصراللہ کا وعدہ تھا کہ تم اپنے لوگوں کو اس علاقہ میں واپس نہیں لا پائو گے، کیونکہ حزب اللہ اب اس سے آگے حیفا تک علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور یہی صورتحال وہاں بھی پیدا ہو چکی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں صیہونی آباد کار فرار ہو رہے ہیں۔
یہی حسن نصر اللہ کی بصیرت اور حکمت عملی تھی، جس نے غزہ پر آگ و خون برسانے والی صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کو کاری ضرب لگا کر نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ فلسطینیوں کے سب سے بڑے مددگار تھے اور آخرکار انہوں نے فلسطین کی خاطر اپنی جان قربان کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم ظالم اور فاسق طاقتوں کے سامنے نہ تو پہلے کبھی سر بتسلیم ہوئے تھے اور نہ آج ہو رہے ہیں۔ آج سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، لیکن ان کا اخلاص، جہاد، محبت، بصیرت اور ان کی دانائی ہمارے درمیان موجود ہے اور آج ان کے خون کی برکت سے ہزاروں حسن نصراللہ جنم لے رہے ہیں، وہ عالم ارواح سے شہدائے طریق القدس کے ہمراہ فلسطین و لبنان سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ شہید حسن نصراللہ تا ابد زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
خبر کا کوڈ: 1168233