QR CodeQR Code

نظام تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں انجام پانے والے علمی کام پر ایک نظر

22 Oct 2024 06:58

اسلام ٹائمز: پاکستان اس حوالے سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ اسکے دانشور، اسکے نظامِ تعلیم میں بہتری کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔ انکی یه کوششیں مختلف اخبارات و جرائد میں تعلیم و تربیت سے منسوب چھپنے والے مقالات سے عیاں ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ایسے ہزاروں کالمز، مقالہ جات اور کتابیں چھپ چکی ہیں اور آئے روز چھپتی رہتی ہیں کہ جن میں صاحبانِ علم و دانش پاکستان کے نظامِ تعلیم کے مختلف پہلووں کا بہترین انداز میں جائزه لیکر اپنی تجاویز و آراء کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ نظام تعلیم کے حوالے سے تجاویز و آراء کو تشکیل دینا ایک الگ کام ہے جبکہ ان تجاویز کی روشنی میں کوئی منصوبہ بنا کر نافذ کرنا، یہ ایک الگ کام اور صاحبان اقتدار و اختیار کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ نظام تعلیم کے حوالے سے ارباب اقتدار و اختیار کی سرد مہری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صاحبان علم و دانش نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا۔


تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

پاکستان کا نیشنل کریکلم فریم ورک ایک انتہائی بنیادی اور اساسی نوعیت کی دستاویز ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے پاس کوئی قومی نصابی فریم ورک (NCF) نہیں تھا۔ زیاده تر ممالک کے پاس ایسے فریم ورک ہوتے ہیں اور وه ان کی روشنی میں اپنا نصاب تیار کرتے ہیں۔ دنیا کی تمام وفاقی ڈھانچہ رکھنے والی ریاستوں کے پاس ایک مشترکہ فریم ورک اور بنیادی نصاب موجود ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں بغیر کسی مشترکہ فریم ورک کے نظامِ تعلیم کے حوالے سے نظریاتی طور پر اور عملی طور پر بہت زیاده کام ہوچکا ہے۔ یہ بھی مخفی نه رہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کو اسلامی بنانے کے ساتھ ساتھ جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور ماڈرن تعلیمی نظریات سے بھی ہم آہنگ کرنے کی بہت کوششیں ہوچکی ہیں،  اس کے باوجود یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم ریاستِ پاکستان کی مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہیں ہے۔
 
اس وقت لارڈ میکالے کے مجوزه و قدیمی نظامِ تعلیم کے ہمراه پاکستان میں نظامِ تعلیم کی اسلامائزیشن کا عمل جاری ہے۔ عام طور پر لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم میں ہی اسلامیات کی ایک آدھ کتاب کو شامل کرکے اسے اسلامی نظام تعلیم کہہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نیشنل کریکلم کی بنیاد بھی اسی سوچ پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن کے ملاپ کی بنیاد پر جو نیشنل کریکلم فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے، اس کا جائزه لے کر قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں اس کی اصلاح کی جائے یا ایک متبادل فریم ورک پیش کیا جائے۔ لارڈ میکالے کے مجوزه نظام تعلیم کی کامیابی میں ایک بڑا کردار اسی علوم کی اسلامائزیشن کا ہے۔ میکالے رپورٹ کے حولے سے یہ واضح ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں لارڈ میکالے نے 1830ء میں جو جدید سکول سسٹم متعارف کرایا تھا، وه مجموعی طور پر تین وجوہات کی بنیاد پر کامیاب ہوا۔

 ان تینوں وجوہات پر ایک مختصر نگاه ڈال لیجئے:
1۔ ہندوستان میں رائج زبانوں میں جدید تعلیم کا نہ ہونا
2۔ مقامی زبانوں میں بیوروکریسی پیدا کرنے کی صلاحیّت کا فقدان
3۔ مقامی دینی رہنماوں کا صورتحال کا درست ادراک نہ کرنا
4۔ اسلامی نظامِ تعلیم کے بجائے علوم کی سطحی اسلامائزیشن کی طرف رجوع۔
ایک تو اس زمانے میں فارسی، سنسکرت اور عربی میں جدید تعلیم کا خلا تھا، اس خلا نے بھی اپنا کام کر دکھایا، دوسرے مقامی زبانوں میں انگریزوں کیلئے نوکر شاہی (بیوروکریسی) کی کھیپ تیار نہیں ہوسکتی تھی۔ تیسرے دینی رہنماوں خصوصاً مسلمان رہنماوں نے صورتحال کی نزاکت کا درست ادراک نہیں کیا، انہوں نے بائیکاٹ،  حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون، سرکاری ملازمتوں سے دوری اور جہاد بالسیف پر ہی توجہ رکھی اور تعلیمی جہاد کیلئے کوئی بڑی منصوبہ بندی کرنے سے محروم رہے۔  چوتھے یه کہ سر سیّد احمد خان کی طرح جنہوں نے فوری طور پر نظامِ تعلیم کی اہمیت کو سمجھا، وه فرسٹ ایڈ کے طور پر تعلیم کی اسلامائزیشن کی طرف گئے،  اسلامی نظامِ تعلیم کی طرف نہیں گئے یا حالات کے پیشِ نظر اُس طرف نہیں جا سکے۔

اُن کے ہم عصر مسلمان مفکرین کو چاہیئے تھا کہ وه سر سیّد کی مخالفت کے بجائے اُس زمانے میں موجود خلا کو پُر کرتے، خصوصاً قیامِ پاکستان کے بعد اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ایک مکمل، حقیقی اسلامی نظامِ تعلیم وضع کیا جائے۔ مقامی زبانوں میں جدید تعلیم کے فقدان نے خاص طور پر انگریزی زبان کیلئے راستہ ہموار کیا۔ زبان کی یہ تبدیلی اپنے ہمراه ایک مکمل تعلیمی نظام، فکری غلامی اور عیسائیت کی تبلیغ لے کر آئی۔ لارڈ میکالے کی رپورٹ میں قابلِ توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ  لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے نتائج کو اچھی طرح جانچ لیا تھا اور اس کی نظر بہت دور تک تھی۔ چنانچہ لارڈ میکالے نے صرف رپورٹ ہی نهیں لکھی بلکہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میری بات نہیں مانی جاتی تو پھر مجھے اس کمیٹی کی سربراہی سے الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔

جتنی ضرروت لارڈ میکالے کی سوچ کو سمجھنے کی ہے، اتنی ہی ضرورت اسلامائزیشن کو سمجھنے کی بھی ہے۔ ابھی تک کسی نے نیشنل کریکلم کے فریم ورک میں پائے جانے والے لارڈ میکالے اور علوم کی اسلامائزیشن کے عناصر کا قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں جائزه نہیں لیا۔ اگر یہ جائزه لے لیا جائے تو عوام اور خواص سب کو ایک حقیقی اسلامی نظام تعلیم کو سمجھنے اور اسے تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن پر یوں تو بہت زیاده قلمی و تحقیقی کا ہوا ہے۔ نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرف سے مسلمانوں نے بہت زیاده کام کیا ہے۔ ملائشیا کے سید نقیب العطاس کی کتاب "اسلام اور سیکولرزم"، ایران کے سید حسین نصر کی کتاب "Knowledge and Secred" اور مولانا مودودی کی کتاب "تنقیحات" اور "علمی تحقیقات: کیوں اور کس طرح؟" کا تقابلی مطالعہ بہت ضروری ہے۔

ہم پاکستان کے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کے لحاظ سے لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات کو مجموعی طور پر دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔  محض نظریاتی اور مفید کتابیں
2۔ نظامِ تعلیم پر ناظر اور تخصصی کتابیں
1۔ محض نظریاتی اور مفید کتابیں
پاکستان میں نظامِ تعلیم پر متعدد زاویوں سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اکثر کتابیں ایسی ہیں، جو برِّصغیر پاک و ہند کے تقسیم ہونے سے پہلے کے مروّجہ تعلیمی طریقہ کار کے بارے میں دینی طبقے کی کاوش ہیں۔ مثلاً  "پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت۔‘‘ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی یہ تصنیف دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ہندوستان میں قطب الدین ایبک کے وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح گوپی چند نارنگ کی کتاب ”اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو” یہ بھی ایک مفید کتاب ہے۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی کتاب “پاکستان کے لیے مثالی نظام تعلیم کی تشکیل، تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں”، قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب “خیرالقرون کی درسگاہیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت”، ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کی تصنیف ”دینی مدارس نصاب و نظام تعلیم اور عصری تقاضے“، اور شاه ولی الله کی فارسی کتاب “فن دانشمندی“ کا اردو ترجمہ“ بھی اپنے ہمراه بہت ساری مفید معلومات لئے ہوئے ہے۔

اسی طرح "اسلامی اصول تعلیم“ مترجم و شارح مفتی رشید احمد العلوی، سید ریاست علی ندوی کی تحقیق ”اسلامی نظام تعلیم“ محمد احمد خاں کی کتاب  “اقبال اور مسئلہ تعلیم”، شبلی نعمانی کی کتاب “مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم”،  سلامت الله کی کتاب “تعلیم فلسفہ اور سماج” محمد عبدالرزاق فاروقی کی کتاب “ابو الکلام آزاد کے تعلیمی تصورات“، محمد اکرام خاں کی کتاب مفکرین تعلیم، ڈاکٹر محمد امین کی کتاب “ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل، چند نظریاتی مباحث”،  ڈاکٹر عنایت الله،  ڈاکٹر روبینہ سہگل اور ڈاکٹر پرویز کی مشترکہ تصنیف “پاکستان میں سماجی علوم” ابوالاعلیْ مودودی کی کتاب “نیا نظام تعلیم” یا پروفیسر بختیار حسین صدیقی کی کتاب "برّ صغیر پاک و ہند کے قدیم عربی مدارس کا نظام تعلیم" کو ہی لیجئے،  یہ سب ماہرینِ تعلیم کیلئے بطورِ مقدمہ کام آنے والی کتابیں ہیں۔

 اس طرح کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ان کتابوں کی خوبی اور حُسن یہ ہے کہ ان میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دینِ اسلام کا ابتدا سے ہی تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا تعلق ہے۔ ان کے محتویٰ میں پہلی وحی، ایک صحابی حضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ  کے گھر “دار ارقم” سے اور  ہجرت کے بعد مدینہ منوره میں مسجد نبوی کے چبوترے (صفہ) سے لے کر مختلف  ملوک و سلاطین کے عہد میں بنائی گئی مساجد اور مدارس کا ذکر  ملتا ہے، تاہم ان کتابوں میں کمی یہ ہے کہ ان میں نظامِ تعلیم کو ایک مُلک گیر تعلیمی نظام کے طور پر زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔

زیاده تر طالب علموں اور اساتذه کیلئے اخلاقی مباحث،  اسلام کے فلسفہ تعلیم، اسلامی تعلیم کی تاریخ، مسلمان بادشاہوں کی ذاتی لائبریریوں، شاہی کتابخانوں اور بادشاہوں طرف سے مساجد و مدارس کی عمارتوں کے بنوانے یا کسی مدرسے کو کبھی کوئی گرانٹ دینے، بادشاہوں یا اُن کے درباری علماء کی لکھی گئی کتابوں، کسی عالم کو خلعتِ شاہی عطا کرنے اور مدارس کے تدریسی طریقہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسی کتابوں میں انہی مذکوره بالا باتوں کو برّصغیر پاک و ہند کے نظام تعلیم کیلئے مشعلِ راه قرار دے کر اپنی طرف سے فریضہ ادا کر دیا گیا ہے۔ ایسی کتابیں دینی و نظریاتی حوالے سے اسلامی معاشرے کیلئے مفید تو ہیں، لیکن تخصّصی نہیں ہیں۔ یعنی ان کتابوں کی بنیاد پر ہم کوئی نظامِ تعلیم تشکیل نہیں دے سکتے، چونکہ ایسی کتابیں نظامِ تعلیم کے موضوع سے ہی کوسوں دور ہیں۔

2۔ نظامِ تعلیم پر ناظر اور تخصصی کتابیں
تعلیمی نظریات کی حامل کتابوں سے ہماری مراد ایسی کتابیں ہیں، جو پاکستان کے نظامی تعلیم کو بطورِ نظامِ تعلیم زیرِ بحث لاتی ہیں اور اس کے مثبت و منفی پہلووں کا جائزه ان میں ملتا ہے۔ ایسی کتابوں کی کمی ضرور ہے لیکن مارکیٹ میں نایاب نہیں ہیں۔ مختلف ماہرینِ تعلیم نے بطریقِ احسن یہ ذمہ داری نبھائی ہے۔ ایسی کتابوں میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب “Education Policies in Pakistan “، ڈاکٹر محمد امین کی کتاب تعلیمی ادارے اور کردار سازی، اسی طرح ڈاکٹر شاہد صدیقی کی ایک اور  کتاب "پاکستان، تعلیم اور اکیسویں صدی''،  ڈاکٹر ڈاکٹر طارق رحمان کی کتاب Denizen of Alien Worlds: A Study of Education, Inequality and Polarisation in Pakistan۔ ایس ایچ ہاشمی صاحب کی کتاب "پاکستان میں سماجی علوم کی صورت حال" (The State of Social Sciences in Pakistan)۔ آر اے فاروق کی کتاب  “Education System in Pakistan” اور آصف اقبال خان کی کتاب “Education, Concept and Process” کے علاوه تین مصنفین ڈاکٹر شمائلہ امیر، ڈاکٹر نوشابہ شرف اور پروفیسر رضوان علی خان کی مشترکہ کاوش Pakistan’s Education System: An Analysis of Education Policies and Drawbacks بھی اس موضوع پر انتهائی اہم کتاب ہے۔

جون 2014ء میں اس موضوع پر Institute of Advanced Engineering and Science Online نے پانچ محققین کا مشترکہ مقالہ International Journal of Evaluation and Research in Education (IJERE) بعنوانCritical Analysis of the Problems of  Education in Pakistan:Possible Solutions چھاپا۔ اس مقالے میں ماہرانہ انداز میں پاکستان کے نظامِ تعلیم میں موجود خامیوں کو تلاش کرکے انتہائی قیمتی تجاویز دی گئی ہیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اس حوالے سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ اس کے دانشور، اس کے نظامِ تعلیم میں بہتری کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔ ان کی یه کوششیں مختلف اخبارات و جرائد میں تعلیم و تربیت سے منسوب چھپنے والے مقالات سے عیاں ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسے ہزاروں کالمز، مقالہ جات اور کتابیں چھپ چکی ہیں اور آئے روز چھپتی رہتی ہیں کہ جن میں صاحبانِ علم و دانش پاکستان کے نظامِ تعلیم کے مختلف پہلووں کا بہترین انداز میں جائزه لے کر  اپنی تجاویز و آراء کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ نظام تعلیم کے حوالے سے تجاویز و آراء کو تشکیل دینا ایک الگ کام ہے جبکہ ان تجاویز کی روشنی میں کوئی منصوبہ بنا کر نافذ کرنا، یہ ایک الگ کام اور صاحبان اقتدار و اختیار کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ نظام تعلیم کے حوالے سے ارباب اقتدار و اختیار کی سرد مہری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صاحبان علم و دانش نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا۔


خبر کا کوڈ: 1167924

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1167924/نظام-تعلیم-کے-حوالے-سے-پاکستان-میں-انجام-پانے-والے-علمی-کام-پر-ایک-نظر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com