QR CodeQR Code

پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم کی پیچیدگیاں(1)

18 Oct 2024 11:30

اسلام ٹائمز: برصغیر پاک و ہند میں لارڈ میکالے نے 1830ء میں ایک ایسا اسکول سسٹم متعارف کرایا، جو بنیادی طور پر صرف ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز سرکار کے لئے مقامی نوکر اور دیسی تابعدار پیدا کرنے کے لئے تھا۔ انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو صرف اپنے نظم و نسق اور عیسائیت کی تبلیغ سے غرض تھی۔ ظاہر ہے کہ فارسی، سنسکرت اور عربی زبان میں ایسے افراد اور ایسے آلہ کار تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے لئے انگریزی زبان کا سہارا لیا گیا۔ لارڈ میکالے کا یہ نظامِ تعلیم فقط ہندوستانیوں کے لئے تھا جبکہ خود انگلستانی بچوں کے لئے ایک جُدا نظامِ تعلیم تھا۔ ہمارے ہاں تقسیمِ ہند کے بعد آج تک یهی لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم من و عن رائج رہا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ہمارے ہاں تعلیم کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن ساری ریاست کیلئے ایک ہی نظامِ تعلیم کی بات لارڈ میکالے سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ تقسیم برِّصغیر کے بعد بھی پاکستان میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم ہی نافذالعمل ہے۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد کئی تعلیمی کانفرنسز منعقد ہوئیں اور ابھی پورے ملک کیلئے ایک یکساں قومی نصاب کا بھی اجرا کیا گیا ہے، تاہم اس یکساں قومی نصاب کو اس کے تاریخچے اور نظریات سمیت قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر ہم نے پاکستان کے نظامِ تعلیم کو دو حصوّں میں تقسیم کیا ہے۔
الف۔ قیام پاکستان سے پہلے کا نظامِ تعلیم
ب۔ قیام پاکستان کے بعد کا نظامِ تعلیم

الف۔ قیامِ پاکستان سے پہلے کا نظامِ تعلیم
تعلیم اور نظامِ تعلیم دو الگ موضوع ہیں۔ ہندوستان شروع سے ہی مختلف ادیان کا مرکز رہا ہے اور اسی لئے ہندوستان کی تاریخ میں تعلیم سے مراد صرف دینی تعلیم اور اس کے ہمراه چند فنون کی ہی لی جاتی رہی۔ موہن جودوڑو اور ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ بھی یهی بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں دینی مدارس کے اندر ہی طبّ، منطق،  فلسفہ، گرائمر ادب، آرٹس اور دستکاری کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے  ہندوستان پر کئی سو سال حکومت کی۔ اُن کے پاس بھی عوام (مسلم و غیر مسلم) کو تعلیم دینے کیلئے کوئی منضبط و منسجم تعلیمی منصوبہ نہیں تھا۔ صرف مغل بادشاہوں کا دورِ اقتدار تین سو سال پر محیط ہے۔ مغل سلطنت کی بنیاد ۱۵۲۶ء میں بابر نے رکھی، اس سلطنت کے ستره بادشاہوں میں سے جلال الدین محمد اکبر نے پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی۔

مغلوں سے پہلے تیموری بادشاه، سلطنت دہلی کے بادشاه، خاندان سوری کے بادشاه، عادل شاہی سلطنت کے بادشاه اور دکنی بادشاہتوں کی بات کی جائے تو سالہا سال مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ اُن کے زمانے میں بھی لوگوں کا اپنا اپنا تعلیم و تربیت کا سلسلہ تھا اور یہ ایسی تعلیم تھی کہ جو انسان کی روزمرّه مادی و معنوی ضرورت کو تو پورا کرتی تھی لیکن کسی ایسے "نظامِ تعلیم" کا سراغ  نہیں ملتا کہ جو عام  ہندوستانیوں کو مستقبل کیلئے تیار کرنے کیلئے مدوّن کیا گیا ہو۔ حتی کہ اس سے پہلے جب دینِ اسلام برّصغیر میں داخل ہوا تو تب بھی تعلیم کی روش قدیمی ہی رہی۔ ہندوستان میں تعلیم کے جو پانچ طریقے عوام میں مرسوم تھے، وه عوامی جدوجہد اور کوششوں سے جاری تھے۔ مسلمان بادشاہوں کے  ہندوستان میں آثار تلوار و فتوحات، عیش و عشرت، بلند و بالا عمارتوں، شکم و شہوت، عشرت کدوں اور موج مستی کی صورت میں تو ملتے ہیں، لیکن نظامِ تعلیم کی شکل میں نہیں۔ ان سب نے مختلف شکلوں میں ہندوستان کے اندر اپنی اپنی بڑائی اور طاقت کا لوہا تو منوایا لیکن رعایا کے بچوں کے لئے کوئی نظامِ تعلیم وضع نہیں کیا۔

بادشا اپنا نظامِ حکومت چلانے کی حد تک تو علماء کی سرپرستی کرتے تھے، لیکن اس سے زیاده نہیں، اس مقصد کیلئے انهوں نے کچھ مدارس کی بنیاد بھی رکھی۔  بادشاہوں کی طرف سے کچھ علماء کی سرپرستی یا بعض دینی مدارس کی بنیاد کسی نظام تعلیم کے تحت نہ تھی بلکہ بادشاہوں کی خاص ضروریات اور سیاسی پالیسیوں کے باعث ایسے کام وقتاً فوقتاً انجام پاتے رہتے تھے۔ اسی طرح بعض نے  کسی تاریخی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ظہیر الدین بابر اور اکبر کے زمانے میں ہندوستان کے بچوں کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری تھی۔ ایسا لکھنے والے یا تو نظامِ تعلیم کو نہیں سمجھتے اور یا پھر مسلمان ہونے کے ناتے، مسلمان بادشاہوں کے سر نظامِ تعلیم کا سہرا باندھنا چاہتے ہیں۔

مندرجہ ذیل پانچوں طریقے کسی ملکی نظام تعلیم کے بجائے عوام کی امدادِ باہمی کی بدولت فعال تھے۔
۱۔ اتالیق ۲۔ مکتب ۳۔ مدرسه ۴۔ گورومکھی اسکول ۵۔ پاٹھ شالہ  
ہمارے ہاں عام طور پر جب بھی نظام تعلیم کی بات ہوتی ہے تو ماضی کے ان طریقوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ لہذا آئیے تعلیم و تربیت کے ان پانچوں طریقوں پر ایک ضروری حد تک نگاه ڈالتے ہیں، تاکہ بطریقِ احسن ماضی کے نظام تعلیم کا جائزه لیا جاسکے۔ 
اتالیق:
 عام طور پر ہندوستان میں صاحبِ ثروت اور صاحبِ حیثیت لوگ اپنے بچوں کے لئے کچھ اُجرت مقرر کرکے اتالیق یا اساتذه رکھتے تھے۔ صد ہا سال یہ اتالیق زیاده تر بڑے لوگوں کے گھروں میں جا کر اُن کے بچوں کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا، بنیادی صرف و نحو اور حسبِ لیاقت فنون سکھاتے رہے۔ اتالیق کے فرائض میں آداب و اخلاق، شعر و شاعری، بنیادی گنتی، لکھائی پڑھائی، آسان حساب اور رسوم و رواج جیسی چیزیں شامل ہوتی تھیں۔ اسے ہمارے آج کل کے دور میں Tutor کہا جاتا ہے۔

مکتب:
 اکثر لوگ اتالیق کا بندوبست نہیں کرسکتے تھے، لہذا اُن کے بچے اگر تعلیم حاصل کرنا چاہتے تو وه امدادِ باہمی سے چنده کرکے ایک چھوٹی سی جگہ پر بچوں کو پڑھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ اس جگہ کو مکتب کہا جاتا تھا۔ مکتب کے معلم کے فرائض وہی اتالیق والے ہی ہوتے تھے۔ مکتب میں داخلے کیلئے کسی مذہب یا دین کی پابندی نہیں ہوتی تھی۔

مدرسہ:
مکتب کے بعد طالب علم دور دراز کے مدارس یا خانقاہوں کا رُخ کرنے پر مجبور تھے۔ مکاتب کی مانند خانقاہوں اور مدارس میں بھی مذہبی منافرت کا رُجحان نہیں ہوتا تھا۔  اُس زمانے میں مدارس کے اندر عربی، فارسی اور سنسکرت جیسی زبانیں بنیادی طور پر دینی تعلیم کا ذریعہ تھیں جبکہ مقامی طور پر طلبائے کرام حسبِ ضرورت ہنر و فنون بھی سیکھ لیتے تھے۔ دینی تعلیم چاہے اسلام کی ہو یا ہندومت یا دیگر ادیان کی، اس کے ساتھ طب، نجوم، فلسفہ، اخلاق، تاریخ، جغرافیہ اور اس جیسے دیگر علوم حاصل کرنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی۔ یوں ماضی میں جو شخص عالم ہوتا تھا، وه بیک وقت کئی علوم و فنون میں مهارت رکھتا تھا۔ مغلوں کے آخری عہد میں ہندووں اور مسلمانوں کیلئے الگ الگ مدارس کا پتہ بھی چلتا ہے۔ ان مدارس کے اخراجات کا  انتظام عوام کے کاندھوں پر تھا۔ مدارس کا  عملہ لوگوں کے گھروں سے کھانا اور اناج جمع کیا کرتا تھا۔ چند انگشت شمار مدارس کے لئے اوقاف کے سلسلے کا عندیہ بھی تاریخ میں موجود ہے۔ اس کے علاوه اکبر نے یہ قانون بنایا تھا کہ جو آدمی لاولد فوت ہو جائے اُس کی جائیداد سرکاری ضبط میں لے کر کسی مدرسے کو دے دی جائے۔ یوں دینی مدارس کا نظام چلتا رہا، جو آج بھی برِّصغیر پاک و ہند میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ باقی ہے۔

گورومکھی اسکول:
یہ سکھوں کے سکول تھے، جن میں گورومکھی زبان ذریعہ تعلیم تھی۔ یه بھی بنیادی طور پر مذہبی تعلیم تک محدود تھے اور ساتھ میں کچھ روزمرّه کے ہنر بھی طلباء کو سکھائے جاتے تھے۔ یہاں اُستاد کو  گورو کہتے تھے۔
پاٹھ شالہ:
یه ہندووں کے تعلیمی مراکز تھے، جن میں سنسکرت ذریعہ تعلیم تھی۔ ہندووں کی مذہبی تعلیم یهی پڑھائی جاتی تھی اور مذہبی تعلیم کے ہمراه دیسی فنون و ہنر بھی یہاں سکھائے جاتے تھے۔

یہ پانچوں تعلیمی مراکز اپنی مدد آپ کے تحت ہندوستان میں چلتے رہے اور ان کا زمانے کی تبدیلیوں اور جدید علوم سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا تھا۔ بعض مراکز میں کسی حد تک علم نجوم، ریاضی، منطق وغیره کی آشنائی دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہان تک کہ لارڈ میکالے نے ہندوستان میں قدم رکھا۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں لارڈ میکالے وه پہلا شخص ہے کہ جس نے اس خطے کیلئے  پہلی مرتبہ ایک نظام تعلیم کی بات بھی کی اور ایک مجوزه نظام تعلیم پیش بھی کیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم لارڈ میکالے کی فکر اور مجوزہ نظام تعلیم پر ایک نظر ڈالیں۔

لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم
لارڈ میکالے کی برّصغیر میں آمد کے ساتھ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ملکی سطح کا کوئی نظامِ تعلیم وضع ہوا۔ جب ۱۸۳۰ء  میں لارڈ میکالے (Lord Thomas Babington Macaulay (1800-1859)) ہندوستان آیا تو ہندوستان میں مقامی لوگوں کی خاطر  حکومت کی طرف سے کوئی مُلک گیر سرکاری نظامِ تعلیم تھا ہی نہیں۔ اگر کچھ لوگ اپنے طور پر کوشش اور جدوجہد کرکے کسی علمی مقام یا منصب تک پہنچتے بھی تھے تو انہیں بھی یہ ڈکٹیٹر اور آمر بادشاه مذہبی مناظروں اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھا کر رکھتے تھے۔ لوگ مذہبی مناظروں میں ڈھول بجاتے، دھمال ڈالتے، علماء کی فرقہ وارانہ لڑائیوں اور بادشاہوں کی جارحانہ مهمات میں اپنی جانیں گنواتے اور بادشاہ حضرات رنگ رلیاں مناتے۔ ۱۸۳۳ء میں لارڈ میکالے کو ہندوستان بھیجا گیا۔ اس وقت ان کی حیثیت گورنر جنرل کی کونسل کے رکن کی تھی۔  لارڈ میکالے نے ہندوستان کے مروّجه نظامِ تعلیم کا جائزه لینے کے بعد جو رپورٹ پیش کی، اسے لارڈ میکالے کی رپورٹ کہا جاتا ہے۔ دس سال کے بعد ۱۸۴۴ء میں لارڈ ہارونگ کے حکم کے مطابق لارڈ میکالے کی تجویز کو نافذ کرتے ہوئے سرکاری ملازمت کیلئے انگلش کو لازمی اور دفتری زبان بھی قرار دیا گیا۔

جب سرکاری ملازمت کو انگلش زبان کے ساتھ مشروط کر دیا گیا تو اس سے سنسکرت اور عربی و فارسی زبان کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا۔ تاہم انگریزی زبان کی مخالفت اور انگلش سے نفرت پر تو مقامی رہنماوں نے بہت کام کیا، لیکن وه انگلش کی یلغار روکنے کیلئے کوئی متقابل لائحہ عمل تیار نہ کرسکے۔ ہندووں کو ویسے بھی ہندوستان میں عددی اکثریت حاصل تھی، لہذا ان کی ایک بڑی تعداد نے انگلش زبان سیکھنے میں پہل کی اور سرکاری اداروں کی پوسٹوں پر قابض ہوگئے۔ انگلش سیکھنے میں مسلمان سُست رفتار ضرور تھے، لیکن بہرحال وه بھی انگلش سیکھنے پر مجبور تھے۔ چنانچہ انگلش زبان اپنے ہمراه انگلش معاشرے کے وه تمام ثقافتی رجحانات اور استعماری اثرات بھی لے کر آئی کہ جن کے تحتِ تاثیر ہم آج بھی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نظامِ تعلیم کے نام پر جو کچھ نظر آ رہا ہے، یہ انگریزوں اور خاص طور پر لارڈ میکالے کی باقیات میں سے ہے۔
 
یاد رہے کہ لارڈ میکالے سے پپلے بھی انگریزوں نے ہندوستان میں کچھ تعلیمی مراکز بنا رکھے تھے، لیکن وه کسی نظام تعلیم کی سوچ کے تحت نہ تھے۔ آج پاکستان کے مروّجه نظامِ تعلیم کو سمجھنے کیلئے میکالے کی رپورٹ ایک بنیادی منبع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس اہم رپورٹ کو سمجھے بغیر ہم پاکستان کے موجوده نظامِ تعلیم کو نہیں سمجھ سکتے، چنانچہ آئیے لارڈ میکالے کی رپورٹ کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کرتے ہیں: “ہم سب معترف ہیں کہ ہندوستان کے مقامی لوگ عام طور پر وه علاقائی زبانیں استعمال کرتے ہیں، جو ادبی اور سائنسی معلومات سے خالی ہیں۔ اس کے علاوه ان زبانوں کا ذخیره الفاظ  اور ان میں مستعمل اس قدر بے وقعت اور قوت بیان کے اعتبار سے اس درجہ ضعیف ہیں کہ انہیں کسی ترقی یافتہ زبان سے توانا بنائے بغیر  ان میں کسی بڑے علمی شہکار کا ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔”

اسی رپورٹ میں لارڈ میکالے نے سنسکرت اور عربی زبان میں پڑھائے جانے والے علوم کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے: “سوچئے کہ جب ہم ٹھوس افکار و فلسفے اور ناقابل تردید تاریخ کی تعلیم دے سکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری بجٹ پر ان طبی قوانین کی تدریس کا ذمہ لیں۔ جہنیں پڑھانے میں کوئی انگریز جانوروں کا معالج بھی سُبکی محسوس کرے؟” کیا ایسا علم فلکیات پڑھایا جائے گا، جس کا انگریزی ہاسٹلز کی ننھی مُنھی بچیاں بھی مذاق اُڑائیں؟ کیا ہم سرکاری خرچ پر ایسی تاریخ پڑھائیں گے، جس میں تیس تیس فٹ کے قد و کاٹھ والے بادشاہوں کے فرضی قصے ہوں گے،  جنهوں نے تیس تیس ہزار سال تک حکمرانی کی ہوگی؟ اور ایسے جغرافیے کی تدریس کی جائے گی، جس میں پودوں اور درختوں کی لیس اور رس نیز مکھن کے سمندروں کی بے سروپا داستانیں ہوں گی۔؟”

چنانچہ لارڈ میکالے نے انگلش زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر مدلل گفتگو کی اور بھرپور زور دیا۔ اپنے استدلال کے دوران لارڈ میکالے نے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اُسے دراصل ہندوستان میں کسی قسم کے علمی انقلاب یا سائنسی پیشرفت سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ وه ہر حال میں ملکی نظم و نسق چلانے کیلئے ایک  مقامی طبقہ پیدا کرنا چاه رہا تھا۔ جیسا کہ اس نے لکھا ہے کہ "اس وقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں، جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں، ترجمانی کا فریضه سرانجام دے۔" اسی رپورٹ کے مطابق "یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہوگا، جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز ہوں گے۔ پھر اس طبقے کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وه ملکی دیسی زبانوں کی اصلاح کرے، مغربی ممالک میں مروجہ سائنسی اصطلاحات میں اضافہ کرے اور پھر بتدریج انہیں اس قابل بنا دے کہ وه ملک کی عظیم آبادی پر علوم و فنون کے خزانوں کے دروازے کھول دیں۔”

چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں لارڈ میکالے نے 1830ء میں ایک ایسا اسکول سسٹم متعارف کرایا، جو بنیادی طور پر صرف ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز سرکار کے لئے مقامی نوکر اور دیسی تابعدار پیدا کرنے کے لئے تھا۔ انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو صرف اپنے نظم و نسق اور عیسائیت کی تبلیغ سے غرض تھی۔ ظاہر ہے کہ فارسی، سنسکرت اور عربی زبان میں ایسے افراد اور ایسے آلہ کار تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے لئے انگریزی زبان کا سہارا لیا گیا۔ لارڈ میکالے کا یہ نظامِ تعلیم فقط ہندوستانیوں کے لئے تھا جبکہ خود انگلستانی بچوں کے لئے ایک جُدا نظامِ تعلیم تھا۔ ہمارے ہاں تقسیمِ ہند کے بعد آج تک یهی لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم من و عن رائج رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 1167140

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1167140/پاکستان-میں-یکساں-نصاب-تعلیم-کی-پیچیدگیاں-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com