غاصب صہیونی رژیم کی ناکام حکمت عملیاں
16 Oct 2024 16:54
اسلام ٹائمز: ابتدا سے ہی صہیونی رژیم نے مسلمان عوام کو اسلامی مزاحمتی گروہوں سے متنفر کر کے ان کے خلاف اکسانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کیلئے صہیونی رژیم غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام کرتی ہے، ان کے گھر مسمار کرتی ہے اور انہیں بھوک کا شکار کرتی ہے تاکہ وہ حماس کے خلاف ہو جائیں اور ان تمام مشکلات کا سبب حماس کو قرار دیں۔ بالکل ایسی ہی حکمت عملی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اپنائی گئی ہے۔ لیکن فلسطین اور لبنان کی غیور قوموں نے دشمن کی اس حکمت عملی کو بھی ناکام بنا دیا ہے اور پوری طاقت سے مجاہدین کا ساتھ دینے میں مصروف ہیں۔
تحریر: اصغر زبرجدی
طوفان الاقصی آپریشن کی سالگرہ کو چند دن گزر چکے ہیں۔ کچھ حلقے اس بات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران کون ہارا اور کون جیتا؟ بعض تجزیہ کار وقتی حربوں کو جیت یا ہار کا معیار بنا رہے ہیں، جیسے لبنان میں پجر دھماکے یا حزب اللہ لبنان کی اعلی سطحی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ یا بعض اہم مراکز پر حملے وغیرہ، اور یوں یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب تک اسرائیل اس جنگ میں فتح سے ہمکنار ہو چکا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں فتح یا شکست کا معیار وقتی اقدامات یا حربے نہیں ہوتے بلکہ اسٹریٹیجیز یا حکمت عملیاں ہوتی ہیں۔ تحریر حاضر میں ہم نے ان چند حکمت عملیوں کا جائزہ لیا ہے جو اسرائیل نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ جنگ اور لبنان کے خلاف بروئے کار لائی ہیں اور بظاہر اسے ان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ میں فتح اسلامی مزاحمت کو ہوئی ہے۔
پہلی حکمت عملی: فتح کا ڈرامہ کرنا
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میڈیا کی دنیا ہے اور ذرائع ابلاغ سے جو تصویر پیش کی جاتی ہے اکثر لوگ اسے ہی ذہن میں بٹھا لیتے ہیں۔ لہذا ان کی نظر میں کسی بھی جنگ میں فتح اس فریق کی ہو گی جو عالمی سطح پر میڈیا میں زیادہ اثرورسوخ کا حامل ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی مرضی کی تصویر دنیا والوں پر مسلط کر سکتی ہے۔ حق اور باطل اہم نہیں ہے بلکہ عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہونا اہم ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز میں غاصب صہیونی رژیم نے مغربی میڈیا مافیا کی مدد سے کچھ عرصے تک کامیابی سے مظلوم نمائی کی اور یہ تاثر دینے میں کچھ حد تک کامیاب رہا وہ حق پر ہے اور اس پر ظلم و ستم ہو رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے مظلوم فلسطینیوں پر صہیونی رژیم کے انسانیت سوز مظالم کی شدت بڑھنا شروع ہوئی تو اس کی یہ حکمت عملی شکست کھا گئی اور نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ امریکہ سمیت اکثر مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف شدید عوامی احتجاج شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔
دوسری حکمت عملی: مزاحمتی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ
اگرچہ مسلح گروہوں اور مخالف نیٹ ورکس کے مرکزی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ بہت حد تک انہیں کمزور کر دیتی ہے لیکن اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف یہ اقدام بہت بڑی غلطی ہے۔ اسلامی مزاحمت کی بنیاد روحانی جذبے پر ہے اور وہ قومی اور بین الاقوامی اقدار پر استوار ہے جبکہ گذشتہ چند سالوں میں انتہائی منظم بھی ہو چکی ہے۔ اس کی واضح ترین مثال غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس ہے۔ اگرچہ صہیونی رژیم بڑی تعداد میں حماس کے رہنماوں کو شہید کر چکی ہے لیکن وہ اب بھی غزہ میں اس کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے اور اس پر کاری ضربیں لگانے میں مصروف ہے۔ اس کی دوسری مثال حزب اللہ لبنان ہے جو اپنے اہم اور مرکزی رہنماوں کی شہادت کے بعد بھی بدستور شدید مزاحمت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا اسرائیل کی یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو چکی ہے۔
تیسری حکمت عملی: مقبوضہ فلسطین کے اردگرد نو گو ایریا بنانا
ایک غاصب قوت کی جانب سے مزاحمتی طاقتوں سے بچنے کیلئے اپنے اردگرد حصار قائم کرنا انتہائی بے سود اور احمقانہ اقدام ہے۔ اسرائیل کی یہ حکمت عملی نہ تو غزہ میں حماس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی لبنان میں حزب اللہ لبنان کا مقابلہ کرنے میں سودمند ثابت ہوئی ہے۔
چوتھی حکمت عملی: خطے اور دنیا میں بحران پیدا کرنا
غاصب صہیونی رژیم ایک فسادی رژیم ہے جو اپنے مذموم مقاصد کیلئے پورے خطے اور دنیا کو بحران کی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کرتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک حربہ ہے نہ حکمت عملی اور دوسرا یہ کہ ممکن ہے ابتدا میں کچھ ممالک اپنا دامن بچانے کیلئے صہیونی رژیم کو بھتہ دینے پر تیار ہو جائیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بھتہ خور رژیم کا خاتمہ ہی بہترین راہ حل ہے۔
پانچویں حکمت عملی: عوام کو اسلامی مزاحمت کے خلاف اکسانا
ابتدا سے ہی صہیونی رژیم نے مسلمان عوام کو اسلامی مزاحمتی گروہوں سے متنفر کر کے ان کے خلاف اکسانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کیلئے صہیونی رژیم غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام کرتی ہے، ان کے گھر مسمار کرتی ہے اور انہیں بھوک کا شکار کرتی ہے تاکہ وہ حماس کے خلاف ہو جائیں اور ان تمام مشکلات کا سبب حماس کو قرار دیں۔ بالکل ایسی ہی حکمت عملی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اپنائی گئی ہے۔ لیکن فلسطین اور لبنان کی غیور قوموں نے دشمن کی اس حکمت عملی کو بھی ناکام بنا دیا ہے اور پوری طاقت سے مجاہدین کا ساتھ دینے میں مصروف ہیں۔
چھٹی حکمت عملی: جنگ کا دائرہ وسیع کرنا
غاصب صہیونی رژیم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) سے عاری ہے جبکہ اسلامی مزاحمت کی تزویراتی گہرائی کا دائرہ فلسطین سے لبنان تک اور شام، عراق اور ایران سے یمن تک پھیلا ہوا ہے۔ لہذا صہیونی دشمن فضائی حملوں کے ذریعے جنگ کا دائرہ اس قدر پھیلا دینا چاہتا ہے کہ دیگر مغربی طاقتیں جیسے امریکہ اور برطانیہ کو بھی اس جنگ میں شریک ہونے کا بہانہ مل سکے۔ لیکن اسلامی مزاحمتی بلاک کی ہوشیاری نے اس کی یہ حکمت عملی بھی ناکام بنا دی ہے۔
ساتویں حکمت عملی: تاریخی کہانیوں اور خرافات کا سہارا
بعض صہیونی تجزیہ کار، اور حتی بعض صہیونی حکام جنگ میں اپنی برتری ظاہر کرنے کیلئے جعلی تاریخی روایات اور خرافات کا سہارا لینے میں مصروف ہیں اور یوں وہ اپنے فوجیوں کے حوصلے بلند رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی بہت سی تاریخی روایات بھی پائی جاتی ہیں جن میں صہیونیوں کی حتمی شکست اور نابودی کی خبر دی گئی ہے۔ لہذا صہیونی رژیم کی حکمت عملیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز اس جعلی رژیم کی نابودی کا باعث بنے گی وہ دراصل انہی غلط حکمت عملیوں کو بروئے کار لانا ہے۔ وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام اور مرکزی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے عارضی حربے ممکن ہے وقتی طور پر یہ تاثر دیں کہ ایک فریق جنگ میں غالب آ چکا ہے لیکن جو چیز اصل میں جنگ میں فتح یاب ہونے کا باعث بنتی ہے وہ درست حکمت عملی کا انتخاب ہوتا ہے۔ لہذا یہ غلط حکمت عملیاں آخرکار صہیونی رژیم کو ہمیشہ کیلئے نابود کر ڈالیں گی۔
خبر کا کوڈ: 1166815