ایران اور اسلامی مزاحمت کا دفاعی معاہدہ
12 Oct 2024 20:16
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ نے 1916ء میں سایکس پیکو منصوبے نیز 1917ء میں بالفور اعلامیے جیسے ناگوار حادثات اور ان کے نتیجے میں خطے میں نئی جیوپولیٹیکل تبدیلیاں رونما ہونے سے بچنے کیلئے ایک معقول منصوبہ تیار کیا ہے۔ اگرچہ یہ کام کئی سال پہلے ہونا چاہئے تھا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی اور اگر یہ منصوبہ ایران کی پارلیمنٹ میں منظور ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسا نیا اتحاد تشکیل پانے کا زمینہ فراہم ہو جائے گا جو خطے میں امریکی برطانوی صہیونی شیطانی مثلث کا مقابلہ کرنے میں موثر ثابت ہو گا۔ ایران کی پارلیمنٹ میں اس منصوبے کی منظوری خطے کی ان عرب حکومتوں کیلئے بڑی آزمائش ہو گی جن کی غفلت کے باعث مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں پر غاصب صہیونیوں کا ناجائز قبضہ ہوا ہے۔ اگرچہ بعض طاقتیں اس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گی لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ صہیونی جارحیت کے خلاف مسلمان اقوام کی جدوجہد قانونی حیثیت اختیار کر جائے گی۔
تحریر: حسن ہانی زادہ
حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد اسلامی مزاحمت کے حامی ممالک کے درمیان سکیورٹی دفاعی معاہدے کا انعقاد ہے۔ اگر یہ منصوبہ منظور کر لیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں خطے میں ایک اور سکیورٹی دفاعی اتحاد ابھر کر سامنے آئے گا جس کا مقصد امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی محاذ کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ کی جانب سے 7 اکتوبر 2023ء کے دن غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کامیاب طوفان الاقصی آپریشن کو تقریباً ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی بھرپور حمایت، مدد اور آشیرباد سے گذشتہ ایک سال سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اب کچھ ہفتوں سے لبنان پر بھی صہیونی جارحیت کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایسے حالات میں جب خطے کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور غزہ جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے، مدمقابل امریکی برطانوی صہیونی محاذ کا مقابلہ کرنے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا کردار بھی ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ امریکی برطانوی صہیونی محاذ ایک طرف غزہ اور لبنان میں انسانیت سوز جرائم انجام دے رہا ہے جس کے نتیجے میں غزہ میں 42 ہزار سے زیادہ بچے، خواتین اور نہتے شہری شہید ہو چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر طاقتوں کی جانب سے جنگ بندی کی تمام کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نہ صرف غاصب صہیونی رژیم کو بھرپور فوجی، لاجسٹک، مالی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کر رہے ہیں بلکہ یمن پر فضائی بمباری کے ذریعے دنیا والوں پر اپنے فسادی ہونے کو ثابت کر رہے ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم کی غزہ پر فوجی جارحیت کے بعد اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا جن میں سے ایک انصاراللہ یمن ہے۔
انصاراللہ یمن نے اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہونے کے ناطے غزہ پر صہیونی جارحیت کے فوراً بعد ہی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اسے اپنی مزاحمتی کاروائیوں کا نشانہ بناتا رہا۔ انصاراللہ یمن اپنے پاس موجود مقامی وسائل کے بل بوتے پر مزاحمتی کاروائیاں انجام دے رہا ہے جن کا مقصد مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیل کا فوجی دباو کم کرنا ہے۔ انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں کا بڑا حصہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی کشتیوں کی آمدورفت بند کرنے کیلئے انجام پا رہا ہے جو بہت حد تک کامیاب رہی ہیں اور اسرائیل پر اقتصادی دباو کا باعث بنی ہیں۔ انصاراللہ یمن کی ان کاروائیوں کے نتیجے میں غاصب صہیونی رژیم کی ایلات بندرگاہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور وہاں تقریباً تمام سرگرمیاں بند ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے بھی 8 اکتوبر 2023ء سے ہی مقبوضہ فلسطین کے شمال میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر صہیونی فوج کا بڑا حصہ اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے بارہا اعلان کیا ہے کہ شمالی محاذ پر صہیونی فوج کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی۔ حتی سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد بھی حزب اللہ لبنان اپنے اس ہدف سے پیچھے نہیں ہٹی اور گذشتہ چند ہفتوں سے لبنان پر صہیونی رژیم کی فوجی جارحیت کے باوجود پوری استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور خطے کی چند دیگر حکومتوں کی حمایت نے صہیونی رژیم کو اتنا جری کر دیا کہ اس نے ایران کے سرکاری مہمان، حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ٹارگٹ کلنگ کر دی۔ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کی رو سے ایران کو جوابی کاروائی کا پورا حق حاصل تھا اور ایران نے وعدہ صادق 2 آپریشن انجام دیا۔
امریکہ اور برطانیہ، نام نہاد ابراہیم امن معاہدے کو خطے کی اقوام پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد خطے کے تشخص اور نقشے کو اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کے حق میں تبدیل کرنا ہے۔ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطی خطے کیلئے نئے سائکس پیکو منصوبے پر عملدرآمد کی کوششیں جاری ہیں، لہذا خطے کے تمام ممالک کو اس بارے میں ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ امریکہ اور برطانیہ ہر قیمت پر اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں اسرائیل کو فتح یاب کرنے کے درپے ہیں، چاہے یہ قیمت فلسطین، لبنان اور یمن میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کے قتل عام کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی محاذ نے امریکی برطانوی صہیونی شیطانی محاذ کے عزائم خاک میں ملانے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ خطے کی حکومتیں اور اقوام درپیش خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے آپس میں متحد ہو جائیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ نے 1916ء میں سایکس پیکو منصوبے نیز 1917ء میں بالفور اعلامیے جیسے ناگوار حادثات اور ان کے نتیجے میں خطے میں نئی جیوپولیٹیکل تبدیلیاں رونما ہونے سے بچنے کیلئے ایک معقول منصوبہ تیار کیا ہے۔ اگرچہ یہ کام کئی سال پہلے ہونا چاہئے تھا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی اور اگر یہ منصوبہ ایران کی پارلیمنٹ میں منظور ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسا نیا اتحاد تشکیل پانے کا زمینہ فراہم ہو جائے گا جو خطے میں امریکی برطانوی صہیونی شیطانی مثلث کا مقابلہ کرنے میں موثر ثابت ہو گا۔ ایران کی پارلیمنٹ میں اس منصوبے کی منظوری خطے کی ان عرب حکومتوں کیلئے بڑی آزمائش ہو گی جن کی غفلت کے باعث مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں پر غاصب صہیونیوں کا ناجائز قبضہ ہوا ہے۔ اگرچہ بعض طاقتیں اس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گی لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ صہیونی جارحیت کے خلاف مسلمان اقوام کی جدوجہد قانونی حیثیت اختیار کر جائے گی۔
خبر کا کوڈ: 1166053