QR CodeQR Code

نیل سے فرات گریٹر اسرائیل کیا ہے؟

12 Oct 2024 14:06

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونیوں کیجانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں پورے کا پورا فلسطین یعنی 100 فیصد فلسطین، 100 فیصد لبنان، 100 فیصد ہی اردن، 70 فیصد شام کے علاقہ جات، 50 فیصد عراق کے علاقہ جات، 33 فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات، 30 فیصد مصر کا علاقہ ، 50 فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشہ میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب پورا ہوتا ہے، جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ایک لکھاری اور صحافی آوی لیپکن کہتا ہے کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیل کی سرحدیں لبنان سے سعودی عرب تک ہیں۔ جس میں مکہ و مدینہ سمیت بحیرہ روم، وادی سینا اور دیگر علاقہ جات شامل ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیش پاکستان

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر سنہ1948ء میں عالمی استعماری قوتوں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی حکومتوں نے ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ یہ اسرائیل اس لئے قائم کیا گیا تھا، تاکہ مغربی ایشیائی ممالک میں عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کے لئے رکھوالی اور چوکیداری کا کام کرے۔ غاصب اسرائیل کو قائم کرنے والے صیہونیوں نے پہلے دن سے ہی فلسطین کی زمین کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ یہاں سے زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے ایشیائی ممالک کی افریقی ممالک اور یورپی ممالک کی ایشیائی اور افریقی ممالک تک رسائی کو مکمل کنٹرول میں رکھا جائے اور سیاسی و معاشی اعتبار سے دنیا پر نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل صیہونزم کے ساتھ مخلوط ہو کر جاری رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا پر تسلط اور حکومت کے اس خواب نے جہاں فلسطینی قوم کو ظلم و ستم کی چکی میں پیس کر رکھا دیا، وہاں ان کو ان کے اپنے وطن سے محروم بھی کیا گیا اور آج بھی 76 سال بیت جانے کے بعد فلسطینی قوم پر تمام ہی مغربی دنیا کی حکومتوں کی مدد سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ناپاک وجود قتل عام اور نسل کشی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں ایک سال میں پچاس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی ہے۔ لاکھوں زخمی ہیں، دسیوں ہزار اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ہی ایسے ہیں، جو ملبہ تلے دب چکے ہیں۔ دسیوں ہزار بچے اور خواتین اس نسل کشی میں موت کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ غاصب اسرائیل کے ناپاک ہاتھوں سے امریکہ اور مغربی حکومتوں کی مدد سے انجام پا رہا ہے۔

فلسطین پر غاصب صیہونی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی صیہونیوں نے جہاں اپنے سیاسی و معاشی عزائم کی بنیاد بنائی تھی، وہاں ان کے سامنے مذہبی عنصر بھی موجود تھا۔ لہذا اس لئے انہوں نے فلسطین سے مسلمان فلسطینیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینیوں کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نسل کشی کا شکار بنایا گیا۔ آج بھی موجود حالات میں جہاں مساجد اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہی ہیں، وہاں فلسطین، شام و لبنان میں عیسائی عبادت خانے یعنی چرچ بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غاصب صیہونیوں نے اپنے مذہبی جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے اپنے صیہونی آباد کاروں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ صیہونی ہی دنیا کی سب سے بہترین قوم ہیں اور اللہ کی پسندیدہ مخلوق ہیں، تاہم باقی مخلوقات کو فلسطین کی زمین پر نہ تو رہنے کا حق ہے او ر نہ زندگی کا حق ہے۔

ان کے نزدیک تمام ہی دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرنا اور ان کی نسل کشی کرنا جائز تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جو اصل یہودی مذہب کے پیروکار ہیں، ان کو بھی صیہونیوں کے ظلم و ستم کا شکار بنایا جاتا ہے۔ صیہونیوں کے من گھڑت مذہبی عقائد میں ایک عقیدہ نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدوں کا معاملہ بھی ہے۔ جس پر ہمیشہ سے ہی صیہونوں نے زور دیا ہے۔ جس وقت فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا، اس وقت بھی صیہونزم کے بانیوں نے اس بات کی تکرار کی تھی کہ فلسطین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود صرف فلسطین تک نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کو عظیم تر اسرائیل یعی انگریزی میں گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔

گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے سنہ1948ء کے بعد سے ہمیشہ صیہونیوں نے کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور آخری کوشش ان کی داعش تھی، جو شام و لبنان اور عراق میں اسلامی مزاحمتی تنظیموں کے مقابلہ میں نابود ہوگئی اور اس طرح ایک مرتبہ پھر صیہونیوں کو گریٹر اسرائیل بنانے میں ناکامی کا سامنا رہا۔ آج بھی موجودہ جنگ کا پس منظر اسی طرح ہی ہے کہ پورے فلسطین کو خالی کرنے کے بعد غاصب صیہونیوں کا اگلا ہدف لبنان و شام و عراق ہیں، تاکہ وہ اپنے من گھڑت مذہبی عقیدہ کے مطابق گریٹر اسرائیل کی تشکیل کو یقینی بنائیں، لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس جنگ میں غاصب اسرائیل بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ گریٹر اسرائیل کی حقیقت صیہونیوں کے نزدیک بت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے صیہونی فوجیوں کے لباس پر جو نقشہ موجود ہے، وہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ ہے۔ یہ نظریہ ہمیشہ سے صیہونیوں کے بانیوں کی طرف سے چلا آرہا ہے۔

آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے اور اس کی سرحدوں کا تعین کہاں تک کیا گیا ہے۔؟ غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں پورے کا پورا فلسطین یعنی 100 فیصد فلسطین، 100 فیصد لبنان، 100 فیصد ہی اردن، 70 فیصد شام کے علاقہ جات، 50 فیصد عراق کے علاقہ جات، 33 فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات، 30 فیصد مصر کا علاقہ ، 50 فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشہ میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب پورا ہوتا ہے، جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ایک لکھاری اور صحافی آوی لیپکن کہتا ہے کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیل کی سرحدیں لبنان سے سعودی عرب تک ہیں۔ جس میں مکہ و مدینہ سمیت بحیرہ روم، وادی سینا اور دیگر علاقہ جات شامل ہیں۔

اب اس گریٹر اسرائیل کے لئے دیکھیئے کس طرح صیہونیوں نے استعماری حکومتوں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا، سنہ 1917ء میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فلسطین آئیں اور آباد ہو جائیں۔ فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی زمینیں ان یہودیوں کو فروخت کر دیں، لیکن 31 سال تک فلسطینیوں نے اس مسئلہ میں مزاحمت اختیار کی اور اپنی زمینوں کو فروخت نہ کیا۔صیہونیوں کی آباد کاری جاری رہی اور انہوں نے فلسطین کی زمینوں پر برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے قبضہ جاری رکھا اور آخرکار سنہ1947ء میں اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق فلسطین کو تقسیم کر دیا گیا، حالانکہ فلسطینی اس تقسیم کے خلاف تھے۔ اقوام متحدہ جو دنیا میں امن و امان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لئے بنائی گئی تھی، دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی اور چوری کی ذمہ دار بن گئی اور 55 فیصد فلسطین کا علاقہ غاصب صیہونیوں کے لئے مختص کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ہاتھوں سے فلسطین کے خلاف ہونے والی خیانت آج 2024ء میں یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب صرف غزہ اور مغربی کنارہ باقی ہیں، باقی ماندہ پورے فلسطین پر غاصب صیہونیوں کا ناجائز تسلط قائم ہے۔ اب صیہونیوں کا بنیادی مقصد ہے کہ وہ پورے کے پورے فلسطین جیسا کہ گریٹر اسرائیل کے لئے ان کو 100فیصد فلسطین پر تسلط چاہیئے، اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں، لیکن فلسطین کی مزاحمت نے اس ناپاک منصوبہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ اب گریٹر اسرائیل کو قائم کرنے کے لئے یعنی باقی ماندہ ممالک کے علاقوں کو کنٹرول کرنے سے پہلے اسرائیل چاہتا ہے کہ پہلے فلسطیں کو مکمل زیر تسلط لے اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر غزہ اور لبنان لہولہان ہیں اور خطے کی حکومتیں ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ان تمام حکومتوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ گریٹر اسرائیل کے طے شدہ نقشہ اور منصوبہ کے تحت اسرائیل ان عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔ لہذا موجودہ صورتحال میں غزہ میں فلسطینی قوم اور مزاحمت جس جنگ میں شریک ہے، وہ جنگ صرف فلسطین اور غزہ کی نہیں ہے بلکہ یہ جنگ درحقیقت ان تمام عرب ریاستوں کے بقاء کی ہے، جن کا ذکر غاصب اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ میں کر رکھا ہے۔ اسی طرح آج اگر لبنان یا ایران یا عراق فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونیوں سے نبرد آزما ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جنگ صرف ایران، عراق اور لبنان کی بقاء کی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب اور کویت سمیت ترکی اور ہر اس حکومت و قوم کی جنگ ہے، جس کے بارے میں غاصب اسرائیل نے گریٹر اسرائیل میں زمینوں اور حکومتوں کو ہڑپ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رکھا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1166021

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1166021/نیل-سے-فرات-گریٹر-اسرائیل-کیا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com