فلسطین پر حکومتی کانفرنس، 2 ریاستیں نہیں، صرف فلسطین حل قرار
8 Oct 2024 09:13
اسلام ٹائمز: کانفرنس میں شرکاء نے حکومتی موقف کو مسترد کر دیا۔ حکومت کہتی ہے کہ دو ریاستی حل سے مسئلہ فلسطین حل کیا جائے، مگر گزشتہ روز ہونیوالی اس اے پی سی نے مشترکہ طور پر کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل ایک ریاست کا قیام ہے، جسکا دارالحکومت بیت المقدس ہو اور دو ریاستی حل کی بات کرنیوالے معاملے کو کسی اور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ یوں مقررین نے حکومت کے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے ایک ریاستی حل کی حمایت کی۔
رپورٹ: ٹی ایچ شہزاد
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے اور غزہ و فلسطین کے معاملے پر ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی زیرِصدارت آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں وزیرِاعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس، یوسف رضا گیلانی، احسن اقبال، شیری رحمن، حافظ طاہر اشرفی، ثروت اعجاز قادری سمیت ملک کی دیگر سیاسی قیادت بھی شریک ہوئی۔ اس کانفرنس میں شرکاء نے حکومتی موقف کو مسترد کر دیا۔ حکومت کہتی ہے کہ دو ریاستی حل سے مسئلہ فلسطین حل کیا جائے، مگر گذشتہ روز ہونیوالی اس اے پی سی نے مشترکہ طور پر کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل ایک ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو اور دو ریاستی حل کی بات کرنیوالے معاملے کو کسی اور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ یوں مقررین نے حکومت کے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے ایک ریاستی حل کی حمایت کی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ یاسر عرفات یہاں آتے جاتے رہے، بینظیر بھٹو کیساتھ میں ان سے ملتا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال پہلے اسرائیل نے غزہ اور فلسطین پر جارحیت کی، اسرائیل کے اقدامات دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کے علاوہ لبنان پر بھی جارحیت کر رہا ہے۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اسرائیلی جارحیت کے باعث 41 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہوچکا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے، ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل تمام قبضہ کیے گئے عرب علاقوں سے واپس جائے، عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام ہوئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی ناکامی ہے۔ اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر اگر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا تو ایسے ادارے کا کیا فائدہ ہے، اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے، وہ قوت اب استعمال نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے، اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، یہ ظلم اور بربریت ان شاء اللہ ختم ہوگی اور اللہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرے گا۔ اپنے خطاب میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے پاکستان میں حماس کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کی حمایت میں پاکستان کو واضح پوزیشن لینی چاہیئے۔ یورپی ممالک حماس کو دہشتگرد تنظیم سمجھ رہے ہیں۔ حماس دہشتگرد نہیں ایک قانونی تنظیم ہے، 2006ء میں حماس الیکشن جیتی تھی، میرا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا دفتر ہونا چاہیئے۔ قرارداد پاکستان کے تناظر میں ہم اسرائیل کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ قائداعظم نے 1940ء میں اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا، پاکستان نے کبھی بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ ہماری واضح پوزیشن ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز اور قابض ریاست ہے، قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے سیاسی طور پر مظاہرے کیے ہیں، لیکن مزید آگے بڑھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آگے بڑھ کر سفارتی طور پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، پاکستان کا پیغام تمام اسلامی ممالک تک پہنچائیں۔ وزیراعظم اعلان کریں کہ پاکستان کی تمام جامعات میں فلسطین کے بچوں کو اسپانسر کریں، آج عملی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔ مذمت ہم کرچکے ہیں، مرمت ہم کر نہیں سکتے، ہمیں آج عملی اقدامات کا اعلان کرنا چاہیئے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں خالد مگسی نے کہا کہ ہمارے چیخنے سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللّٰہ کے آگے ہم قیامت کے دن کس منہ سے کھڑے ہوں گے؟ ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے۔ فلسطین کے لوگ نقصان میں نہیں، وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری سالک حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے جو یو این میں تقریر کی، اس کا بھی بہت اثر ہوا۔ ہمیں یہاں کھل کر بات کرنی چاہیئے، فلسطین میں بچے شہید ہو رہے ہیں، مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف ہمیں سوچنا چاہیئے۔ کسی بھی جنگ میں اتنی خواتین اور بچے شہید نہیں ہوئے۔ حقائق دیکھ کر ہمیں اس کے متعلق کوئی حکمت عملی طے کرنی چاہیئے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عبدالعلیم خان نے کہا کہ اسرائیلی بربریت کو ایک سال ہوچکا ہے۔ فلسطین کیلئے ہم نے واقعی کچھ نہیں کیا، ہم جو کرسکتے تھے، وہ بھی نہیں کیا۔ یو این کے اجلاس کے دوران بھی فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری تھا۔ دنیا بے حس ہوچکی ہے۔ ہم بہت ساری چیزوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے پاس کچھ نہیں بچا، جو آپس میں ٹوٹ گئے تھے، آج ان ممالک کو دیکھیں، جہاں فتنا فساد تھا۔ جہاں جہاں اسرائیل نے حملہ کیا، وہ ممالک معاشی طور پر مستحکم نہیں تھے، بٹے ہوئے تھے۔ سیاست ضرور کریں لیکن ملک کو پہلے رکھیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ایمل ولی خان نے کہا کہ سوچنا چاہیئے کہ فلسطینیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اسے ختم کیسے کریں؟ فلسطین کیساتھ ہم کشمیر کی آزادی کی بھی بات کریں گے۔ افغانستان بھی مظلوم ملک ہے۔ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے فیصلے کرنے دیں، اپنے ملک پر بھی ہم کو نظر ڈالنی چاہیئے۔ جو رونا ہم فلسطین کیلئے رو رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اگلے 50 سال میں بلوچستان اور کے پی کیلئے رو رہے ہوں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ کہا تھا، اسرائیل کے ناسور کا فیصلہ 1871ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفورڈ نے کیا، غزہ میں پچاس ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں، دس ہزار کے قریب فلسطینی تاحال ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث پر تعجب ہوتا ہے، 7 اکتوبر کو حماس نے اس مسئلے کی نوعیت ہی بدل دی، اس خطے میں یہودیوں کی آبادی یا بستی کا کوئی جواز نہیں، کانفرنس یا قرارداد پاس کرکے ہم فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا مزید کہنا تھا کہ آج کا اجلاس بامعنی ہونا چاہیئے، مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب یا پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کرے، بڑے اسلامی ممالک کا ایک گروپ بنے، مسلمان ایک مشترکہ حکمت عملی بنائیں، 1947ء والے مؤقف پر ہمیں کلیئر ہو جانا چاہیئے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہم خارجہ سطح پر جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں، فلسطین کے کیس کو دنیا میں لڑنے کیلئے ہم میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کو کبھی نہیں بھولا، دنیا کو پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان اگرچہ ایک غریب ملک ہے اور معاشی و دہشتگردی کے مسائل کا سامنا ہے، لیکن فلسطین کے معاملے پر پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پییج پر ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ کچھ قوتیں سمجھتی ہیں کہ پاکستان اس معاملے پر یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کر رہا، لیکن آج کی اے پی سی اس بات کا پیغام بھیج رہی ہے کہ ہم سب فلسطین کیلئے یک آواز ہیں، پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کا بائیکاٹ کیا اور اس اقدام کو مسلم دنیا نے سراہا۔
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ کوئی شک نہیں اسرائیل ایک غیر قانونی ریاست ہے، فلسطین پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل فلسطین کا اسرائیل کیساتھ لڑنا ان کا حق ہے، وہ اپنی سرزمین کے دفاع میں لڑ رہے ہیں۔ راجا ناصر عباس نے مزید کہا کہ آپ کے گھر پر کوئی قبضہ کرلے تو اس کو چھڑوانا آپ کا حق ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ قابض کو آپ کہہ دیں کہ آدھا گھر تم رکھ لو، آدھا ہم رکھ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک سال سے غزہ میں مزاحمتی تحریک کو ختم نہیں کرسکا، بلکہ حماس کی مزاحمت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا دو ریاستی حل کسی طور تسلیم نہیں کریں گے، بلکہ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل فلسطین کی مکمل آزادی ہے۔ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، اسے ختم ہونا چاہیئے۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو نسل کشی پر مبنی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانے، مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
خبر کا کوڈ: 1165099