صیہونیوں کا اعتراف
7 Oct 2024 21:58
اسلام ٹائمز: مقبوضہ فلسطین، غزہ جنگ اور اب لبنان پر صیہونی حکومت کے وسیع حملوں سے متعلق خبروں اور رپورٹوں کی عکاسی کرنیوالے بہت سے امریکی ذرائع ابلاغ کیجانب سے اسرائیل کے حق میں رجحان نیز وائٹ ہاؤس اور اسرائیل کی مکمل اور جامع حمایت اور امریکی کانگریس کی اسرائیل نواز ثبوتوں اور نشانیوں کے باوجود امریکی معاشرے میں خاص طور پر نوجوانوں میں فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونی جرائم کی مذمت کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے، جسے صیہونی بھی اب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
تحریر: سید رضا میر طاہر
فلسطینیوں کی حمایت میں حالیہ ایام میں بے مثال اضافے نیز مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں اسرائیل کی مخالفت میں روزافزوں شدت کے بعد صہیونیوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد امریکہ میں اسرائیل مخالف تحریک میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس موضوع پر صیہونی اخبار معاریو نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ گذشتہ سال امریکہ میں صیہونی مخالف اقدامات (جسے یہود مخالف کہا جاتا ہے) کے واقعات ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں ان میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری شائع شدہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس صہیونی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک امریکہ میں اسرائیل مخالف کارروائیوں کے 10,000 سے زیادہ واقعات رونما ہوچکے ہیں، جو اسرائیل کے قیام کے بعد سے لیکر اب تک ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
سات اکتوبر 2023ء سے 24 ستمبر 2024ء تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اس سال کے واقعات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں (صیہونیوں اور صیہونی حکومت کے خلاف) زبانی یا تحریری اقدامات کے 8 ہزار 15 واقعات سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اقدامات کی تعداد بھی 1840 سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تصادم کے 150 سے زائد واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی صیہونیت مخالف لہر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور جو 200 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صیہونیوں کی طرف سے امریکہ میں اسرائیل مخالف جذبات اور اقدامات میں بے مثال اضافہ امریکی شہریوں بالخصوص نوجوانوں کے رویئے میں تبدیلی بہت ہی معنی خیز ہے۔ حماس کے زیر قیادت فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی طرف سے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے جواب میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملوں کے آغاز کے بعد سے، امریکہ کے مختلف شہروں میں (بائیڈن حکومت کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے باوجود) غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے خلاف مختلف ریلیاں، مظاہرے اور اجتماعات منعقد ہوئے۔ غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں، فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ جنگ کے دوران اس حکومت کے بے مثال جرائم کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ اس مسئلے پر نہ صرف یہ کہ بہت بڑے مظاہرے ہوئے ہیں بلکہ امریکہ کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں ہزاروں امریکی لوگوں نے ان اجتماعات میں شرکت کرکے اسرائیل سے اپنی نقرت کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔
امریکی یونیورسٹیوں کے یہ احتجاج امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کے بعد طلباء کے احتجاج کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ مظاہرے اور دھرنے غزہ میں اسرائیل کے جرائم بالخصوص نسل کشی، بھوک کے ہتھیار کے طور پر استعمال اور اس خطے میں قحط پیدا کرنے جیسے اقدامات کے خلاف ہیں۔ ان مظاہروں میں اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی قبول نہ کرنے کے خلاف بھی آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ ادھر مظاہروں میں حصہ لینے والوں کو امریکی حکومت کی طرف سے سزا کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار یونیورسٹی کے پروفیسرز اور منتظمین بھی مظاہرین کے ساتھ نظر آئے۔
فلسطین کی حمایت میں امریکہ میں طلبہ کے احتجاج کو اس ملک کے سیاسی اور سماجی نظام میں ایک نیا رجحان قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقیناً یہ احتجاجات یورپی ممالک تک بھی پھیل چکے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کی مخالفت کرنے والے فلسطینی حامی طلباء کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر تنقید اور انسانی حقوق کی حمایت کی وجہ سے انہیں غیر منصفانہ طور پر یہود مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی نظام ان لوگوں کے ساتھ سخت ترین سلوک کرتا ہے، جو یہود مخالف ہونے کے الزام کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا اسی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مظاہرین اپنے نظریات کے لیے اپنا مستقبل قربان کر رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف امریکہ میں طلبہ کے احتجاج میں اضافے کے ساتھ ہی اس حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینی حامیوں کو "یہود مخالف" قرار دیا اور ان مظاہروں کو "خوفناک" قرار دیا اور کہا ہے کہ ان مظاہروں کو روکنا چاہیئے۔ امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں بشمول آزادی اظہار کے حق کے بڑے دعویداروں اور علمبرداروں میں شمار کرتا ہے، لیکن وہ امریکہ کے اندر اسرائیل کے خلاف اظہار رائے اور مظاہروں کے انعقاد سے بارہا روکتا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی اظہار کے معاملے میں امریکی حکومت شفاف طرز عمل کی حامل نہیں ہے۔
امریکہ میں آزادی اظہار کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے، جب وہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں بالخصوص صیہونی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں ہو۔ وگرنہ کسی فرد یا ادارے کے لیے امریکی حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف اپنی رائے کے اظہار یا احتجاج کی گنجائش نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین، غزہ جنگ اور اب لبنان پر صیہونی حکومت کے وسیع حملوں سے متعلق خبروں اور رپورٹوں کی عکاسی کرنے والے بہت سے امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسرائیل کے حق میں رجحان نیز وائٹ ہاؤس اور اسرائیل کی مکمل اور جامع حمایت اور امریکی کانگریس کی اسرائیل نواز ثبوتوں اور نشانیوں کے باوجود امریکی معاشرے میں خاص طور پر نوجوانوں میں فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونی جرائم کی مذمت کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے، جسے صیہونی بھی اب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1165049