اب اسلحے کی نہیں نظریئے کی لڑائی ہے
7 Oct 2024 12:07
اسلام ٹائمز: اسرائیل کی مثال "کھسیانی بلّی کھمبا نوچے" کی سی ہے۔ اسکے دفاعی نظام اور عسکری قوت کا پول کیا کھلا کہ اس پر مزید پاگل پن کے دورے پڑنے لگ گئے۔ اسکے فضائی حملوں میں شدت آگئی ہے اور وہ لبنان کو غزہ کی طرح تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اسکا اصلی ہدف حزب اللہ کو ختم کرنا ہے، اس لئے وہ مسلسل اسکی قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے، کیونکہ حزب اللہ وہ طاقت ہے، جس نے عراق، شام اور لبنان میں داعش سے اپنا لوہا منوایا تھا اور اسکے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے استعماری طاقتوں کو حزب اللہ کا وجود ہرگز برداشت نہیں۔ لیکن کیا حزب اللہ اور حماس کو ختم کرنا اتنا آسان ہے۔؟ کیونکہ اب حزب اللہ اور حماس دو تنظیموں کا نام نہیں بلکہ ایک مزاحمتی نظریئے کا نام ہے۔ اس لئے استعماری طاقتوں کو اس محاذ پر بھی منہ کی کھانی پڑیگی۔
تحریر: عادل فراز
لبنان میں حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد امریکہ اور اسرائیل نواز میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کسی محفوظ مقام پر چھپ گئے ہیں۔ دنیا پر اسرائیل کی عسکری طاقت اور اس کے دہشت گردانہ حملوں کا خوف اس قدر حاوی تھا کہ بڑی تعداد نے اس افواہ کو حقیقت مان لیا، جبکہ آیت اللہ خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد 2 اکتوبر کو طلبہ سے خطاب کیا تھا، جسے براہ راست نشر کیا گیا۔ عام طور پر ان کے خطابات براہ راست نشر نہیں ہوتے مگر میڈیا کی افواہوں کو زندہ درگور کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے اسرائیل کو چیلینج کرتے ہوئے نماز جمعہ کی امامت کا اعلان کر دیا۔ ایسے حالات میں کہ جب اسرائیل دہشت کی تمام حدوں کو پار کرنے پر تُلا ہے، عوام کے تاریخی اجتماع میں شرکت کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ انہیں دشمن کا ذرہ برابر خوف نہیں۔
تقریباً پانچ سالوں کی طویل مدت کے بعد وہ نماز جمعہ کی امامت کے لئے تہران میں نماز جمعہ کے مقام "مصلیٰ" پہنچے۔ اس سے پہلے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد انہوں نے نماز جمعہ پڑھائی تھی۔ دنیا بہتر جانتی ہے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مرد و زن انہیں سننے کے لئے تہران میں جمع ہوئے تھے۔ گویا کہ یہ اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ تھا، کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کچھ دن پہلے ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنی قیادت سے دستبردار ہونے کے لئے کہا تھا۔ یہ اجتماع نتن یاہو کے منہ پر ایرانی عوام کا زوردار طمانچہ بھی تھا، جس کی گونج پوری دنیا نے سنی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب کو پوری دنیا میں نشر کیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ وہ میڈیا بھی اس خطاب کو نشر کر رہا تھا، جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خوف سے چھپ گئے ہیں۔
میڈیا کو نماز جمعہ سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی آیت اللہ خامنہ ای نے جمعہ کی نماز پڑھائی ہے، مگر کبھی میڈیا نے اس قدر توجہ نہیں دی۔ چونکہ اسرائیل پر ایران کے حملے اور حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد وہ پہلی بار منظر عام پر آرہے تھے، اس لئے دنیا ان کے مؤقف کو سننے کے لئے بے چین تھی۔ خاص طور پر وہ افراد زیادہ تذبذب کا شکار تھے، جو اسرائیل نوازی میں مرے جا رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء طوفان الاقصیٰ کے بعد مزاحمتی محاذ نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، مگر شہیدوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ خاص طور پر حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کہ جنہیں دشمن نے ایران میں نشانہ بنا کر مقاومتی محاذ کی کمر توڑنے کی کوشش کی تھی۔ بہرکیف! اس صورت حال کے باوجود جب دنیا نے آیت اللہ خامنہ ای کی پہلی جھلک دیکھی تو ان کی باڈی لنگویج سے ظاہر تھا کہ وہ کس قدر مطمئن ہیں۔
ان کے چہرے پر کسی طرح کا خوف تھا اور نہ حزن و ملال۔ وہ شیر صفت آئے اور دشمن کو للکارتے ہوئے اپنا خطبہ مکمل کیا۔ ان کے خطبے میں کئی اہم نکات تھے، جن میں اہم نکتہ مسلمانوں کو دشمن کے خلاف اتحاد کی دعوت تھی۔ لیکن کیا مسلمان حکومتیں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد ہوسکتی ہیں۔؟ یہ بعید معلوم ہوتا ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے! اس کے لئے جرأت اور غیرت اسلامی کی ضرورت ہے اور بس! ایران نے مشکل وقت میں انہیں اتحاد کی دعوت دی ہے، جسے کشادہ ظرفی کے ساتھ قبول کرنا چاہیئے، کیونکہ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوں گے، اسی طرح تباہ ہوتے رہیں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اسرائیل پر ایران کے حملے کو جائز ٹھہراتے ہوئے آئندہ حملوں سے بھی خبردار کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں اسرائیل اور امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہ کبھی ہچکچاتے ہیں اور نہ جلدی کرتے ہیں۔ انہوں نے ایرانی حملے کو صہیونی جرائم کے مقابلے میں ایک معمولی کارروائی قرار دیا۔ اس طرح انہوں نے اسرائیل کو آئندہ ہوشیار رہنے کی ہدایت بھی دی۔ انہوں نے صہیونی ریاست کو بغیر جڑ کی ریاست سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ریاست کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور فقط امریکی حمایت سے اس کا وجود باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی عالمی عدالت اور ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو صہیونیت کے خلاف استقامت سے روک سکے۔
انہوں نے 7 اکتوبر2023ء کو ہوئے حماس کے حملے "طوفان الاقصیٰ" کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو یہ قدم اٹھانے کا حق تھا، کیونکہ ان کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے، جو ان کے بنیادی حقوق حتیٰ کہ ان سے جینے کا حق بھی سلب کر لینا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خطے میں بدامنی اور درپیش مسائل کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی مغربی ایشیاء میں موجودگی ہے۔ انہوں نے پہلی بار علاقائی مسائل کی جڑ خطے میں ناٹو افواج کی موجودگی کو قرار نہیں دیا بلکہ وہ اس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بارہا کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ سے امریکہ کو ہر حال میں جانا ہوگا۔ لیکن امریکہ مسلسل ہزیمتیں اٹھانے کے باجود مشرق وسطیٰ میں موجود ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
دنیا سے یک قطبی نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب کثیر قطبی نظام کا دور ہے۔ اس کے باوجود امریکہ یک قطبی نظام پر مصر ہے، جس نے تیسری جنگ عظیم کے شعلے بھڑکا دیئے۔ ویسے بھی امریکہ کو اس وقت یک قطبی نظام کا محور نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اس کی چودھراہٹ بھی ناٹو افواج کے اتحاد پر منحصر ہے۔ اس لئے تنہاء امریکہ بھی عالمی منظرنامے پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسرائیل پر ایران کا حملہ دلیرانہ اور تاریخی تھا۔ ایران نے ایسے وقت میں اسرائیل پر حملہ کیا، جب پوری امت مسلمہ کشمکش میں مبتلا تھی۔ اس حملے نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ مقاومتی محاذ انسانی اور اسلامی اقدار کے مطابق جنگ لڑ رہا ہے۔ ایران نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات، ہوائی اڈّوں اور دفاعی مراکز کو نشانہ بنایا۔ اس کے میزائلوں کی زد میں رہائشی علاقے نہیں تھے۔
دوسری طرف اسرائیل ہے، جس نے ہمیشہ رہایشی علاقوں پر حملے کئے۔ عورتوں اور بچوں کا بہیمانہ قتل کیا۔ اسکولوں اور اسپتالوں کو خاص طور پر ہدف بنایا۔بظاہر مزاحمتی محاذ کی کمزوری کا ایک سبب بے گناہوں کے قتل سے اجتناب اور رہائشی علاقوں پر حملوں سے پرہیز ہے۔ اگر حزب اللہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں اسرائیل کے رہائشی علاقوں پر حملے کرتیں تو آسانی سے اس کو گھٹنوں پر لایا جاسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ جنگ جیتنے کے لئے غیر انسانی حربے استعمال کرنا بزدلوں کا کام ہے۔ لبنان پر ہوئے تازہ حملوں میں دودھ پیتے بچے بھی مارے گئے، لیکن ایک بار بھی میڈیا اور عالمی طاقتوں نے اس کی مذمت نہیں کی، کیونکہ میڈیا استعمار کا زرخرید ہے اور اسی نے اسرائیل کو جنم دیا تھا۔ فی الوقت ایران یا مزاحتمی محاذ کی جنگ اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ پنجہ آزمائی عالمی طاقتوں کے ساتھ ہے۔
جس طرح یوکرین میں عالمی طاقتیں روس کے خلاف متحد ہیں، اسی طرح غزہ، لبنان اور شام میں یہ طاقتیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ لڑ رہی ہیں۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایران کا حملہ اسرائیل پر نہیں بلکہ امریکہ اور اس کی حلیف طاقتوں کے خلاف تھا۔ اس زاویئے سے ایران کے حملے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ایران کے حملے کے بعد اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتیں خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ایران پر حملے سے پہلے تو انہیں ہزار بار سوچنا پڑے گا، لیکن اس کا انتقام غزہ، لبنان اور شام کی بے گناہ عوام سے لیا جائے گا۔ اسرائیل کی مثال "کھسیانی بلّی کھمبا نوچے" کی سی ہے۔ اس کے دفاعی نظام اور عسکری قوت کا پول کیا کھلا کہ اس پر مزید پاگل پن کے دورے پڑنے لگ گئے۔
اس کے فضائی حملوں میں شدت آگئی ہے اور وہ لبنان کو غزہ کی طرح تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس کا اصلی ہدف حزب اللہ کو ختم کرنا ہے، اس لئے وہ مسلسل اس کی قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے، کیونکہ حزب اللہ وہ طاقت ہے، جس نے عراق، شام اور لبنان میں داعش سے اپنا لوہا منوایا تھا اور اس کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے استعماری طاقتوں کو حزب اللہ کا وجود ہرگز برداشت نہیں۔ لیکن کیا حزب اللہ اور حماس کو ختم کرنا اتنا آسان ہے۔؟ کیونکہ اب حزب اللہ اور حماس دو تنظیموں کا نام نہیں بلکہ ایک مزاحمتی نظریئے کا نام ہے۔ اس لئے استعماری طاقتوں کو اس محاذ پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
خبر کا کوڈ: 1165003