QR CodeQR Code

کیا اسرائیل نے غزہ فتح کر لیا؟

7 Oct 2024 15:33

اسلام ٹائمز: ابراہیمی معاہدے کے نام پر عرب و دیگر مسلمان ممالک کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اسرائیلی منصوبہ پر بھی پانی پھر گیا ہے اور اب اپنے عوام کے غیض و غضب کے ڈر سے کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کیساتھ معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ حماس و حزب اللہ کو شدید فوجی زک پہنچانے، غزہ و لبنان کو تباہ کرنے، اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصراللہ و ٹاپ ایرانی کمانڈرز کو شام و لبنان میں شہید کرنے کے باوجود بھی اسرائیل کو ٹیکیکل لیول پر کامیابی ملی ہے، جبکہ اسے لانگ ٹرم اسٹراٹیجک سطح پر ناکامی ہوئی ہے اور عسکری گروپوں کو تباہ کرکے وہ اپنے شہریوں کو تحفظ کا جو احساس اسرائیل دینا چاہتا تھا، اس میں اسے مکمل ناکامی ہوئی ہے۔


تحریر: سید کاشف علی

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ایک برس گزر گیا، حماس کو سزا دینے کے بہانے اسرائیل نے عورتوں اور معصوم بچوں سمیت بےگناہ شہریوں کا بھیانک قتل عام کیا، جس کی انسانی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ 42 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی اسرائیلی نسل کشی کا شکار ہوگئے، بیس لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے، غزہ کا بینادی ڈھانچہ مکمل تباہ کرکے اسے ایک کھنڈر میں بدل دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس قتل عام اور نسل کشی کے باوجود کیا اسرائیل نے غزہ میں اپنے فوجی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔؟ غزہ پر جارحیت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے تین اہداف کا اعلان کیا، جن میں حماس کا مکمل خاتمہ، دو سو سے زائد صیہونی قیدیوں کی حماس کی قید سے رہائی اور غزہ میں کٹھ پتلی حکومت کا قیام، جو اسرائیل کے سیاسی و سکیورٹی مفادات کا تحفظ کرسکے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی 24 بٹالین میں سے اسرائیل صرف چار کو مکمل تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکا، وسطی و شمالی غزہ سمیت جن علاقوں سے اسرائیلی فوج نے انخلاء کیا ہے، وہاں حماس دوبارہ منظم ہوگئی ہے۔ حماس نے اس وقت اسرائیل کے خلاف کم شدت کی گوریلا جنگ شروع کر رکھی ہے، جس میں آئے دن اس کے فوجیوں پر اسنائپر اور ٹینک شکن میزائلوں سے حملے ہو رہے ہیں، جن میں اسرائیل کے فوجی زخمی و ہلاک ہو رہے ہیں۔ اسرائیل پر راکٹ باری کی صلاحیت میں کمی آنے کے باوجود بھی حماس اب بھی اسرائیل پر راکٹ برسانے کی صلاحیت رکھتی ہے، آج کے دن تل ابیب کو راکٹوں سے نشانہ بنانے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس کی راکٹ باری کی صلاحیت کو مکمل ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اسرائیل نے حماس کی زیر زمین سرنگوں میں سے درجنوں کو تباہ کیا، اس کے باوجود اسرائیل تمام سرنگوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور اس وقت بھی حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو سرنگوں میں قید کر رکھا ہے، جو اسرائیل کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان سمیت متعدد اعلیٰ سطح حکام آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ حماس ایک نظریہ ہے، اور نظریئے کو تباہ کرنا ناممکن ہے، 21 جون کو اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے ایک بیان میں کہا "یہ خیال کہ حماس کو مکمل تباہ کرکے ختم کیا جا سکتا ہے، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے۔" اسرائیل کا دوسرا اہم جنگی ہدف حماس کی قید میں موجود اپنے قیدیوں کی رہائی تھا، جس میں اسے ناکامی ہوئی۔ اس وقت بھی سو سے زائد صیہونی قیدی حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی فوجی طاقت کے بل بوتے پر قیدوں کو رہا کروانے میں بھی مکمل ناکام رہا۔

اسرائیل میں پچھلے ایک سال سے روزانہ تل ابیب میں قیدیوں کی رہائی کے لیے احتجاج ہو رہا ہے، قیدیوں کے لواحقین نے نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے جنگ بندی قبول نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے سو سے زائد اسرائیلی شہری بدستور حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیل کا تیسرا ہدف غزہ میں جنگ کے بعد ایک کٹھلی پتلی حکومت کا قیام تھا، جو اسرائیل کے سیاسی و سکیورٹی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس کے حلیف عرب ممالک غزہ میں اپنی فوجیں بھیجیں اور وہاں مغربی کنارے کے طرز پر ایک کٹھلی پتلی حکومت قائم کی جائے، جس کا کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہو، عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ وہ اسرائیلی ٹینکوں پر بیٹھ کر غزہ کبھی نہیں آئیں گے، نہ وہاں فوجیں بھیجیں گے اور نہ کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔

اسرائیل وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کے ذریعے غزہ سے تمام فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک بے دخل کرنا چاہتا تھا، اس لیے پناہ گزین کیمپوں سمیت ہر مقام پر نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا، لیکن غزہ کے لوگوں نے یہ کہہ کر بےدخل ہونے سے انکار کر دیا کہ انھیں ایک اور "نکبہ" قبول نہیں۔ بےتحاشہ طاقت کے استعمال سے اسرائیل کے خلاف امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا میں شدید نفرت پیدا ہوگئی ہے، جس کا ثبوت بڑے پیمانے پر اسرائیل مخالف مظاہرے ہیں، جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے۔ اسرائیل اکثر ویکٹم یا مظلومیت کا کارڈ کھیلتے ہوئے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرتا تھا، غزہ کے معصوم بچوں کے قتل عام سے اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہوگیا ہے۔ امریکہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا اصل ذمہ دار ہے، جس نے بنکر شکن میزائلوں سمیت بڑے پیمانے پر اسرائیل کو گولہ بارود، مالی، سیاسی و سفارتی امداد فراہم کی ہے۔

گذشتہ ایک سال میں امریکہ نے اسرائیل کو ساڑھے چھ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے، جسے اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی میں صرف کیا ہے، اس لیے امریکہ کے ہاتھ معصوم بچوں اور مرد و زن کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ 8 اکتوبر کو  حزب اللہ نے شمال میں حماس کے لیے امدادی محاذ کھولا، جس کا مقصد اسرائیل کی فوجی طاقت کو تقسیم کرکے حماس سے دباو کو کم کرنا تھا، حزب اللہ کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے حماس جنگ کو طول دینے میں کامیاب رہی، ستر ہزار سے زائد اسرائیلی شمال سے عارضی پناہ گاہوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ البتہ اس کوشش میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سمیت ٹاپ ملٹری کمانڈرز شہید ہوگئے اور لبنان کے ہزاروں بے گناہ شہری بھی جنگ کی نظر ہوگئے۔ حزب اللہ اور لبنانی شہریوں کی قدس کی راہ میں یہ گراں قدر کامیابی ہے، جسے جتنا زیادہ خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔

گزشتہ ایک سال میں اسرائیل کو ایران کے دو حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جن میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یکم اکتوبر کو ایران کی طرف سے کئے جانے والے میزائل حملے سے متعلق بین الاقوامی جریدے ملٹری واچ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی نیواتیم ائیربیس پر موجود 20 ایف 35 طیارے تباہ ہوئے ہیں اور ائیربیس مکمل تباہ ہوگئی۔ غزہ و لبنان میں قتل عام اور حماس و حزب اللہ بظاہر بہت زیادہ نقصان پہنچانے کے باوجود اسرائیل اپنے اسٹراٹیجک و جنگی مفادات حاصل کرنے میں ناکام ہوا ہے، کیونکہ حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیل کے تمام بڑے شہروں کو کامیابی سے نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس سے اسرائیل کے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل سے دوسرے ممالک ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک پانچ لاکھ سے زائد صیہونی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیل پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوچکا ہے۔

مسئلہ فلسطین تاریخ کے سرد خانے سے نکل کر دنیا کا مسئلہ نمبر ایک بن چکا ہے اور عالمی برادری اس کے مستقل و پائیدار حل کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ابراہیمی معاہدے کے نام پر عرب و دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اسرائیلی منصوبہ پر بھی پانی پھر گیا ہے اور اب اپنے عوام کے غیض و غضب کے ڈر سے کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حماس و حزب اللہ کو شدید فوجی زک پہنچانے، غزہ و لبنان کو تباہ کرنے، اسماعیل ہنیہ، سید حسن نصراللہ و ٹاپ ایرانی کمانڈرز کو شام و لبنان میں شہید کرنے کے باوجود بھی اسرائیل کو ٹیکیکل لیول پر کامیابی ملی ہے، جبکہ اسے لانگ ٹرم اسٹراٹیجک سطح پر ناکامی ہوئی ہے اور عسکری گروپوں کو تباہ کرکے وہ اپنے شہریوں کو تحفظ کا جو احساس اسرائیل دینا چاہتا تھا، اس میں اسے مکمل ناکامی ہوئی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1164998

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1164998/کیا-اسرائیل-نے-غزہ-فتح-کر-لیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com