کہانی جو اختتام کے قریب ہے
7 Oct 2024 03:58
اسلام ٹائمز: یہودی جس تیزی سے اپنی جعلی ریاست کو آباد کرنے کے لیے فلسطین کی سرزمین میں وارد ہوئے تھے، آج اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس سرزمین سے فرار ہونے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ آج طوفان اقصیٰ کے شروع ہونے کے ایک سال بعد محور مقاومت کی تاریخی مقاومت کے نتیجے میں غاصب صیہونی حکومت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
تحریر: سید تنویر حیدر
فلسطینی مظلوموں کے سینے میں پلنے والی طوفانی لہروں کو طوفان بنے ایک سال ہوگیا ہے۔ ستر سال قبل ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ جما کر اس پر ایک ناجائز صیہونی ریاست کی بنیاد رکھی تو گئی لیکن اس ناجائز وجود کو اردگرد کے عرب ممالک سے شدید خطرہ تھا۔ اسرائیل کے قیام کے ابتدائی برسوں میں اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین سات چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں۔ اگرچہ ان جنگوں میں آخری کامیابی اسرائیل کو ہی حاصل ہوئی لیکن اس کے باوجود خطے کے ممالک کی طرف سے صیہونی ریاست پر حملے کا امکان باقی رہا۔ تب سے اب تک، تقریباً ستر سال سے یہ ناجائز مملکت اپنے دفاع اور اپنی بقا کے لیے ٹریلین ڈالرز خرچ کرچکی ہے۔
فوجی لحاظ سے جہاں اسے امریکہ جیسی سپر پاور کی سرپرستی حاصل رہی، وہاں سیاسی میدان میں وہ چند ایک ممالک کو چھوڑ کر باقی دنیا سے اپنا وجود منوانے میں کامیاب رہی۔ جن عرب ممالک سے کبھی اسے خطرہ تھا، وہ بھی اس کے سامنے زیتون کی شاخ لہرانے پر مجبور ہوگئے اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب ”ابراھیمی اکورڈ“ کے ذریعے عرب ریاستیں اپنا سب کچھ اس یہودی ریاست کے قدموں میں ڈال کر اور اپنے دامن کو جھاڑ کر چین کی بانسری بجانے لگیں۔ اسرائیل کی کامیابی کی داستاں ابھی اختتام کے قریب ہی تھی کہ اس میں اچانک ایک ایسا موڑ آیا، جس نے اس کا اسکرپٹ تیار کرنے والوں پر بھی بجلی گرا دی۔
یہ برق ناگہاں اس طوفان کا نتیجہ تھی، جو حماس کے جوانوں نے اقصیٰ کے نام پر اٹھایا اور پھر اس طوفان کی طوفانی لہروں کی رفتار کو باقی مقاومتی قوتوں نے صیہونیوں کی سوچ کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتار بنا دیا۔ لمحہء موجود میں اس طوفان کے نتیجے میں ستر سال سے اپنے لیے مضبوط فصیلیں کھڑی کرنے والی ناجائز صیہونی ریاست کی حالت یہ ہے کہ اس پر کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی میزائلز اور ڈرونز کی بارش کی جا سکتی ہے۔ جس اسرائیل کی کھلے آسمان کے نیچے بنیاد رکھی گئی تھی، آج خوف کے مارے اس کے باسیوں کا زیادہ تر وقت زیر زمین گزر رہا ہے۔
یہودی جس تیزی سے اپنی جعلی ریاست کو آباد کرنے کے لیے فلسطین کی سرزمین میں وارد ہوئے تھے، آج اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس سرزمین سے فرار ہونے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ آج طوفان اقصیٰ کے شروع ہونے کے ایک سال بعد محور مقاومت کی تاریخی مقاومت کے نتیجے میں غاصب صیہونی حکومت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم نے گزشتہ جمعے کے خطبے میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ اسرائیل کو ستر سال پیچھے کی جانب دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ اب موت و حیات کی کشمکش میں ہے، اس حکومت کے لیے اب کسی بھی سطح پر کوئی بھی محفوظ دیوار باقی نہیں رہی۔
خبر کا کوڈ: 1164856