امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ
6 Oct 2024 14:21
اسلام ٹائمز: اب پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی صورتحال واضح ہے، یہ دونوں وعدہ صادق 2 آپریشن کے جواب میں صیہونیوں کیجانب سے ایران کیخلاف کی جانیوالی کسی بھی کارروائی میں شراکت دار ہونگے اور یہ مسئلہ ایران کی آئندہ انتقامی کارروائیوں میں واشنگٹن اور تل ابیب کی علیحدگی کی کسی بھی گنجائش کو ختم کر دیگا۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جدائی ناممکن ہے۔
تحریر: حنیف غفاری
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران اور غزہ جنگ کے بارے میں ایران کے مستند اور دانشمندانہ انداز فکر کے خلاف مختلف طرح کے بیانات دیئے ہیں۔ یہ بیان بازی جو غزہ جنگ کے آغاز سے مسلسل جاری ہے، ضاحیہ میں غاصب اور سفاک صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کے دوران اس وقت اپنے عروج کو پہنچی، جب سید مزاحمت حس نصراللہ صیہونی حملے میں شہید ہوئے۔ اس دہشت گردانہ جرم کے وقوع پذیر ہونے کے فوراً بعد پینٹاگون کے سربراہ نے القدس کی قابض حکومت کی طرح حزب اللہ کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا ضروری قرار دیتے ہوئے تہران کو اسرائیلی حکومت کے خلاف کسی بھی براہ راست کارروائی سے خبردار کیا۔ آسٹن نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی کارروائی سے ایران کے لیے سنگین نتائج برامد ہوں گے۔ وعدہ صادق 2 کے قابل فخر آپریشن نے پینٹاگون اور سینٹ کام کے دعووں پر خط بطلان کھینچ دیا۔ اس وقت لائیڈ آسٹن کو ایک ہی وقت میں دو شکستوں کا سامنا ہے۔
ایک تو جنوبی لبنان میں واشنگٹن اور تل ابیب کے پہلے سے طے شدہ اہداف تک عدم رسائی اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے خلاف ناکامی اور دوسری مقبوضہ سرزمین کی تزویراتی گہرائی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا طاقتور آپریشن، یہ آپریشن صیہونیوں کی جنگی طاقت کے ایک حصے کو تباہ کرنے اور اس کے نتیجے میں مزاحمتی محاذ کے مفاد میں ایک توازن پیدا کرنے کے لیے مفید ثابت ہوا۔ وعدہ صادق 2 آپریشن کے بعد، ایک طرف، لائیڈ آسٹن نے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور دوسری طرف اس نے تسلیم کیا کہ اسلامی جمہوریہ کے کامیاب آپریشن کے پیش نظر تل ابیب کی طرف سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، اس فیصلے کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔ اس بیان سے لائیڈ آسٹن کے ماضی اور حالیہ وعدوں کی قدر مزید واضح ہوگئی ہے۔ صیہونی ایران یا مزاحمتی محاذ کے دیگر فریقوں کے خلاف جو بھی جرم اور کارروائی کرتے ہیں، امریکہ نہ صرف اس کا حامی ہوتا ہے بلکہ اس کا ساتھی بھی ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان علیحدگی اور بیگانگی لایعنی بات ہے۔ میدان جنگ اور اس کے میٹا ٹیکسٹ میں اس طرح کے امکان کو غلطی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے لیکر اب تک پینٹاگون، سینٹ کام اور صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ سب براہ راست رابطے میں ہیں۔ غزہ پٹی، لبنان اور خطے کے دیگر حصوں میں وحشی صیہونی حکومت کے نسل کشی اور جرائم کی حمایت کرنے کے مقصد سے ہزاروں امریکی فوجیوں کو مقبوضہ علاقوں میں بھیجنا نہ صرف صہیونیوں کی اسٹریٹجک حمایت کی ایک مثال ہے بلکہ حالیہ جنگ میں تل ابیب کے ساتھ امریکہ کی مکمل شراکت داری کا واضح ثبوت ہے۔ بلاشبہ، یہ مسئلہ واشنگٹن کے لیے بہت سنگین نتائج کا حامل ہوگا اور یہ اقدام مغربی ایشیا کے خطے میں اس کی پوزیشنوں کو مزاحمتی محاذ کے جائز اہداف میں بدل دے گا۔
حالیہ صورتحال میں امریکہ کی شکست کی ایک اور یقینی علامت پینٹاگون اور صہیونی فوج کی اس بحران کو سنبھالنے میں مشترکہ ناکامی ہے۔ اس بحران نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کی جہتیں روز بروز پھیل رہی ہیں۔ لائیڈ آسٹن کا خیال تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ان کی دھمکیاں ایران کو صیہونیوں سے لبنان کی حزب اللہ کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ، شہید اسماعیل ہنیہ اور شہید نیلفروشان کی شہادت کا بدلہ لینے سے باز رکھیں گی، لیکن ایران نے خوفزدہ ہونے کی بجائے ایرانی میزائلوں کو تزویراتی گہرائی میں داغ کر اپنی حیثیت منوا لی ہے۔ بہرحال اب پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی صورت حال واضح ہے، یہ دونوں وعدہ صادق 2 آپریشن کے جواب میں صیہونیوں کی جانب سے ایران کے خلاف کی جانے والی کسی بھی کارروائی میں شراکت دار ہونگے اور یہ مسئلہ ایران کی آئندہ انتقامی کارروائیوں میں واشنگٹن اور تل ابیب کی علیحدگی کی کسی بھی گنجائش کو ختم کردے گا۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جدائی ناممکن ہے۔
خبر کا کوڈ: 1164805