شہید سید حسن نصراللہ کی قیمتی میراث
5 Oct 2024 12:23
اسلام ٹائمز: صیہونی عوامی حمایت کو کم کرنے کیلئے انکو حملوں کا نشانہ بناتے ہیں، تاکہ عوام تنگ آکر مقاومت اور استقامت کا ساتھ چھوڑ دیں، لیکن وہ ہر بار ناکام رہے ہیں۔ عوام اور لبنان کے مختلف قبیلوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اور انہیں مضبوط کرنا حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی قیمتی میراث میں سے ایک ہے اور گذشتہ چند دنوں کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنانی عوام آج بھی اس میراث کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ موجودہ نازک صورتحال سے گزرنے اور ایک اور تاریخی فتح حاصل کرنے کیلئے شہید سید حسن نصراللہ کی اس قیمتی میراث کو سنبھالنا لبنانی عوام کی سب سے اہم ضرورت اور ذمہ داری ہے۔
تحریر: احمد کاظم زادہ
صیہونی حکومت کی جانب سے گذشتہ چند دنوں میں لبنان کی سرزمین میں داخل ہونے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، لہذا اس حکومت نے ان ناکامیوں اور شکست کی تلافی کے لیے عام شہریوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ اس تناظر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے پروپیگنڈے کے برعکس (اگرچہ "سید حسن نصراللہ" کا قتل حزب اللہ اور محور مزاحمت اور پورے خطے کے لیے بہت بڑا نقصان تھا)، حزب اللہ کی دفاعی صلاحیتوں کے معیار اور مقدار پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی مزاحمتی قوت کمزور ہوئی ہے۔ اس وقت غزہ کی جنگ کی طرح لبنان میں بھی صیہونی حکومت عام شہریوں کو اپنا آسان ترین ہدف سمجھتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں جنوبی لبنان پر قابض حکومت کے فوجی حملوں کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد افراد شہید اور تقریباً دس لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک پر صیہونی حکومت کے حملوں کے دوران 73 لبنانی امدادی کارکن بھی شہید ہوئے ہیں۔
لبنان کے اسپتالوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ ان وحشیانہ حملوں کی وجہ سے اس ملک کے جنوب میں چار اسپتالوں کی سروسز ختم ہو کر رہ گئی ہیں اور آج صبح صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے لبنان کے جنوب میں شہید صلاح غندور اسپتال پر بمباری کی ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت مجاہدین کے عقب کو نشانہ بنا رہی ہے، کیونکہ وہ فرنٹ لائن پر کچھ نہیں کرسکتی۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے قتل کے فوراً بعد صیہونی حکومت نے لبنان میں عسکری طور پر داخل ہونے کے فیصلے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ کی امن فوج کو اپنا ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کے لیے کہا، جسے ان فورسز نے نظرانداز کیا۔ یاد رہے کہ UNIFIL فورسز 1978ء سے، جنوبی لبنان میں لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان امن برقرار رکھنے اور جنگ بندی کی نگرانی کی ذمہ دار ہیں۔
اس درخواست کے ذریعے صیہونی حکومت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کو کالعدم قرار دینا چاہتی تھی، لیکن ان کی ان کوششوں کی حمایت کسی بھی ملک نے نہیں کی، حتیٰ کہ اس حکومت کے مغربی حامی بھی موجودہ حالات میں اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے۔ لبنانی مزاحمتی قوتوں نے کہا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران انہوں نے لبنان میں داخل ہونے اور اپنی مرضی کے مطابق سکیورٹی بیلٹ بنانے کی صیہونی فوجیوں کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور انہیں بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق صیہونی فوجی دستوں کو اندر آنے کا موقع فراہم کرنا بھی حزب اللہ کی جانب سے پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا، تاکہ وہ غاصب قوتوں کو اپنے جال میں پھنسا سکیں اور وہ اس حوالے سے کئی مراحل میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ اور لبنان دونوں میں صیہونی حکومت اس بات پر ناراض تھی کہ ان علاقوں کے عوام ہمیشہ مزاحمتی گروہوں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں ان گروہوں کی حمایت سے باز نہیں آتے، لہذا صیہونی عوامی حمایت کو کم کرنے کے لئے ان کو حملوں کا نشانہ بناتے ہیں، تاکہ عوام تنگ آکر مقاومت اور استقامت کا ساتھ چھوڑ دیں، لیکن وہ ہر بار ناکام رہے ہیں۔ عوام اور لبنان کے مختلف قبیلوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اور انہیں مضبوط کرنا حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی قیمتی میراث میں سے ایک ہے اور گذشتہ چند دنوں کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنانی عوام آج بھی اس میراث کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ موجودہ نازک صورتحال سے گزرنے اور ایک اور تاریخی فتح حاصل کرنے کے لئے شہید سید حسن نصراللہ کی اس قیمتی میراث کو سنبھالنا لبنانی عوام کی سب سے اہم ضرورت اور ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ: 1164592