مسلمانوں پر خوف کے سائے اور ایران کا پاگل پن!
3 Oct 2024 18:20
اسلام ٹائمز: ایران اس مرحلے میں صرف چند تنصیبات کو نشانہ بناکر اپنی طاقت کا مظاہر چاہتا تھا، جس میں وہ کامیاب رہا ہے۔ اگر جنگ بڑھی تو اگلے مرحلے میں انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا جائے گا تو انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہو جائے گا۔ جی ہاں! جن لوگوں کے دلوں میں آج بھی امریکہ، اسرائیل اور یورپ کا خوف ہے، وہ یقیناً عربوں کی طرح ہمیشہ نفسیاتی دباؤ میں رہیں گے، لیکن ایران نے اسرائیل کی ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔ Stimson Institute کے عالمی سلامتی کے محقق اور نیٹو کے اسلحہ کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ولیم البرک نے اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے ایک ایسا حملہ کیا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر محمد کاظم سلیم
kazimsaleem@yahoo.com
پچھلے ایک سال سے اسرائیل نے فلسطین، شام، لبنان، یمن، عراق اور ایران میں متعدد فوجی کارروائیاں کیں، جن میں کئی اعلیٰ شخصیات سمیت ہزاروں بچے اور خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں آخری کارروائی چند دن پہلے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانا تھی۔ اس سے پہلے چند ہفتوں کے اندر لبنان کے مختلف علاقوں میں حزب اللہ کے اعلیٰ عسکری رہنماؤں کی اکثریت کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ 31 جولائی 2024ء کو حماس کے سیاسی رہنماء اسماعیل ہنیہ کو ان کے ذاتی محافظ کے ساتھ ایرانی دارالحکومت تہران میں اس وقت شہید کر دیا گیا تھا، جب وہ نومنتخب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لئے تہران میں تھے۔ ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس وحشیانہ قتل کا مناسب وقت میں بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے بعد اسرائیل کے ہاتھوں سید حسن نصراللہ کی شہادت نے گویا ایران کو قبل از وقت اسرائیل کے خلاف فوری کارروائی پر مجبور کردیا۔
لیکن اسرائیل پر حملہ کرنا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ اسرائیل پر حملہ پوری دنیا پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ امریکہ، یورپ حتیٰ کہ مسلمان اور عرب ممالک سبھی اسرائیل کی سلامتی کو اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 13 اپریل 2024ء کو جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکہ اور یورپ سمیت بیشتر عرب ممالک اسرائیل کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان بالخصوص عرب ممالک اپنی بے پناہ دولت، فوج اور ہتھیاروں کے باوجود اسرائیل کی مرضی کے خلاف بات کرنا بھی ناقابل قبول جرم سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایران جیسے ملک کا اسرائیل اور امریکہ سے براہ راست ٹکر لینا بادی النظر میں غیر معقول اور پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہے، جو پہلے ہی امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایران ایک نظریاتی ملک ہے، جس کی بنیاد بعض اصولوں پر قائم ہے۔ ایران کے لیے اپنے اصولوں سے دستبردار ہونا ممکن نہیں ہے۔ از جملہ ظلم کے مقابل تسلیم ہونے کی بجائے مزاحمت اور قاعدہ نفی السبیل یعنی مسلمانوں پر کفار کی حکمرانی کو قبول نہ کرنا، وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی عمارت کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے تا حد ممکن ایران دنیا کے ہر مظلوم مسلمان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
آج جس طرح حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے، ماضی قریب میں ایرانی کمانڈر بوسینا کے مسلمانوں کے دفاع میں لڑتے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں وہاں شہید ہوچکے ہیں۔ ایران نے ہر محاذ پر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کا اعتراف تمام کشمیری قائدین کرچکے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقتصادی پابندیوں کا شکار ایران کی پیٹرولیم مصنوعات کا بھارت سب سے بڑا خریدار تھا، جس سے ایران کی تباہ حال معیشت کو مدد ملتی تھی، لیکن اس سے قطع نظر کشمیریوں کے لئے اس وقت آواز اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں تھی، جبکہ ہماری پوری امیدیں کچھ عرب ممالک سے تھیں، لیکن یہ سب عین وقت میں مودی کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ اسی قاعدے کے مطابق ایران کی خارجہ پالیسی میں فلسطین اور قبلہ اول کو خاص اہمیت حاصل ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسئلہ فلسطین ہی ایران کی خارجہ پالیسی کی سرخ لکیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ ملک ہونے کے باوجود صرف ایران ہی ایک ریاست کے طور پر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، ورنہ عالم اسلام بہت پہلے 17 ستمبر 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ اور 13 ستمبر 1993ء کے اوسلو معاہدوں کے ساتھ فلسطین کے مسئلے سے عملاً دستبردار ہو چکےہیں۔
یہ دونوں معاہدے فلسطینیوں پر مسلط کیے گئے تھے، اس لیے حماس اور اسلامی جہاد سمیت بیشتر فلسطینی تنظیموں نے ان معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ یاسر عرفات اور پھر محمود عباس نے انہی معاہدوں کے تحت اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرکے اس کے عوض نام نہاد فلسطینی اتھارٹی پر راضی ہوگئے تھے۔ فلسطینی اتھارٹی کی فوج ہے نہ کرنسی، اس کی کوئی انتظامی ترکیب نہیں ہے بلکہ تمام انتظامی امور میں اس کے لئے اسرائیلی قوانین کی پیروی ضروری ہے۔ اس اتھارٹی کے اختیارات کو سمجھے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس کے سربراہ کو رام اللہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں جانے سے ایک ہفتہ قبل اسرائیلی پولیس سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ اس اتھارٹی کو امریکہ، اسرائیل اور یورپ سمیت تمام عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے، جبکہ صرف ایران اور شام کی حکومتیں حماس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ غیر ریاستی عناصر میں لبنان کی حزب اللہ، یمن کی انصار اللہ اور عراق کی جہادی تنظیموں کی حمایت حماس کو حاصل ہے۔
اس سناریو میں قطر، ترکی اور بعض دیگر اسلامی ممالک کی مثال اس مرغی کی ہے، جو دانے کہیں چنتی ہے لیکن انڈے کہیں اور جاکر دیتی ہے۔ یہ ممالک اسرائیل کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، لیکن وہ زبانی حد تک حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی جبر اور تشدد کے باوجود مزاحمت ترک نہیں کی اور دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت کے خلاف پتھروں اور غلیل سے لڑتے رہے۔ ایران نے گزشتہ بیس سالوں میں فلسطینیوں کو مسلح کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینیوں کو غلیل کے بجائے میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی سے مسلح کرنے کا سہرا قدس فورس کے شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو جاتا ہے، جنہوں نے حزب اللہ کے ساتھ ملکر اسلامی جہاد اور حماس کی بہترین فوجی تربیت کا انتظام کیا اور مقبوضہ فلسطین کے اندر مجاہدین کے لئے جدید دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کی، آج حماس، حزب اللہ کی طرح داخلی سطح پر چھوٹے میزائل اور ڈرون بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فلسطینیوں کو یہاں تک پہنچانے کے لئے ایران نے اب تک بڑی قیمت چکائی ہے۔
ایران خوب جانتا ہے کہ اس کے تمام مسائل کی جڑ ہی فلسطینوں کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ اس کی دشمنی ہے۔ اگر وہ بھی عرب ممالک کی طرح مسئلہ فلسطین سے دستبردار ہوکر اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو نہ صرف ایران کا اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تنازع ختم ہو جائے گا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایران ایک قابل قبول ملک بن جائے گا۔ بنیادی طور پر ایران گیس اور تیل کے ذخائز سے مالا مال ایک امیر ملک ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے یہ دنیا میں روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اوپیک کے اعداد و شمار کے مطابق خام تیل کے ذخائر کے لحاظ سے ایران کے پاس دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ مسئلہ فلسطین سے دستبرداری کی صورت میں سعودی عرب، کویت اور امارات کی طرح ایران بھی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تجارت کرسکتا ہے، جس کی کئی بار اسے پیش کش ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چند سالوں میں ایران ان تمام ممالک اور یورپ کے اکثر ممالک سے زیادہ امیر ملک بن جائے گا، جس کے پاس پہلے سے ہی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، جس میں خطے کا کوئی دوسرا ملک اس کے برابر نہیں ہے۔
تمام پابندیوں کے باوجود ایران اسکوپس رینکنگ میں 15ویں اور سائنس ویب میں 16ویں پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایران تمام 57 اسلامی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر،نینو ٹیکنالوجی میں 15ویں، بائیو ٹیکنالوجی میں14ویں، ایرو اسپیس انجینئرنگ میں 13ویں، میڈیکل سائنس میں 14ویں، کیمسٹری میں 9 ویں نمبر پر ہے، جبکہ کئی شعبوں میں سرفہرست دس ممالک میں شامل ہے، جن میں جوہری ٹیکنالوجی، اسٹیم سیل (خلیہ) کی کاشت، گردے کی پیوند کاری اور آنکھوں کی بیماریوں کا علاج شامل ہے۔ ایران نے اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے آسان راستے کو چھوڑ کر مشکل ترین راستے کا انتخاب کیا ہے، کیونکہ کوئی بھی مشکل راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ درحقیقت اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی نے امیرالمومنین علی (ع) کی اس وصیت کو اسلامی جمہوریہ کی بنیاد سمجھا، جس میں امام نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا :کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ہمدرد اور مددگار رہو۔"
عصر حاضر میں مغرب کی سائنسی اور معاشی ترقی نے تیسری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہم فکری طور پر مغرب سے مرعوب ہیں۔ مغربی طاقتوں کا عالم اسلام میں ایک عجیب خوف ہے۔ یہ خوف دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ امام خمینی نے اسلام کی سیاسی نشاۃ ثانیہ کے لیے اس خوف کو توڑنا ضروری سمجھا۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب اتحاد کی شکست کے بعد جب تمام مسلمان خوف زدہ تھے اور یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنی بقاء کی کوشش کر رہے تھے، اس وقت امام خمینی نے فرمایا تھا کہ اگر تمام عالم اسلام ملکر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر انڈیل دے تو یہ جعلی ریاست غرق ہو جائے گی۔ امام خمینی کے ان افکار کی وجہ سے اسرائیل، امریکہ اور خلیج کے مسلمان بادشاہوں نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا زہر کھولنا شروع کر دیا، کیونکہ امام خمینی کی سیاسی فکر ان تینوں طبقوں کے لیے یکساں خطرناک تھی۔ ایک خاص حکمت عملی اور عالمی ایجنڈے کے تحت انہوں نے مسلمانوں میں ایک مخصوص مذہبی سوچ کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ یہ منصوبہ عرب بادشاہوں کی دولت، امریکہ و اسرائیل کی حکمت عملی اور بعض مسلم سربراہان مملکت کی سادگی کی وجہ سے کامیاب ہوا، جس نے مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہوگئے، جو ہنوز جاری ہے۔
حماس اور حزب اللہ دو ایسی تنظیمیں ہیں، جو امام خمینی کی منطق اور فکر سے متاثر ہیں۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو ایران اپنے بڑے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب نظر آتا ہے۔ نصف صدی سے وہ اپنے اصولوں پر عمل پیرا ہے، اس راہ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، لیکن آج وہ پوری دنیا کے مقابلے میں نہ صرف کھڑا ہے، بلکہ لبنان کی حزب اللہ، فلسطین کی حماس، اسلامی جہاد، یمن کے انصار اللہ سمیت کئی ایسی تنظیموں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ قابل شکست ہیں اور ہم ان کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔ حزب اللہ جیسی چھوٹی تنظیم نے سنہ 2000ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان چھوڑنے پر مجبور کیا، پھر 2006ء کی 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ سے اسرائیل کی گرفت توڑ دی۔ یہ وہ کارنامے ہیں، جو تمام عرب ممالک ملکر نہیں کرسکے تھے۔ بحیثیت ریاست ایران کو اسرائیل اور امریکا کی فوجی طاقت اور کمزوریوں کا خوب اندازہ ہے۔ سو ایران نے شعوری طور پر حملہ کیا ہے، ایران اس حملے کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہے، لیکن ایران کا اگلا قدم اس سے زیادہ تباہ کن ہوگا، جس کا اظہار سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا، جب یہ لوگ قتل کرکے چلے جاتے تھے۔ اب یہ ایک مارے گا تو دس کھانا پڑیں گی۔
اس حملے نے نہ صرف اسرائیلی فوج کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے اور اس کے دفاعی نظام کو خاک میں ملا دیا بلکہ صرف 7 منٹ میں سینکڑوں میزائلوں نے آئرن ڈوم سمیت دنیا کے بہترین دفاعی نظام کو چکما دے کر مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنایا، جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اپنے تمام اتحادیوں کی مدد کے باوجود اسرائیل اور امریکا 90 فیصد میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ جہاں تک ہلاکتوں کا تعلق ہے تو یہ ایران کی حکمت عملی کے مطابق ہے۔ ایران جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتا اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف رائے عامہ کو دوبارہ تبدیل کرنا چاہتا ہے، انسانی ہلاکتیں گویا نیتن یاہو کی مدد کرنے کے مترادف ہے، ورنہ وہی میزائل جو اسرائیل کے اندر ہزاروں بلند و بالا عمارتوں کے اوپر سے گز ر کر تل ابیب پہنچے تھے، کافی تھا صرف ایک میزائل سے ایک بڑی عمارت کو نشانہ بنایا جاتا۔
ایران اس مرحلے میں صرف چند تنصیبات کو نشانہ بناکر اپنی طاقت کا مظاہر چاہتا تھا، جس میں کامیاب رہا ہے۔ اگر جنگ بڑھی تو اگلے مرحلے میں انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا جائے گا تو انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہو جائے گا۔ جی ہاں! جن لوگوں کے دلوں میں آج بھی امریکہ، اسرائیل اور یورپ کا خوف ہے، وہ یقیناً عربوں کی طرح ہمیشہ نفسیاتی دباؤ میں رہیں گے، لیکن ایران نے اسرائیل کی ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔ Stimson Institute کے عالمی سلامتی کے محقق اور نیٹو کے اسلحہ کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ولیم البرک نے اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے ایک ایسا حملہ کیا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1164153