سید حسن نصراللہ کی شہادت اور ایران کی مشکلات
29 Sep 2024 18:39
اسلام ٹائمز: ایران بین الاقوامی قوتوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے کن اقدامات کی بنیاد پر ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا اور پابندیاں مسلط کی گئیں۔ صرف اس لئے کہ امریکی نظام کی غلام رضا شاہ پہلوی کی ظالمانہ بادشاہت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا؟ اب ایرانی کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے خلاف پابندیاں واپس لیں، پھر بات ہوگی۔ ایران یہ بھی پوچھتا ہے کہ اسرائیل نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہماری سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شہید کیا۔ شام میں ہمارے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا، ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کیا گیا۔ کیا یہ سارے اقدامات سفارتی آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے نہیں کئے گئے۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
فلسطین کی آزادی کی جنگ میں قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ حماس کے پشتیبان، ایران کے بازو حزب اللہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید حسن نصراللہ کی شہادت یقیناً مزاحمتی اسلامی تحریک کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ قاسم سلیمانی اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت غیر متوقع نہیں تھی۔ جس انداز سے اللہ کی اس جماعت نے اسرائیل کا جینا دوبھر کر دیا تھا، طاقت کے نشے میں مدہوش غاصب ریاست کے دفاعی نظام کو توڑنے والے کی شہادت تو ہونا ہی تھی۔ قانون قدرت ہے کہ ہر کسی کو اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ مگر بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ کر مرنا ہے یا شہادت کا راستہ اختیار کرنا ہے، کئی معروف لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو نظر آجائے گا کہ بنت رسول فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کے اس فرزند نے شہادت کا راستہ اختیار کیا۔ دفاعی اور عالمی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل، لبنان اور غزہ میں جنگ مزید تیز ہوگی، جو عالمی جنگ کا نقشہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
1960ء میں بیروت کے نواحی قصبے میں پیدا ہونیوالے مجاہد عالم دین حسن نصراللہ کو سید محمد عباس موسوی کی 1992ء میں اسرائیل کے ہیلی کاپٹر حملے میں شہادت کے بعد حزب اللہ کا سربراہ بنایا گیا اور زندگی بھر انہوں نے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک 1980ء میں تشکیل پائی۔ اسرائیل کیخلاف شاید حماس کے بعد واحد مزاحمتی جماعت حزب اللہ ہی ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کا حکم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دیا۔ جہاں دنیا بھر کے رہنما موجود تھے۔ جنہوں نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کے دوران کئی ممالک کے وفود نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واک آوٹ کیا، جبکہ اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے عالمی رہنماوں سے خطاب میں امت مسلمہ کی بہترین ترجمانی کی اور واضح کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کیساتھ ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ اس حوالے سے سابق صدر جمہوری اسلامی آیت اللہ شہید ابراہیم رئیسی نے اسی سال مئی میں اپنی شہادت سے ایک ماہ پہلے پاکستان کا دورہ کرکے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کیا۔ اسی طرح ایران اور سعودی عرب نے اپنے سابقہ ادوار کی رنجشوں کو بھلا کر نئے سفارتی سفر کا آغاز کیا ہے۔ دونوں اطراف سے سعودی عرب اور ایران میں سفارتخانے بھی کھول دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح سے قطر کیساتھ بھی ایران نے اپنے تعلقات کو بہتر کر لیا ہے۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے عالمی ضمیر کو بھی جھنجوڑا اور سوال کیا کہ کوئی ہمیں بتائے کہ ایران نے کبھی کسی ہمسایہ ملک پر جارحیت کی یا اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی؟ ایرانی صدر نے میڈیا سے گفتگو میں بھی اپنی پوزیشن واضح کی کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ایٹمی معائنہ کاری (IAEA) نے ایرانی ایٹمی تنصیبات اور جوہری توانائی کے مراکز پر کیمرے نصب کر رکھے ہیں، جن کی اطلاعات اور فوٹیج ہمہ وقت انہیں ملتی رہتی ہے اور وہ دنیا کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے دنیا کو یہ بھی یاد دلایا کہ امریکہ کیساتھ تعلقات پر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ختم کیا تو ایران نے بھی عملداری سے انکار کیا۔
ایرانی صدر نے شکوہ کیا کہ امریکہ کے کہنے پر یورپی ممالک نے ایران پر مزید پابندیاں سخت کیں، جس سے ملت اسلامیہ ایران کے مظلوم عوام کو ادویات اور دوسری اشیاء ضروریہ کی قلت ہوئی، لیکن قوم اپنے لیڈروں کی احکامات پر متفق ہوئی۔ اس کڑے دور سے بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی جدوجہد کے نتیجے میں ایران کے نظام آمریت کو ختم کرکے اسلام اور قرآن کی روشنی میں جمہوری نظام پر اتفاق ہوا تو ملکی نظام میں ایک تبدیلی نظر آنا شروع ہوئی، لیکن انقلاب کی ابتدا میں ہی ایران عراق جنگ شروع ہوگئی۔ عراق کو اُکسایا گیا، جس نے ایران پر حملہ کر دیا۔ آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں ایرانی شہید ہوئے اور بہت ساری املاک کو نقصان پہنچا۔ یہ سب کچھ امریکہ اور یورپی ممالک کے ایماء پر عراقی صدر صدام حسین نے کیا۔ امریکہ کے ہمنوا عرب ممالک نے بھی عراق کی مدد کی۔ اس وقت تو ایران نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا تھا جبکہ وہ اپنی دفاعی جنگ عالمی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جذبہ شہادت کو سینے سے لگائے لڑی اور اللہ کے فضل و کرم سے ایرانی عوام نے یکجہتی اور یکسوئی سے عالمی سازشوں اور تخریب کاری کا مقابلہ کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دن بدن ترقی کر رہا ہے۔
ایران بین الاقوامی قوتوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے کن اقدامات کی بنیاد پر ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا اور پابندیاں مسلط کی گئیں۔ صرف اس لئے کہ امریکی نظام کی غلام رضا شاہ پہلوی کی ظالمانہ بادشاہت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا؟ اب ایرانی کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے خلاف پابندیاں واپس لیں، پھر بات ہوگی۔ ایران یہ بھی پوچھتا ہے کہ اسرائیل نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہماری سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شہید کیا۔ شام میں ہمارے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا، ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کیا گیا۔ کیا یہ سارے اقدامات سفارتی آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے نہیں کئے گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی صدر کی مختلف عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں سفارتی تعلقات میں بہتری لائیں گی۔ ایران چاہتا ہے کہ امریکہ اس سے تعلقات بنانے سے پہلے اپنی خباثتوں پر معافی مانگے۔ اسرائیل کی مذمت کرنے کی بجائے امریکہ نے غاصب صیہونی ریاست کی سرپرستی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، ہم ایسے مظالم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس وقت ایران دنیا بھر کے مزاحمتی تحریکوں کا مرکز ہے اور امریکہ اور اس کے حواریوں کا مخالف ہے۔ یہ غلط نہیں ہوگا کہ ایران بہت بڑی اسلامی دفاعی قوت بن چکا ہے، جو امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک برطانیہ فرانس جرمنی کے مقابلے میں مظلوموں کی حمایت میں میدان میں ہے۔
خبر کا کوڈ: 1163244