برطانوی خواتین اور جنسی حملے
25 Sep 2024 12:45
اسلام ٹائمز: ماہر عمرانیات ڈاکٹر جیمز ہارپر کا خیال ہے کہ پولیس کی کارکردگی خراب ہے اور انکا کہنا ہے کہ ’’کچھ کیسز میں خود پولیس افسران پر خواتین کی عصمت دری اور بدسلوکی کا الزام لگایا جاتا ہے۔‘‘ خواتین کی امدادی تنظیم کا خیال ہے کہ جنسی ہراسانی کو کم کرنے کیلئے ضروری حل میں سے ایک "عدالتی نظام اور پولیس کے نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلیاں" ہیں۔ ان تبدیلیوں میں خصوصی تربیت، معاون پروٹوکول قائم کرنا، اور عوامی بیداری میں اضافہ شامل ہوسکتا ہے۔
تحریر: زینب ناد علی
ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور حتی عوامی مقامات میں برطانوی خواتین کی جنسی ہراسمینٹ اور عصمت دری اب روزمرہ کا معمول بنتی جا رہی ہے، تاہم ان میں سے بہت سی شکایات حمایت کی کمی کے خوف سے پولیس کو رپورٹ نہیں کی جاتی ہیں۔ "میں دوبارہ اسپتال میں داخل ہونے سے خوفزدہ ہوں۔" ڈیلی میل اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پولین بریور نے یہ کہا ہے۔ پولین ایک 77 سالہ بوڑھی عورت ہے، جسے برطانوی ہسپتال میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ لندن پولیس نے اتوار کے روز عصمت دری کے متاثرین کی تعداد کے بارے میں نئے اعداد و شمار کا اعلان کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پولیس کو 8,800 سے زیادہ ریپ کیسز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ لندن میں پولیس کو ہر گھنٹے میں ریپ کا ایک نیا کیس رپورٹ کیا جاتا ہے۔
یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں، جب لندن میں سماجی بحران کے مرکز کا کہنا ہے کہ "متاثرہ چھ خواتین میں سے صرف ایک اس کی اطلاع دیتی ہے۔" حالیہ برسوں میں، لندن میں جنسی حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ دہائی کے مقابلے میں، پولیس کو اس جرم کے بارے میں دی جانے والی رپورٹس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ میں ہر چار میں سے ایک بالغ عورت کے ساتھ جنسی زیادتی یا سیکسول ہراسمنٹ ہوئی ہے اور ہر 10 میں سے 9 لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ برطانوی پولیس حکام نے اندازہ لگایا ہے کہ اس ملک میں ہر سال 20 لاکھ خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ انگلینڈ میں زیادہ تر تشدد اور جنسی حملوں کے واقعات عوامی مقامات پر ہوئے ہیں۔
وومن ایڈ کی تحقیق، جو گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا شکار خواتین اور بچوں کی مدد کرتی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ بہت سی متاثرہ خواتین کا ماننا ہے کہ پولیس ان کی بات نہیں سنتی یا ان کی شکایات کو نظر انداز کرتی ہے۔ کچھ مطالعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پولیس کو رپورٹ کیے گئے مقدمات میں سے صرف 10-15% ہی عدالت تک پہنچتے ہیں۔ انگلش ماہر عمرانیات ڈاکٹر کیتھرین رائٹ کا خیال ہے کہ پولیس نے بہت سے معاملات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور صورتحال کو بہتر بنانے، عصمت دری اور جنسی تشدد کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کافی کوششیں کی ہیں۔"
لیکن دوسری جانب ماہر عمرانیات ڈاکٹر جیمز ہارپر کا خیال ہے کہ پولیس کی کارکردگی خراب ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’’کچھ کیسز میں خود پولیس افسران پر خواتین کی عصمت دری اور بدسلوکی کا الزام لگایا جاتا ہے۔‘‘ خواتین کی امدادی تنظیم کا خیال ہے کہ جنسی ہراسانی کو کم کرنے کے لیے ضروری حل میں سے ایک "عدالتی نظام اور پولیس کے نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلیاں" ہیں۔ ان تبدیلیوں میں خصوصی تربیت، معاون پروٹوکول قائم کرنا، اور عوامی بیداری میں اضافہ شامل ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1162451