QR CodeQR Code

جنگ لبنان تک پہنچ گئی

25 Sep 2024 10:36

اسلام ٹائمز: غربِ اردن میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ غزہ میں تقریباً ایک سال بعد بھی جنگ جاری ہے۔ حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ وہ حماس سے کہیں بہتر مسلح اور تربیت یافتہ ہیں۔ اسکے علاوہ حزب اللہ کئی برسوں تک شام میں صدر اسد کیلئے لڑتی رہی ہے تو انھیں لڑائی کا بھی کافی تجربہ ہے۔ غزہ بنیادی طور پر ایک نرم ریتلا علاقہ ہے، جہاں حماس کے پاس سرنگوں کا ایک جال ہے، لیکن یہ سرنگیں ریت سے تراشی گئی ہیں۔ دوسری جانب جنوبی لبنان کا علاقہ پتھریلہ اور پہاڑی ہے، جہاں حزب اللہ کے پاس بھی سرنگوں کے نیٹ ورک ہیں، جو کہ چٹانوں کو تراش کر بنائے گئے ہیں۔


تحریر: سید اسد عباس

لبنان کی سرحد پر جنگ 8 اکتوبر 2023ء سے جاری ہے، یہ وہ دن تھا، جب اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء کی حماس کی کارروائی کا جواب غزہ پر فضائی حملوں کے ذریعے دیا۔ حزب اللہ لبنان نے غزہ پر حملے کے جواب میں اسرائیل کے شمالی علاقوں پر حملوں کا آغاز کر دیا۔ اسرائیل بھی لبنان کے جنوب میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کرتا رہا، تاہم یہ کارروائیاں اس نوعیت کی نہ تھیں کہ جسے ایک بڑی جنگ قرار دیا جاسکے۔ دونوں قوتیں اس کوشش میں رہیں کہ مخالف کو انگیج رکھا جائے۔ حزب کا مقصد اسرائیل کی توجہ غزہ پر سے ہٹانا تھا جبکہ اسرائیل کا ہدف حزب اللہ کو چھوٹے حملوں تک محدود رکھنا تھا۔ اے سی ایل اے ڈی نامی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک برس میں اسرائیل اور حزب نیز دیگر مزاحمتی گروہوں کے مابین تقریباً دس ہزار حملوں کا تبادلہ ہوا، جس میں سے تقریباً آٹھ ہزار حملے اسرائیل نے کیے۔ ان حملوں کے دوران کل 678 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے 32 اسرائیلی اور 646 لبنانی شہری اور مزاحمتی اراکین شامل ہیں۔

گذشتہ ایک برس کی یک طرفہ جارحیت کے دوران میں اسرائیل نے غزہ کا شمال سے جنوب تک صفایا کیا۔ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی کو پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور کر دیا۔ ان کے سکول، ہسپتال، تجارتی مراکز، رہائشی مکانات، زرعی اراضی، مواصلات کا نظام، ماہی گیری کا نظام غرضیکہ انسانی زندگی کے بنیادی ترین وسائل کو برباد کرکے رکھ دیا۔ گذشتہ تحریر میں، راقم نے غزہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ایک تخمینہ احباب کے سامنے پیش کیا تھا۔ الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت غزہ میں آدھے سے زیادہ مکانات تباہ ہوچکے ہیں، باقی بچ جانے والوں میں سے اکثر قابل رہائش نہیں، 80 فیصد تجارتی مراکز تباہ ہوگئے ہیں۔ 85 فیصد اسکولوں کی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں، 36 میں سے فقط 17 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، جہاں ادویات کی شدید قلت ہے۔ تقریباً 65 فیصد شاہراہوں کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح 65 فیصد زرعی رقبہ بھی ملیا میٹ ہوگیا ہے۔ غزہ میں بجلی اور انٹرنیٹ، پینے کے صاف پانی تک دسترس نہیں ہے۔ 23 لاکھ کی آبادی کے پاس جانے کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں بچا۔ الجزیرہ نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق ہر گھنٹے میں اندازاً پندرہ شہری شہید ہو رہے ہیں، جس میں سے چھے بچے ہیں۔ ہر گھنٹے میں 35 افراد زخمی ہوتے ہیں، ہر گھنٹے میں اوسطاً 42 بمب گرائے جاتے ہیں، ہر گھنٹے میں تقریباً 12 عمارتیں تباہ ہوتی ہیں۔ ابھی غزہ پر حملے کو ایک برس مکمل ہونے میں چند روز باقی ہیں کہ 8 اکتوبر کی سطح کا ایک حملہ لبنان اور حزب کے خلاف بھی شروع ہوچکا ہے۔ صہیونی خبر رساں اداروں کے مطابق اس آپریشن کا نام " نارتھ ایروز" رکھا گیا ہے۔ جس سے مراد ہے شمال کے تیر، اس نام سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل کا لبنان کی سرزمین پر فوجی اتارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ وہ فضائی اور میزائل حملوں کے ذریعے حزب اللہ کی قوت کو  توڑنے کی کوشش کرے گا۔

اسرائیل نے ایک منصوبہ بندی کے تحت گذشتہ ایک برس میں حزب اللہ کے بہت سے اہم اراکین کو ڈرون اور میزائل حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا، یہاں تک کہ فروری 2024ء میں حزب اللہ کے سربراہ کو ایک خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ آپ کے ہاتھوں میں موجود الیکڑانک آلات جاسوسی کا کام کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے کمانڈرز اور اہم عہدیداروں کو رابطے کے لیے پیجر ز دے دیئے گئے، تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔ اس کے باوجود حزب اللہ کے بانی اراکین اور اہم ترین کمانڈر اسرائیلی کارروائیوں میں نشانہ بنے، جن میں فواد شکر، ابراہیم عقیل، محمد ناصر، طالب عبداللہ اور دیگر سینیئر اراکین کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ابھی گذشتہ دنوں اسرائیل نے سائبر دہشت گردی کی سب سے بڑی کارروائی انجام دی، جس میں تین ہزار کے قریب پیجرز کو استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں میں پھاڑ دیا گیا۔ اگلے ہی روز کئی ایک واکی ٹاکی دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں تین ہزار کے قریب افراد زخمی ہوئے، جن میں سے دو سو کے قریب شدید زخمی تھے جبکہ دو درجن کے قریب افراد شہید ہوئے، جن میں کچھ بچے بھی شامل ہیں۔

پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد ابراہیم عقیل کا قتل حزب اللہ کے لیے ناقابل برداشت تھا، جس کے جواب میں حزب اللہ نے اسرائیل کے شہروں پر میزائل حملوں کا آغاز کر دیا۔ حزب اللہ کے متعدد میزائل حیفا اور دیگر علاقوں میں گرے۔ ان میزائل حملوں کے جواب میں کل یعنی 23 ستمبر 2024ء کو اسرائیل نے لبنان پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا، جس کے نتیجے میں اب تک تقریباً 585 شہری شہید ہوچکے ہیں جبکہ تقریباً دو ہزار کے قریب شہری زخمی ہیں۔ لبنان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد شمال کی جانب جا رہی ہے۔ لبنان کی حکومت نے پناہ گزینوں کو وقتی طور پر آباد کرنے کے لیے سکولوں کو پناہ گزین کیمپوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

غزہ میں جنگی جرائم کے مرتکب بنیامن نیتن یاہو نے کل ایک خطاب میں واضح طور پر کہا کہ اسرائیل نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ شمالی سرحد پر طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو نے جنوبی لبنان کے عوام سے کہا کہ خود کو نقصان کے مقام سے دور کر لیں، ہم لبنانی عوام کے نہیں حزب اللہ کے دشمن ہیں، ہم اسے ختم کریں گے، اس کے بعد آپ واپس آجائیے گا۔ اسرائیلی وزیر دفاع اور انسانی تاریخ کے ایک اور جنگی مجرم یوو گیلنٹ نے ان حملوں کو ایک "شاہکار" قرار دیا، تاہم دیکھا جائے تو اسرائیل نے ایک بہت بڑا جوا کھیلا ہے۔ اگر لبنانی قوم مزاحمت جاری رکھتی ہے، جس کا سو فیصد امکان ہے تو اسرائیل کو اپنی افواج کو لبنان اتارنا پڑے گا۔اسرائیلی فوج کا ایک بڑا حصہ ریزروسٹ پر مشتمل ہے۔ ان کی جانب سے کافی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہ تھک رہے ہیں۔

غربِ اردن میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ غزہ میں تقریباً ایک سال بعد بھی جنگ جاری ہے۔ حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ وہ حماس سے کہیں بہتر مسلح اور تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کئی برسوں تک شام میں صدر اسد کے لیے لڑتی رہی ہے تو انھیں لڑائی کا بھی کافی تجربہ ہے۔ غزہ بنیادی طور پر ایک نرم ریتلا علاقہ ہے، جہاں حماس کے پاس سرنگوں کا ایک جال ہے، لیکن یہ سرنگیں ریت سے تراشی گئی ہیں۔ دوسری جانب جنوبی لبنان کا علاقہ پتھریلہ اور پہاڑی ہے، جہاں حزب اللہ کے پاس بھی سرنگوں کے نیٹ ورک ہیں، جو کہ چٹانوں کو تراش کر بنائے گئے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1162358

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1162358/جنگ-لبنان-تک-پہنچ-گئی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com