وقف ترمیمی بل پر مودی حکومت کا منصوبہ اور مسلمانوں کے خدشات
25 Sep 2024 20:31
اسلام ٹائمز: مسلم تنظیموں کے قائدین کا کہنا ہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ میں موجود التزامات کو درکنار کرتے ہوئے مندروں میں آج بھی موروثی نظام چل رہا ہے، اسکے باوجود مودی حکومت اس میں ترمیم کی بات نہیں کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ فی الوقت ملک بھر میں وقف بورڈز کی ملکیت میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ بھارت میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔
رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت کے پارلیمنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں مودی حکومت نے 8 اگست کو ایوان میں ’’وقف ترمیمی بل 2024‘‘ پیش کیا۔ شدید مخالفت کے بعد مودی حکومت نے اس بل کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے کر دیا۔ فی الوقت ملک بھر میں اس بل کی جنگی پیمانے پر مخالفت جاری ہے۔ مسلم تنظیمیں، علماء دین اور تمام ملی قائدین میٹنگز، پروگرامز، احتجاج، پریس کانفرنس اور مساجد و مدارس سمیت تمام ذرائع و طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ’کیو آر کوڈ‘ بھی جاری کیا تھا اور اسے جگہ جگہ چسپاں کر کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی تھی کہ وہ اس بل کے خلاف اپنی تجاویز مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کریں۔ بھارت بھر میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی اور ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں نے’ جے پی سی‘ کو 6 کروڑ ای میل بھیج کر اپنا احتجاج درج کیا ہے۔ مسلمانوں کی سرگرمی اور مخالفت کو دیکھتے ہوئے ہندوتو تنظیموں نے وقف بل کی حمایت کی حالانکہ اس بل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر حد درجہ مسلمانوں سے بیر اور نفرت کا نتیجہ ہے کہ وہ اس بل کی حمایت میں سرگرم ہیں۔
وقف ترمیمی بل سے مودی حکومت کے مقاصد:
مسلم تنظیموں، ملی قائدین اور علماء کرام کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مودی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے جن کی مدد سے وہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی وقف املاک کو ہڑپ کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو تباہ کر سکتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ اس سے مودی حکومت کو زیادہ اختیارات مل جائیں گے۔ وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک بیان میں سوال اٹھایا کہ کلکٹر وقف املاک کا جج کیسے ہو سکتا ہے، اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بل کے ذریعہ حکومت مسلمانوں سے وقف املاک چھیننا چاہتی ہے۔ اس بل کے تعلق سے حکومت کی منشا شہری امور کی مرکزی وزارت کے بیان سے بھی واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ بھارت کی مرکزی وزارت نے اس ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں قانونی لڑائیوں اور عدالتی کیسز میں کمی واقع ہوگی۔ وزارت نے کہا کہ 1970ء اور 1977ء کے بیچ وقف بورڈ نے نئی دہلی میں 138 جائیدادوں کو اپنا بتاتے ہوئے عدالتوں میں دعوے کئے، جس کی بنیاد پر طویل قانونی لڑائیاں چلیں۔
پارلیمانی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے 8 اگست کو پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وقف بورڈ پر مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے اور یہ بل عام لوگوں کے مفاد میں بل لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ 2024ء میں اچانک یہ بل لے آئے بلکہ اس پر ہم نے کئی مرحلوں میں مشاورت کی۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ ہم نے ’’احمدیہ، بوہرہ، آغاخانی، شیعہ، سنی، سبھی ریاستوں کے وقف بورڈ کے چیئرمین وغیرہ سے بات کی، ان سب کی طرف سے سفارشات آئیں کہ وقف میں اصلاح کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقف املاک کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے زور دیا کہ وقف بورڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے، میوٹیشن ریونیو کو ریکارڈ کیا جائے۔ اسی کے ساتھ کرن رجیجو نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعد جتنے بھی ہندو اور مسلمانوں نے بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کی، ان سب کی وہاں جائیدادیں تھیں، مگر پاکستان کی حکومت نے ہندوؤں کی جائیداد چھین لی لیکن بھارت سے جانے والے مسلمانوں نے ان املاک کو وقف کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف املاک سے عورتوں اور غریبوں کو فائدہ نہیں ملتا ہے تو کیا حکومت خاموش بیٹھی رہے گی، لہٰذا لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ایوان کی ذمہ داری ہے۔
وقف ترمیمی بل کے سیاسی محرکات:
مودی کی قیادت والی ’این ڈی اے‘ حکومت یہ بل ایک ایسے وقت میں لے کر آئی جب گزشتہ چند مہینوں قبل ہوئی پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بھی واضح ہے کہ بی جے پی کو پوری طرح معلوم تھا کہ اس بل کو مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے وقت میں جب ہریانہ اور جموں و کشمیر میں انتخابات ہو رہے ہیں، اس بل کی مدد سے مسلمانوں کو مشتعل کر کے ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور ہریانہ اور جموں خطے کے انتخابات پر اس ہنگامے کے اثر انداز ہونے کا خدشہ ہے۔ بی جے پی اس بات سے بھی با خبر رہی ہوگی کہ جے ڈی یو اور تیلگو دیشم سمیت دیگر این ڈی اے کی حلیف پارٹیاں مسلمانوں اور بی جے پی حکومت کے موقف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں پس و پیش اور مشکل صورتحال کا شکار ہوجائیں گی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بی جے پی اس بل کو کیوں لائی، ممکنہ طور پر بی جے پی اپنی اتحادی پارٹیوں کی حمایت اور ان کی وابستگی کو جانچنا چاہتی ہو، نیز اس بل سے بی جے پی حکومت کے اختیارات میں جو اضافہ ہوگا وہ بات اپنی جگہ ہے۔
اس بل کے تعلق سے ملی قائدین اور مسلم رہنما یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اس کو قانون بنا کر مودی حکومت متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اسد الدین اویسی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ بی جے پی وقف اراضی کو چھیننا چاہتی ہے۔ ملی تنظیموں اور مسلم جماعتوں کے قائدین کے مطابق حکومت اس بل کے قانون بننے کی صورت میں مودی حکومت اس کے ذریعہ متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کے تعلق سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے مندر والے دعوؤں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ اس خدشے کے مطابق جن متنازع اراضی پر ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو مذہبی مقامات پر تعمیر کئے گئے ہیں، مودی حکومت مستقبل میں اس بل کو تنظیموں کے دعوؤں کی حمایت میں استعمال کر سکتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کیساتھ جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وقف ایکٹ میں تبدیلیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس سے وقف کو نقصان پہنچے گا اور وقف جس کمیٹی کی املاک ہے اس سے یہ جائیداد چھین لی جائے گی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ نئے بل میں وقف بائی یوز کے حوالے سے بھی مسلمانوں سے دستاویز مانگے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔
ہندو اوقاف بورڈ میں پھر ترمیم کیوں نہیں:
مسلم رہنماؤں کا سوال ہے کہ مودی حکومت آزادی کے بعد 1951ء میں بنے مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ کو چھوڑ کر صرف مسلم وقف بورڈ میں ہی ترمیم کیوں کرنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ 1951 میں کمشنر کی سربراہی میں ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف کا ایک محکمہ بنایا اور عہدیداروں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس محکمہ کو ہندو مندروں اور مٹھوں کے سیکولر امور کی نگرانی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس کے تحت موروثی ملازمین کے روایتی نظام کو ختم کر دیا گیا اور مختلف سطحوں پر اتھارٹی، فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنے والا ایک نیا ڈھانچہ لاگو کیا گیا۔ مسلم تنظیموں کے قائدین کا کہنا ہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ میں موجود التزامات کو درکنار کرتے ہوئے مندروں میں آج بھی موروثی نظام چل رہا ہے، اس کے باوجود مودی حکومت اس میں ترمیم کی بات نہیں کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ فی الوقت ملک بھر میں وقف بورڈز کی ملکیت میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ بھارت میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وقف املاک کی آمدنی، ان کا استعمال اور ان کی افادیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
خبر کا کوڈ: 1162354