لبنان میں پیچر اٹیک، حزب اللہ نہیں، ٹیکنالوجی پر حملہ
24 Sep 2024 13:15
اسلام ٹائمز: پیجر اور واکی ٹاکی سیٹس کے بلاسٹ ہونے کے بعد اب پوری ٹیکنالوجی کو ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کل تک جن ڈیوائسز کو محفوظ سمجھا جا رہا تھا، اب اسرائیل کے اس اقدام سے وہ ڈیوائسز مشکوک ہوچکی ہیں۔ لوگ اتنے خوفزدہ ہیں کہ اب اپنے موبائل فون سیٹس سے بھی ڈر رہے ہیں کہ کب یہ بھی ’’بم‘‘ میں تبدیل ہو جائیں۔ آئی ٹی کے کچھ ماہرین کے مطابق پیجرز کو ہیک کیا گیا اور اسکے نیٹ ورکنگ کی ہیکنگ کے بعد اس میں ایسا پاور فل وائرس چھوڑا گیا، جس نے پورے نیٹ ورک کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس میں صرف نیٹ ورک یا پیجر متاثر نہیں ہوئے بلکہ انکو استعمال کرنیوالے افراد ہی اصل ہدف تھے۔ جن میں لوگ جاں بحق بھی ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
گذشتہ ہفتے لبنان میں ایک عجیت و غریب حملہ کیا گیا، جس کی توقع بھی کسی کو نہیں تھی۔ پہلے مرحلے میں حزب اللہ اور دیگر لبنانی شہریوں کے زیراستعمال ’’پیجر‘‘ بلاسٹ کئے گئے۔ ان بلاسٹ ہونیوالے پیجرز سے متاثر ہونیوالوں میں حزب اللہ کے کارکنوں کے علاوہ عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسرائیلیوں کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس سے حزب اللہ کو وہ خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا سکا تو اس جارحیت کے دوسرے مرحلے پر عمل کیا گیا اور ’’واکی ٹاکی سیٹ‘‘ بلاسٹ کئے گئے۔ یہ پیجرز اور واکی ٹاکی سیٹ کیسے بلاسٹ ہوئے؟ یہ جارحیت کا نیا طریقہ کس طرح نکالا گیا۔ اس پر ماہرین کی بحث چل رہی ہے۔ پیجر بنانے والی کمپنی کا سراغ لگایا گیا۔ تائیوان میں کمپنی کے سربراہ سے بھی تفتیش کی گئی۔ کمپنی میں کس کس کے رابطے تھے، پیجرز کہاں سے چلے، کہاں سے ہوتے ہوئے لبنان پہنچے۔ اسرائیل نے کہاں مداخلت کی؟ کیسے پیجرز ’’بموں‘‘ میں تبدیل ہوئے؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اسرائیل نے جو کام دکھانا تھا، اس نے دکھا دیا۔
پیجر اور واکی ٹاکی سیٹس کے بلاسٹ ہونے کے بعد اب پوری ٹیکنالوجی کو ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کل تک جن ڈیوائسز کو محفوظ سمجھا جا رہا تھا، اب اسرائیل کے اس اقدام سے وہ ڈیوائسز مشکوک ہوچکی ہیں۔ لوگ اتنے خوفزدہ ہیں کہ اب اپنے موبائل فون سیٹس سے بھی ڈر رہے ہیں کہ کب یہ بھی ’’بم‘‘ میں تبدیل ہو جائیں۔ آئی ٹی کے کچھ ماہرین کے مطابق پیجرز کو ہیک کیا گیا اور اس کے نیٹ ورکنگ کی ہیکنگ کے بعد اس میں ایسا پاور فل وائرس چھوڑا گیا، جس نے پورے نیٹ ورک کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس میں صرف نیٹ ورک یا پیجر متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان کو استعمال کرنیوالے افراد ہی اصل ہدف تھے۔ جن میں لوگ جاں بحق بھی ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں لبنان میں تعینات ایران کے سفیر بھی تھے۔ جن کی ایک آنکھ متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیل نے اس حملے سے حزب اللہ کا تو اتنا نقصان نہیں کیا، لیکن ٹیکنالوجی کا شدید ترین نقصان ہوا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پیجرز کی مارکیٹ زیرو ہو جائے گی، لوگ پیجرز استعمال کرنا چھوڑ دیں گے۔
واکی ٹاکی کی جہاں تک بات ہے، تو وہ عام لوگ پہلے بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مخصوص فورسز اور تنظیموں کی پاس ہوتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد وہ فورسز اور تنظیمیں بھی محتاط ہوچکی ہیں۔ اسرائیلی حملے نے ٹیکنالوجی کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ لبنان میں پھٹنے والے پیجرز کے حوالے سے قیاس آرائیاں تھیں کہ ان کے نیٹ ورک میں چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو بلاسٹ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔ جب تک کوئی دھماکہ خیز مواد پیجر کے اندر نہ رکھا گیا ہو، یہ بلاسٹ نہیں ہوسکتا اور اگر بلاسٹ بھی ہو جائے تو اس سے اتنا نقصان نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان کی جان ہی چلی جائے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس انداز سے نقصان ہوا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس کا نشانہ حزب اللہ ہی تھی اور ان پیجرز کے لبنان پہنچنے سے پہلے ان میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ کہا گیا کہ یہ پیجرز جو بلاسٹ ہوئے ہیں، یہ تائیوان کی کمپنی ’’گولڈ اپولو‘‘ کے تیار کردہ تھے۔ اس کمپنی کے بانی سے جب میڈیا نے رابطہ کیا اور اس حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے اس معاملے میں کمپنی کے ملوث ہونے کی واضح اور کھلے انداز میں تردید کی۔
ہوچنگ خوانگ کا کہنا تھا کہ ان کے کمپنی کے پیجرز میں ایسا کوئی سسٹم نہیں کہ وہ بموں میں تبدیل ہو جائیں۔ انہوں نے اس کی بھی تردید کی کہ لبنان میں بلاسٹ ہونیوالے پیجرز ان کے کمپنی نے تیار نہیں کئے تھے۔ کمپنی کے بانی نے مزید کہا کہ لبنان میں بلاسٹ ہونیوالے پیجرز انہوں نے نہیں بلکہ ہنگری کی ایک کمپنی ’’بی اے سی کنسلٹنگ‘‘ نے بنائے ہیں۔ تین سال قبل انہوں نے اس کمپنی کو گولڈ اپولو کے پیجرز استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بی اے سی کنسلٹنگ کے معاملات مشکوک تھے۔ اس کمپنی کی بانی ایک خاتون ہیں۔ بی بی سی نے اس کمپنی بی اے سی(بیک) کا بھی کھوج لگایا۔ اس کمپنی کے دفتر کا جو پتہ دیا گیا تھا۔ اس پتے پر یہ کمپنی تھی ہی نہیں۔ ہنگری کے حکام کا کہنا ہے یہ فرم کلیئرنگ ایجنٹ کے طور رجسٹرڈ ہوئی تھی اور اس کمپنی نے 2022ء میں رجسٹریشن کروائی تھی۔ اس کی کوئی مینوفیکچرنگ کا سسٹم نہیں تھا۔
بی اے سی کی ویب سائٹ کے مطابق کرسٹیانا بارسونی اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ انہوں نے امریکی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو پیجر بناتے ہی نہیں۔ اس واقعہ کے بعد ہنگری کی حکومت اور ادارے بھی تحقیقات کر رہے ہیں اور جلد ہی حقائق سامنے آجائیں گے، پتہ چل جائے گا کہ کرسیٹایا موساد کی ایجنٹ ہے یا واقعی کوئی کاروباری شخصیت۔ اس خاتون کے حوالے سے جو معلومات سامنے آئی ہیں۔ وہ اٹلی میں پیدا ہوئی۔ اس کے پاس اٹلی اور ہنگری کی شہریت ہے۔ برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔ فرانس اور آسٹریا میں بھی کام کرچکی ہیں۔ کرسٹیانا کیساتھ کام کرنیوالے اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایک پراسرار شخصیت ہے۔ کبھی کہیں ہوتی ہے تو کبھی کہیں۔ وہ سات زبانوں پر عبور رکھتی ہے۔ بے اے سی کنسلٹنگ کی ویب سائٹ بھی پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات کے دو دن بعد بند کردی گئی تھی۔ جس کے بعد یہ شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ وہ یقیناً موساد کیلئے کام کر رہی ہوگی۔ اس سے موساد کا نیٹ ورک بھی بے نقاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اسرائیلی جارحیت بھی سامنے آئی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی بھی ڈیوائس محفوظ نہیں۔ دشمن کوئی بھی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1162049