کرم کی منطقہ گیر لڑائی کے اصل اسباب و وجوہات
24 Sep 2024 20:55
اسلام ٹائمز: حکومت میں کچھ اہلکاروں خصوصاً ڈی سی صاحب کی تو اہلیان بوشہرہ کیساتھ سپیشل دلچسپی ہے۔ انہی کی جانبدارانہ پالیسیوں نے اس خوبصورت علاقے کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ چنانچہ جب کوئی اثر نہیں ہوا، تو ان مورچوں پر لڑائی چھڑ گئی۔ تاہم شیعہ عمائدین انجمن اور تحریک حسینی کی کوششوں سے یہ لڑائی صرف 12 گھنٹے کے بعد مکمل طور پر تھم گئی، اس جھڑپ میں ایک شخص شیعوں کی جانب سے جان بحق ہوگیا۔ مگر اہلیان بوشہرہ کی اپیل پر لوئر کرم کے سنی قبائل اہلیان صدہ، خار کلی، ساتین، کوچی اور پیر قیوم نیز سنٹرل کرم کے ماسوزی، چمکنی اور دیگر چھ قبائل نے شیعہ نشین علاقے ایک چھوٹے سے گاؤں بالش خیل پر جنگ مسلط کردی، جس کی کل آبادی صرف 60 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اتنے چھوٹے گاؤں پر 3 لاکھ پر مشتمل اہل سنت آبادی نے جنگ مسلط کی۔
رپورٹ: ایس این حسینی
گذشتہ کئی دنوں سے کرم کا یہ خوبصورت خطہ ایک بار پھر آگ و خون کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ لڑائی مظلوم بوشہرہ سے کچھ اس طرح بھڑک اٹھی کہ بوشہرہ کے گاؤں مدگی کلی والے بغیر کسی وجہ کے مورچے بنا رہے تھے اور وہ بھی شیعہ گاؤں احمد زئی کی ملکیتی اور انتقالی زمینوں اور کھیتوں میں۔ جس پر احمد زئی نے انہیں خبردار کیا، بات نہیں مانی گئی تو وہ حکومت کے پاس شکایت لے گئے۔ حکومت میں کچھ بندوں خصوصاً ڈی سی صاحب کی تو اہلیان بوشہرہ کے ساتھ سپیشل دلچسپی ہے۔ انہی کی جانبدارانہ پالیسیوں نے اس خوبصورت علاقے کو جہنم بنایا ہوا ہے۔چنانچہ جب کوئی اثر نہیں ہوا، تو ان مورچوں پر لڑائی چھڑ گئی۔ تاہم شیعہ عمائدین انجمن اور تحریک حسینی کی کوششوں سے یہ لڑائی صرف 12 گھنٹے کے بعد مکمل طور پر تھم گئی، اس جھڑپ میں ایک شخص شیعوں کی جانب سے جان بحق ہوگیا۔
مگر اہلیان بوشہرہ کی اپیل پر لوئر کرم کے سنی قبائل اہلیان صدہ، خار کلی، ساتین، کوچی اور پیر قیوم نیز سنٹرل کرم کے ماسوزی، چمکنی اور دیگر چھ قبائل نے شیعہ نشین علاقے، ایک چھوٹے سے گاؤں بالش خیل پر جنگ مسلط کی، جس کی کل آبادی صرف 60 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اتنے چھوٹے گاؤں پر 3 لاکھ پر مشتمل اہل سنت آبادی نے جنگ مسلط کی۔ پہلی رات زوردار حملے کئے گئے۔ تاہم طوری بنگش قبائل نے بروقت کمک پر پہنچ کر انہیں پسپا کیا۔ دوسری رات بھرپور تیاری کے ساتھ طالبان اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے تعاون سے بالش خیل پر ایک بھرپور حملہ کیا گیا، جس میں طوریوں کے ایک فرد کے علاوہ طالبان نواز قبائل کے درجنوں افراد جان کھو بیٹھے اور حملہ پسپا ہوگیا۔
اگلے روز طوریوں نے جنگ کیلئے کمر کس لی اور صدہ پر بھاری ہتتھیاروں کے ساتھ گولہ باری شروع کر دی تو حکومت نے فوراً جرگہ بلا کر لڑائی روکوانے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم شیعوں کے کچھ مقامی عمائدین نے ان سے ایسے موقع پر جنگ بند کروانے کی وجہ پوچھتے ہوئے اسفسار کیا کہ جنگ کی ابتداء ہمیشہ اہلیان صدہ کی جانب سے ہوتی ہے، جس پر تمہارا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، جبکہ جنگ بندی ہمیشہ ہم سے کیوں کروائی جاتی ہے۔ اب وجہ بتائی جائے کہ اہلیان صدہ جنگ شروع کرنے کے اتنے شوقین ہیں تو جنگ بندی ہم سے کیوں چاہتے ہیں اور یہ کہ اس بات کا مستقل حل ڈھونڈا جائے کہ اس علاقے کے لوگ دیگر مناطق کی جنگیں ہمیشہ یہاں لانے کے شوقین کیوں ہیں۔
چنانچہ جنگ رک نہ سکی۔ اس دوران اہلیان صدہ نے اپر کرم کے اہل سنت قبائل سے شکایت کی کہ اگر اتوار 5 بجے تک صدہ پر لڑائی نہ روکی تو دیگر تمام قبائل چاروں اطراف سے لڑائی چھیڑ دیں۔ ورنہ آئندہ اہلیان صدہ کسی بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ چنانچہ اہلیان صدہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپر کرم کے علاقے تری منگل نے شام 6 بجے پیواڑ پر جبکہ رات کو گیارہ بجے غوز گڑھی کے مقبل قبیلے نے کنج علی زئی اور نستی کوٹ پر جنگ مسلط کر دی۔ یوں لڑائی مزید پھیل گئی۔ اس کے بعد دوبارہ جنگ بندی کی کوششیں تیزی کر دی گئیں تو اس مرتبہ اہل سنت قبائل نے اپر کرم میں اپنی حمایت دیکھ کر جنگ بندی سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے جنگ اب تک جاری ہے۔
خیال رہے کہ کرم میں لڑائی کی ابتداء ہمیشہ طالبان نواز افغان قبائل ہی کرتے ہیں۔ تاہم طوری بنگش قبائل کی طاقت کا پلڑا بھاری ہونے کیوجہ سے دوسرے روز ہی وہ جنگ رکوانے کیلئے حکومت اور امن جرگہ سے اپیلیں کرتے ہیں۔ اس وقت امن جرگہ کرم آپہنچا ہے۔ تاہم جب تک حکومت سنجیدہ نہ ہو، امن جرگہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ امن جرگہ کو بھی حکومت اپنی مرضی کرنے نہیں دیتی، بلکہ ان سے بھی اپنے اور یہاں کے جارح اور قابض قبائل کی مطالبات منوانے کی کوشش کرتی ہے۔پچھلے مرتبہ ایک جرگہ ممبر نے ڈی سی کرم کو ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے ایک شیعہ ڈاکٹر دوست کے ہمراہ وہ ایک اہم افسر کے پاس گئے۔ اس افسر نے شیعہ ڈاکٹر سے کہا کہ بیشک آپ ایک قابل اور فعال ڈاکٹر ہیں۔ تاہم آپکے 100 نمبر میں سے 50 شیعہ ہونے کی بنا پر پہلے ہی کٹ چکے ہیں۔
اب بقیہ پچاس نمبر میں سے آپ کو جتنے ملتے ہیں، وہ آپ کی قابلیت اور آپ کی قسمت پر منحصر ہے۔ پھر انہوں نے ڈی سی سے کہا کہ آپ لوگ تو شیعوں کے 50 نہیں بلکہ سو کے سو نمبر کاٹ دیتے ہیں۔ باوجودیکہ وہ حق بجانب ہیں، جبکہ جارح قبائل کو سو کے سو نمبر دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچاس نمبر کاٹو تو بھی بات بن سکتی ہے، مگر تم نے تو جانبداری کی وہ مثال قائم کی ہے کہ اہلیت کے حامل طوریوں کے ٹوٹل 100 نمبر آپ نالائق قبائل کو دینے پر تلے ہوئے ہیں، جو کہ کھلی ناانصافی ہے اور اتنی ناانصافی ہم نہیں کرسکتے۔
خبر کا کوڈ: 1161820