QR CodeQR Code

لبنان میں اسرائیل کے حالیہ جرائم اور امریکہ کا کردار

22 Sep 2024 07:10

اسلام ٹائمز: فی الحال ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت سینٹ کام کی مدد سے اسرائیلی پناہ گزینوں کی واپسی کے بہانے شمالی محاذ پر جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ دعویٰ جنگ شروع کرنے کے بہانے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ سید حسن نصر اللہ نے 19 ستمبر کو ایک پیغام میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ شمالی محاذ میں کشیدگی کے خاتمے کا واحد راستہ غزہ پٹی میں جنگ کو روکنا اور قابض فوج کو وہاں سے نکالنا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

17 اور 18 ستمبر کو حزب اللہ کے مواصلاتی نظام اور الیکٹرانک آلات کے خلاف موساد سروس کی تخریب کاری کی کارروائی کے بعد بیروت اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی کی سطح ایک بار پھر بڑھ گئی۔ صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ اقدامات کے بعد لبنان کی اسلامی مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لیمان بیس، الشومیرہ فوجی اڈے، معالیہ گولانی اڈے، 810 ویں بریگیڈ کے کمانڈ ہیڈ کوارٹر، المتلہ قصبے اور ایڈمٹ بیس کو نشانہ بنایا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے پورے لبنان میں 50 پوائنٹس پر حملہ کیا۔ اسی وقت جب جنوبی لبنان میں بڑے پیمانے پر جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے، امریکیوں نے ایک بار پھر ’’ثالث‘‘ کے طور پر پیش ہونے کی کوشش کی۔ انہوں نے تنازعہ کے فریقین سے کہا کہ وہ شمال کے بحران کو سفارتی ذرائع سے حل کریں۔ اس "انسان دوست" چہرے کے برعکس، امریکیوں کا گذشتہ سال کا ریکارڈ تل ابیب کی جنگی پالیسیوں اور صہیونی فوج کو ہتھیاروں کی بے حساب امداد کے ساتھ مکمل تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے واشنگٹن کو غزہ اور لبنان کے عوام کے قتل عام میں صیہونی حکومت کے قرینی ترین ساتھی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

فوجی حمایت سے لے کر ثالثی کی حکمت عملی تک
پچھلے ایک سال میں بائیڈن حکومت نے لبنان اسرائیل تنازعہ میں "ثالث" کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ واشنگٹن بظاہر خطے میں کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس عمل میں مشرق وسطیٰ کے امور میں وائٹ ہاؤس کے خصوصی مشیر اموس ہوچسٹین ثالثی کی آڑ میں صرف اسرائیلی فریق کے مطالبات کو بیروت منتقل کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد اور ایلیٹ رضوان فورسز کا دریائے لیطانی کے بالائی علاقوں تک انخلاء ہی صیہونی حکومت کا واحد مطالبہ ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں پناہ گزینوں کی ان کے گھروں کو واپس کریں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکی اب تک غزہ جنگ کے خاتمے اور جامع جنگ بندی کے اعلان کے مطالبات کو پورا نہیں کرسکے۔ تمام علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے لیے یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ حزب اللہ کی واحد خواہش غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور اس پٹی میں وسیع پیمانے پر نسل کشی کو روکنا ہے۔

سفارتی میڈیا کے میدان میں امریکہ خطے میں اپنے آپ کو ایک خیر خواہ اور امن پسند اداکار ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عملی طور پر اس نے مختلف پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ 18 اکتوبر 2023ء کو امریکی کانگریس نے اسرائیل کے لیے 14.3 بلین ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دی۔ اپریل 2024ء میں، ایران کے خطرے اور مزاحمت کے محور کے خلاف صیہونی حکومت کی مدد کرنے کے بہانے، دو اہم امریکی جماعتوں نے اسرائیل کی مدد کے لیے مزید 17 بلین ڈالر کے پیکج کو ووٹ دیا۔ واشنگٹن نے براہ راست مالی امداد کے علاوہ اہم فوجی سازوسامان بھی مقبوضہ فلسطین میں بھیجے ہیں۔

ان ہتھیاروں میں F-35 فائٹرز، F-15 بمبار طیارے، پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم اور مختلف گولہ بارود شامل ہیں۔ JDAM اور GBU گائیڈڈ بم، ہیل فائر میزائل، توپ خانے کے لیے 155 ایم ایم گولے، MQ-9 ریپر ڈرون، جیٹ فیول اور دیگر لاجسٹک اشیاء صیہونی حکومت کی مدد کے لیے دیگر برآمدات ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023ء سے مارچ 2024ء تک امریکا نے اسرائیل کو 100 سے زائد ہتھیاروں کی کھیپیں  بھیجی ہے۔ اسرائیلی فوج کو رفح پر حملہ نہ کرنے کی ضرورت کے حوالے سے بائیڈن کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس بنا پر بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کی انٹیلی جنس تکنیکی مدد کے بغیر صیہونی حکومت بنیادی طور پر لبنان کی حزب اللہ کو سخت سیکورٹی ضرب لگانے سے قاصر تھی۔

لبنان میں پیجرز اور وائرلیس مواصلات کے دھماکے کے ابتدائی گھنٹوں میں، کچھ سکیورٹی ماہرین نے موساد کو "GCHQ" اور "NSA" کی ممکنہ مدد کی اطلاع دی۔ اس آپریشن سے تقریباً 10 دن قبل سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے مقبوضہ فلسطین کا سفر کیا اور انہیں لبنانی حزب اللہ کے خلاف تازہ ترین آپریشنل منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس سے قبل صیہونی حکومت کی فوج کے دہشت گردانہ اقدامات جیسے شہید کمانڈر "عماد مغنیہ" کے قتل کے دوران موساد کے ساتھ امریکی سکیورٹی اداروں کا فعال تعاون بامعنی انداز میں سامنے آیا تھا۔ ’’سی آئی اے‘‘ تنظیم کے سابق ملازم ایڈورڈ اسنوڈن نے بھی دعویٰ کیا کہ آپریشنز کا یہ ماڈل ’’سی آئی اے‘‘ تنظیم کی خاص خصوصیات میں سے ہے۔

شمالی محاذ پر طاقت کا توازن بدلنا
گذشتہ 11 ماہ کے دوران شمالی محاذ میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے اور لبنان کی حزب اللہ مقبوضہ علاقوں میں معمولات زندگی کو درہم برہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 200,000 سے زیادہ صیہونیوں کی نقل مکانی کے علاوہ حزب اللہ کے حملوں سے ہونے والے مالی نقصانات کا اعلان 180 ملین ڈالر فی ہفتہ کیا گیا ہے۔ نیز غاصب صیہونی حکومت کے بہت سے اسٹریٹجک مراکز مثلاً مقبوضہ علاقوں کے شمال میں ایندھن کے ٹینک یا کیمیائی کارخانے لبنانی مزاحمتی حملوں کے خوف سے اپنے ذخائر خالی کرنے یا اپنی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس کشیدگی کی وجہ سے بہت سی امریکی کمپنیاں مقبوضہ علاقوں میں کام کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے قابل نہیں رہی ہیں۔ اس بنا پر، بائیڈن حکومت، جنگ کی بظاہر مخالفت اور سفارت کاری کے آپشن کی حمایت کے باوجود، درحقیقت درمیانی مدت میں حزب اللہ کے خطرے کو ختم کرنے کے مقصد سے جنگ کے دائرے کو شمالی محاذ تک نہيں پھیلانا چاہتی ہے، کیونکہ اگر مزاحمتی محاذ کا خطرہ موجود رہتا ہے تو امریکی بحر الکاہل کے علاقے میں چینیوں اور ان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

نتیجہ
اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر صیہونی حکومت کی غیر مشروط حمایت پر واشنگٹن میں دو اہم جماعتوں کا اتفاق مغربی ایشیائی خطے میں ایک قسم کے عدم توازن کا باعث بنا ہے۔ یہ جعلی حکومت، خطے کی واحد اداکار ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے اور مغرب کی "فوجی چھاؤنی" کے طور پر امریکہ کے خلاف جنگی اہداف کو  روکنے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔اس دوران امریکہ اور یورپی ممالک مقبوضہ علاقوں میں ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ناقابل تلافی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کے سامنے مغربی ممالک اب آزاد قومی ریاستوں کے خلاف "انسانی حقوق" کا آلہ استعمال نہیں کرسکتے۔ تمام بین الاقوامی میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس نے غزہ کی پٹی میں 41,000 سے زیادہ معصوم خواتین اور بچوں کے قتل کو دیکھا، جنہیں امریکی ہتھیاروں سے ذبح کیا گیا۔

اس فوجی-سکیورٹی اتحاد کے خلاف، بہترین اقدام یہ ہے کہ امریکہ دشمن تعلقات کو گہرا کیا جائے اور مزاحمتی نیٹ ورک کے اراکین کی "میدانوں کے اتحاد" کی پالیسی پر مبنی اسٹریٹجک طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت سینٹ کام کی مدد سے اسرائیلی پناہ گزینوں کی واپسی کے بہانے شمالی محاذ پر جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ دعویٰ جنگ شروع کرنے کے بہانے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ سید حسن نصر اللہ نے 19 ستمبر کو ایک پیغام میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ شمالی محاذ میں کشیدگی کے خاتمے کا واحد راستہ غزہ پٹی میں جنگ کو روکنا اور قابض فوج کو وہاں سے نکالنا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1161598

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1161598/لبنان-میں-اسرائیل-کے-حالیہ-جرائم-اور-امریکہ-کا-کردار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com