لبنان میں حالیہ حملے کیوں؟
22 Sep 2024 01:38
اسلام ٹائمز: 33 روزہ جنگ میں، صیہونی حکومت نے بیروت اور جنوبی محاذ کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کیلئے مزاحمت کے مواصلاتی نیٹ ورک کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ سیاسی اور پروپیگنڈہ فتح حاصل کرکے حزب اللہ کی جنگی تنظیم اور کیڈر کے ایک اہم حصے کی نشاندہی کرکے اسے عملی طور پر میدان جنگ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تشخیص حقیقت کے قریب تر ہے اور صہیونی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں جنگ کے ذریعے حزب اللہ کو روکنا چاہیئے۔ لیکن اس دوران تل ابیب کیلئے بڑا معمہ یہ ہے کہ تخریب کاری اور سکیورٹی کیخلاف جنگ کی صلاحیت کے باوجود مسلسل جنگ جاری رہنے کی وجہ سے عسکری میدان میں اسکی پوزیشن کمزور ہے۔
تحریر: علی واحدی
صیہونی حکومت کے حالیہ حملے پیر کے روز اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے دوران شمالی محاذ (لبنان کے ساتھ جنگ) پر کشیدگی میں اضافے کے حوالے سے ایک فیصلہ کے بعد سامنے آئے ہیں۔ موجودہ صورت حال کا جائزہ تین عوامل کو مدنظر رکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ کشیدگی میں یہ اضافہ اس وقت ہوا، جب امریکہ کی قیادت میں صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے، کیونکہ حماس نے واشنگٹن اور ثالثوں کے دباؤ کے باوجود اسرائیل کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقوں کے شمال میں آباد کاروں کی صورتحال کے حوالے سے اسرائیلی رائے عامہ کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے اور نیتن یاہو حکومت کو ان لوگوں کی واپسی کے لیے کچھ کرکے دکھانا ضروری ہے۔
یہ دباؤ اس قدر زیادہ ہیں کہ صیہونی حکومت کے جنگی وزیر یواف گیلانٹ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس جنگ میں جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایک طرف حکومت کی فوج 11 ماہ کی لڑائی سے پیدا ہونے والی تھکن کی وجہ سے پوری طرح تیار نہیں ہے اور غزہ کی لڑائی میں نہ صرف ان کی زمینی افواج کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ حکومت کی فضائیہ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ریڈار آلات پر حزب اللہ کے مسلسل حملوں سے اس کی کمزوری واضح ہوچکی ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال کا نتیجہ ہمیں دو منظرناموں کی طرف لے جاتا ہے۔ پہلے منظر نامے میں، صیہونی حکومت مزاحمت کی قوت فیصلہ سازی میں انتشار پیدا کرتے ہوئے (بڑے پیمانے پر شہری دہشت گردانہ حملے کے ذریعے) حزب اللہ کے مرکزی کیڈر کو ان حملوں کے ساتھ جنگ کے تسلسل سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، صیہونی حکومت کا مقصد جنوبی لبنانی محاذ اور غزہ کے محاذ کے درمیان رابطہ منقطع کرنا ہے، تاکہ حزب اللہ حماس کی حمایت بند کر دے۔ یہ منظر نامہ اسرائیلی حکومت کے لیے سازگار ہے، کیونکہ وہ حزب اللہ کی جنگی مشین کو جنگ کے بغیر روکنے کے اپنے اہداف حاصل کر لیتی ہے اور بنجمن نیتن یاہو کے الفاظ میں، "شمالی اسرائیل کے باشندوں کو بحفاظت ان کے گھروں کو لوٹا دیتی ہے۔"
دوسرے منظر نامے میں صیہونی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ حزب اللہ کے لیے حمایتی محاذ سے الگ ہونا ممکن نہیں ہے اور اس لیے جنگ ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے، جیسا کہ 33 روزہ جنگ میں، صیہونی حکومت نے بیروت اور جنوبی محاذ کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کے لیے مزاحمت کے مواصلاتی نیٹ ورک کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور پروپیگنڈہ فتح حاصل کرکے حزب اللہ کی جنگی تنظیم اور کیڈر کے ایک اہم حصے کی نشاندہی کرکے اسے عملی طور پر میدان جنگ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تشخیص حقیقت کے قریب تر ہے اور صہیونی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں جنگ کے ذریعے حزب اللہ کو روکنا چاہیئے۔ لیکن اس دوران تل ابیب کے لیے بڑا معمہ یہ ہے کہ تخریب کاری اور سکیورٹی کے خلاف جنگ کی صلاحیت کے باوجود مسلسل جنگ جاری رہنے کی وجہ سے عسکری میدان میں اس کی پوزیشن کمزور ہے۔
رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ہرٹزی ہولوے اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، کیونکہ انہیں اسرائیلی فوج کی افرادی قوت اور ہتھیاروں کے ذخائر کی اسلامی مزاحمت کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ شروع کرنے کی صلاحیت پر شک ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کابینہ کے سیاستدانوں کے دباؤ میں ہے اور بالآخر وہ اطاعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس طرح اس نے غزہ میں اطاعت کی تھی اور اب حالات اس بات کی گواہی دے رہیں ہیں کہ صہیونی فوج غزہ کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔
خبر کا کوڈ: 1161593