پاک سرزمین شاد باد
21 Sep 2024 18:04
اسلام ٹائمز: یہ طالبان نہ جانے اب ہم سے کس چیز کے طالب ہیں؟ شاید یہ اٹک کے پل تک ہماری پاک سرزمین کو اپنی امارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ایسی ڈیورنڈ لائن سمجھتے ہیں، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور جسے وہ کسی وقت بھی اپنی مرضی کے مطابق پار کرسکتے ہیں۔ کل تک جنہوں نے ہماری سرحد کی حرمت کی پامالی کو اپنا شیوہ بنایا ہوا تھا، آج وہ ہماری پاک سرزمین پر ہماری موجودگی میں ہمارے قومی ترانے کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں۔
تحریر: سید تنویر حیدر
افغانستان کی ”اسٹریٹیجک ڈیبتھ“ سے نکلا ہوا قیمتی خزانہ، جو ہم نے مشکل وقت کے لیے سنبھال رکھا تھا، آخرکار ہمارے لیے دھماکہ خیز مواد ثابت ہوا ہے۔ ہماری بے وقوفی یہ تھی کہ ہم زمین کی گہرائی سے برآمد ہونے والے اس خزینے کو بغیر اس کا کیمیائی تجزیہ کیے، اپنے گھر لے آئے اور اسے اپنا اثاثہ بنا بیٹھے۔ افغانستان کے کہساروں میں ”خزانے کی تلاش“ کے نام سے شروع کی گئی مہم کے لیے پینٹا گون کی خواہش کے مطابق جو نقشہ تیار کیا گیا، وہ افغانستان کی اصل جغرافیائی صورت حال کو جانے بغیر یا جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا۔
ہم نے اپنے منصوبے پر عمل کرتے وقت خاص طور پر زبان کارڈ کا استعمال کیا۔ ہماری سرحدوں سے جڑے پشتون علاقے میں پشتو بولی جاتی ہے۔ ہم نے سمجھا کہ پشتو کیونکہ ہمارے اپنے ایک صوبے کی زبان ہے، اس لیے اس مہم جوئی میں پشتون ہمارے سہولت کار بنیں گے۔ ہمارے ابن بطوطہ یہ سمجھتے رہے تھے کہ افغانستان جلال آباد سے کابل تک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے بعد جو علاقہ شروع ہوتا ہے، وہ ”علاقہ غیر“ ہے۔ ہمیں نہیں خبر تھی کہ افغانستان کا خاصا بڑا حصہ فارسی بولنے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ انگریز جب برصغیر سے رخصت ہوئے تو وہ جاتے ہوئے ہمارے آباو اجداد کی زبان فارسی کو بھی جلیانوالہ باغ کی طرح پامال کر گئے۔
قوموں کے درمیان باہمی ارتباط کا بڑا ذریعہ زبان ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے افغانستان کی تاجک، ازبک اور ہزارہ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے عوام ہمارے لیے غیر ہیں۔ زبان کے علاوہ ہم نے اپنے اس تاریخی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے ایک خاص قسم کی مذہبیت کو بھی استعمال کیا۔ ایسی مذہبیت جس میں تشدد پسندی کا عنصر غالب تھا۔ ہم نے اپنے اس مشن کے تکمیل کے لیے ایسے مذہبی جنونی افراد کو تربیت دے کر افغانستان کی جانب دھکیلا، جو بالآخر کسی مس گائڈڈ میزائل کی طرح پلٹ کر ہمارے ہی سروں پر آ برسے۔ ایک وقت تک ہمارے حکمران ان کے باقاعدہ ترجمان بنے رہے۔
نائن الیون سے پہلے جب جنرل مشرف سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ طالبان کی دہشت پسندی کو دیکھتے ہوئے بھی کیوں ان کی حمایت کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہتے تھے کہ ہم دو وجوہات کی بنا پر طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ ہے۔ طالبان کی اس سے بڑھ کر ترجمانی عمران خان کرتے تھے۔ اپنے اقتدار کے آخری دور میں انہوں نے جنرل فیض حمید سے مل کر دوبارہ طالبان کو افغانستان میں اقتدار دلوایا۔بہرحال ہماری ناکامی کہ ہم افغانستان میں دور تک تزویراتی گہرائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسے گڑھے میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں، جہاں سے نکلنا جہنم کی تہ سے نکلنے کے مترادف ہے۔
ہم نے اپنا جان کر جن کے لیے اپنے دروازے کھولے، وہ اب اپنے علاقے میں ہمارے دشمنوں کو پناہ دیئے ہوئے ہیں۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے
ہمارا یہ اثاثہ اب ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ یہ طالبان نہ جانے اب ہم سے کس چیز کے طالب ہیں؟ شاید یہ اٹک کے پل تک ہماری پاک سرزمین کو اپنی امارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ایسی ڈیورنڈ لائن سمجھتے ہیں، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور جسے وہ کسی وقت بھی اپنی مرضی کے مطابق پار کرسکتے ہیں۔ کل تک جنہوں نے ہماری سرحد کی حرمت کی پامالی کو اپنا شیوہ بنایا ہوا تھا، آج وہ ہماری پاک سرزمین پر ہماری موجودگی میں ہمارے قومی ترانے کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1161494