جنرل اسمبلی کی قرارداد
19 Sep 2024 11:28
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اکتوبر 2023ء کے آخر میں صیہونی حکومت کیخلاف 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اس بات پر زور دیا: تھا کہ "یہ حملہ" 56 سال کے "دم گھٹنے والے قبضے" کے تناظر میں کیا گیا ہے۔" جون 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی حکومت کے قبضے کے 56 سال مکمل ہونے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح درخواست کے باوجود اس قبضے کو جاری رکھنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا واضح موقف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے تمام اقدامات غیر قانونی ہیں۔
تحریر: سید رضا میر طاہر
بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں کے بارے ایک قرارداد منظور کی ہے۔ اس قرارداد کے حق میں 124 ووٹ اور مخالفت میں 14 ووٹ پڑے جبکہ 43 ممالک نے عدم شرکت کی۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ 12 ماہ کے اندر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی غیر قانونی موجودگی ختم کرے۔ یہ قرارداد ایسے عالم میں منظور ہوئی کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک سے بار بار کہا کہ وہ اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیں۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے: "قابض حکومت کو فیصلے کی تاریخ سے زیادہ سے زیادہ 12 ماہ کے اندر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیئے۔"
مذکورہ قرارداد میں صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس طرح کے جارحانہ اقدامات سے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔ فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ ایک سال کے اندر فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کے لیے قرارداد جاری کرکے ان کی آزادی کی حمایت کریں۔ اس قرارداد میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کا حوالہ دیا گیا، جو کہ جنرل اسمبلی کی درخواست پر جاری کی گئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ 1967ء سے صیہونی حکومت کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ غیر قانونی ہے۔
اقوام متحدہ سے وابستہ اعلیٰ ترین عدالتی ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ "اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرے۔" عرب ممالک نے حال ہی میں نیویارک میں درجنوں صدور اور وزرائے اعظم کی موجودگی سے چند روز قبل جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں ممالک سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ صیہونی بستیوں سے نکلنے والی مصنوعات کی درآمد کو روکنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو ہتھیاروں، گولہ بارود اور متعلقہ آلات کی خریداری یا منتقلی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت کے مثبت ووٹوں سے اس قرارداد کی منظوری ایک طرف صیہونی حکومت کے قبضے کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کی خواہش اور عزم کو ظاہر کرتی ہے اور دوسری طرف عالمی سطح پر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی تنہائی کو بھی ثابت کرتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ واشنگٹن کے دباؤ اور مغرب کی پیروی کرنے والے ممالک کی مخالفت کے باوجود انجام پایا ہے۔ یاد رہے کہ فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مذمت اب عالمی سطح پر ایک غالب گفتگو بن چکی ہے۔
بین الاقوامی نظام کی بتدریج تبدیلی اور اس کے کثیر پولرائزیشن (ملٹی پولرائزیشن) کی بدولت، مسئلہ فلسطین کے بارے میں مغربی صہیونی گفتگو اور بیانیہ کی اب کوئی جگہ نہیں رہی ہے اور فلسطینی قوم کے حقوق کے احترام کی ضرورت پر مبنی ایک نیا نقطہ نظر مقبول عام ہو رہا ہے، جس میں 1967ء کے مقبوضہ علاقوں کا قبضہ ختم کرنے کی ضرورت بھی شامل ہے، اس تناظر میں ایران کے علاقائی کردار اور بین الاقوامی سطح پر اس کے اثر و رسوخ کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بھی بہت اہم ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی غاصبانہ اور جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حالات کی نزاکت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معمول کی حمایت کو جاری رکھنے پر تاکید کی ہے۔ فلسطین پر قبضے کے خاتمے اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور اقدامات کے خاتمے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ ایران نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "عالمی برادری اسرائیل کو پابند کرے کہ وہ تمام بے گھر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر واپس جانے اور ان کی املاک واپس کرنے کی اجازت دے، نیز مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں متاثر ہونے والے تمام افراد کو معاوضہ ادا کرے۔"
اسلامی جمہوریہ کا یہ اقدام ایک بار پھر فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع اور اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں ایران کی ثابت قدم اور غیر متغیر پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی قدس پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد وہ ان علاقوں میں تیزی سے بستیوں کو بڑھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں بھی ان علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ اس عالمی ادارے کے اعلیٰ عہدے داروں کے عہدوں کی صورت میں جون 1967ء کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے خاتمے کا بار بار مطالبہ کیا ہے۔
دوسری باتوں کے علاوہ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اکتوبر 2023ء کے آخر میں صیہونی حکومت کے خلاف 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اس بات پر زور دیا: تھا کہ "یہ حملہ" 56 سال کے "دم گھٹنے والے قبضے" کے تناظر میں کیا گیا ہے۔" جون 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی حکومت کے قبضے کے 56 سال مکمل ہونے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح درخواست کے باوجود اس قبضے کو جاری رکھنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا واضح موقف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے تمام اقدامات غیر قانونی ہیں۔
گوٹیریس کے نقطہ نظر سے، غاصبانہ قبضے کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کے غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ درحقیقت اس صورتحال کا تسلسل اور فلسطینی عوام کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور بڑھتی ہوئی پابندیاں مزاحمتی گروہوں کے ردعمل کا باعث بنتی ہیں، جو بالآخر عسکری کارروائیوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کو بھی غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ: 1161161