تہران میں منعقدہ بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا پیغام
20 Sep 2024 04:57
اسلام ٹائمز: بلاشبہ، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اپنی تقریر میں کہا اور اس پر زور دیا: "اگر مسلمانوں اور اسلامی ممالک میں اتحاد و یکجہتی ہوتی اور مسلمان ایک اجتماعی سلامتی کے نظام تک پہنچ جاتے تو ہم غزہ یا لبنان کے حالیہ سانحات کا مشاہدہ نہ کرتے۔" ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ڈیڑھ ملین مسلمانوں کا قتل عام اور لبنان میں اسرائیل کی سائبر دہشتگردی کے نتیجے میں ایک دن میں تقریباً چار ہزار افراد کا زخمی ہونا اور کچھ کا شہید ہونا عدم اتحاد کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ عملی اقدامات کریں اور اپنے اندرونی اتحاد و یکجہتی کو ہر ممکن طریقے سے مضبوط کریں۔ اس نقطہ نظر سے ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے 38 ویں اجلاس کا پیغام پچھلی کانفرنسوں سے مختلف ہوگا۔
تحریر: احمد کاظم زادہ
اڑتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس "مسئلہ فلسطین پر تاکید کے ساتھ مشترکہ اقدار کے حصول کے لیے اسلامی تعاون" کے موضوع پر تہران کے سربراہی اجلاس ہال میں ہو رہی ہے۔ اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے علماء، دانشور اور ممتاز شخصیات سمیت ایران کی سیاسی و عسکری شخصیات بھی موجود ہيں۔اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اڑتیسویں بین الاقوامی وحدت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ جو تہران میں ہو رہی ہے اور اس میں بڑی تعداد میں مختلف اسلامی ممالک کے علماء اور دانشور موجود ہیں، مسلمانوں میں اختلاف و تفرقے کو دشمنوں کی سازش قرار دیا اور کہا کہ وحدت مسلمانوں کی طاقت بڑھائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر مسلم ممالک متحد ہوتے تو مٹھی بھر صیہونی غزہ میں اس طرح عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی جرائت نہ کرتے۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیئے، اس لئے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی دشمن کے مقابلے میں ان کی طاقت کو بڑھا سکتی ہے۔ صدر ایران نے کہا کہ قرآن کریم میں گناہ کرنے اور اختلاف ڈالنے سے روکا گيا ہے اور اختلاف کا مطلب ہے اللہ تعالی کی رسّی کو چھوڑ دینا۔ ڈاکٹر پزشکیان نے غزہ پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ یلغار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بیس یا تیس لاکھ صیہونی، مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہيں اور مردوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں نیز بیماروں کو قتل کر رہے ہيں، مسجدوں اور اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہيں، کیونکہ مسلمان متحد نہيں ہيں اور صیہونی حکومت اس طرح کے جرائم انجام دینے کی جرائت کر رہی ہے۔
ایران کے صدر مملکت نے کہا کہ صیہونی حکومت جرائم کر رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کی زبان و نظریہ ایک دوسرے سے مشترک نہيں ہے، ان کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور معمولی چیزوں پر ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہيں۔ ڈاکٹر پزشکیان نے امید ظاہر کی کہ اسلامی معاشرے کو اتحاد کے لئے نیا دستور العمل اور منشور تیار کرنا چاہیئے اور اپنے معاشروں سے تمام مسائل و اختلاف کو ختم کر دینا چاہیئے اور امت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جانا چاہیئے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے تسلسل اور اس ملک کے ہزاروں شہریوں کے قتل کے ساتھ لبنان تک اس کی توسیع نے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور مسلمانوں کے درمیان عملی اتحاد کی ضرورت کو ایک اہم ترجیح میں تبدیل کر دیا ہے۔
امت اسلامیہ کا اتحاد، سماجی و سیاسی ضرورت
امت اسلامیہ کا اتحاد ایک سماجی و سیاسی ضرورت نیز ایک اہم اور تزویراتی معاملہ ہے۔ قرآنی آیات اور مذہبی رہنمائوں کی روایات کی روشنی میں، مکتب اسلام انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے مقصد کو سماجی انصاف کا حصول سمجھتا ہے اور تمام سماجی، سیاسی معاملات میں انصاف کے حصول پر تاکید کرتا ہے۔ ثقافتی اور اقتصادی جہتیں ترقی کے عوامل میں سے ایک ہیں اور ہر قوم کی فتح کا راز رابطہ اور اتحاد میں ہے۔ اتحاد کے حصول کا ایک اہم ترین طریقہ اسلام کے محور پر وحدت کلمہ پر جمع ہونا اور اسلامی احکامات کا نفاذ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے بہت سے شعبے ہیں، جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ پوری تاریخ میں شیعہ اور سنی تعاون اور اتحاد کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔
بلاشبہ، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اپنی تقریر میں کہا اور اس پر زور دیا: "اگر مسلمانوں اور اسلامی ممالک میں اتحاد و یکجہتی ہوتی اور مسلمان ایک اجتماعی سلامتی کے نظام تک پہنچ جاتے تو ہم غزہ یا لبنان کے حالیہ سانحات کا مشاہدہ نہ کرتے۔" ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ڈیڑھ ملین مسلمانوں کا قتل عام اور لبنان میں اسرائیل کی سائبر دہشت گردی کے نتیجے میں ایک دن میں تقریباً چار ہزار افراد کا زخمی ہونا اور کچھ کا شہید ہونا عدم اتحاد کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی اقدامات کریں اور اپنے اندرونی اتحاد و یکجہتی کو ہر ممکن طریقے سے مضبوط کریں۔ اس نقطہ نظر سے ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے 38 ویں اجلاس کا پیغام پچھلی کانفرنسوں سے مختلف ہوگا۔
ان کانفرنسوں کی بنیاد انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے آغاز سے ہی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے رکھی گئی تھی اور یہ مختلف مسالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کارگر ثابت ہوئی تھیں۔ اسلامی دنیا کی آج کی ضرورتوں کا تقاضا ہے کہ یہ اتحاد علماء اور دانشوروں کے دائرے سے باہر نکل کر عام عوام تک پہنچے، تاکہ اس کے اثرات اسلامی معاشروں اور حکومتوں تک پہنچیں۔ مسلمانوں کا باہمی اتحاد اسلامی ممالک اور معاشروں کی ترقی اور ہم آہنگی کو تیز کرنے کا باعث بننا چاہیئے، تاکہ اسلام کے مخالفین اور دشمنوں کے خلاف ایک مؤثر قوت پیدا کرنے کے لیے میدان ہموار ہوسکے۔
خبر کا کوڈ: 1161158