QR CodeQR Code

لبنان میں دہشتگردی

18 Sep 2024 05:08

اسلام ٹائمز: تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی داستان کا مقصد تجزیہ میں خلل ڈالنا ہے۔ اسکی ایک مثال تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل تھا۔ اس واردات کے طریقہ کار کے حوالے سے مغربی جانب کا زور بمباری پر تھا لیکن درحقیقت یہ قتل ایک پراجیکٹائل فائر کرکے کیا گیا اور شہید ہنیہ کے واٹس ایپ کے ذریعے ٹریکنگ کی گئی تھی۔ لبنان کے وزیر اطلاعات نے منگل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کے بارے میں واضح طور پر کہا کہ آج کے واقعات کا ہدف صرف حزب اللہ کے عناصر نہیں ہیں بلکہ لبنانی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لبنانی حکومت اسرائیل کو اس جرم کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔


تحریر: رضا احمدیان

گذشتہ روز دنیا نے دہشت گردی کی تازہ ترین شکل دیکھی ہے۔ اس تناظر میں تاریخ کی سب سے پیشہ وارانہ ریاستی دہشت گردی کا تمغہ صیہونی حکومت کو پیش کیا جانا چاہیئے۔ لبنان میں "پیجر" مواصلاتی آلات، جو سڑکوں پر عام لوگوں کی جیبوں میں تھے، اس ملک کے مختلف علاقوں جیسے کہ بیروت میں پھٹ گئے، جس سے عام شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی۔ یہ لبنان میں دہشت گردی کے واقعے کی ایک مرکزی لائن تھی۔ باقی کہانی مغربی اخبارات کی گمراہ کن معلومات اور مبینہ ذرائع کے حوالے سے بمباری کی مہم ہے، جو ہر بار عام لوگوں کے قتل عام کی داستان پیش کرتے ہیں۔

تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی داستان کا مقصد تجزیہ میں خلل ڈالنا ہے۔ اس کی ایک مثال تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل تھا۔ اس واردات کے طریقہ کار کے حوالے سے مغربی جانب کا زور بمباری پر تھا لیکن درحقیقت یہ قتل ایک پراجیکٹائل فائر کرکے کیا گیا اور شہید ہنیہ کے واٹس ایپ کے ذریعے ٹریکنگ کی گئی تھی۔ لبنان کے وزیر اطلاعات نے منگل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں واضح طور پر کہا: "آج کے واقعات کا ہدف صرف حزب اللہ کے عناصر نہیں ہیں بلکہ لبنانی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لبنانی حکومت اسرائیل کو اس جرم کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ ہمارا خوف حزب اللہ سے نہیں بلکہ اسرائیل کے جرائم سے ہے۔ اس تناظر میں لبنان میں دہشت گردی کے واقعے میں دو مسائل قابل توجہ ہیں:

1: دو ماہ قبل رائٹرز کا مضمون!
لبنان کی حزب اللہ مغربی اور صیہونی اخبارات کی نگرانی پر خصوصی توجہ دیتی ہے، اس طرح کہ انہوں نے ان مشاہدات کے ذریعے جنرل سلیمانی کے قتل کی پیشین گوئی کی تھی۔ بغداد ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے سے تین ہفتے قبل سید حسن نصر اللہ نے سردار سلیمانی کو ایک اہم امریکی رسالہ دکھایا، جس کے سرورق پر اس شہید کی تصویر تھی۔ مضمون کا عنوان تھا ’’ناقابل متبادل جنرل۔" سید حسن نے حاج قاسم کو بتایا کہ ہمارے کچھ دوست جو امریکہ کو اچھی طرح جانتے ہیں، کہتے ہیں کہ میڈیا کی توجہ کی یہ مقدار قاتلانہ حملے کی تیاری ہے۔ یہ بیانیہ ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ کے تجزیہ کار بکھرے ہوئے ذیلی بیانیے کے ذریعے مخالف محاذ کے مستقبل کے اقدامات کی عمومی تصویر تک پہنچ سکتے ہیں۔


لبنان میں جو کچھ ہوا، اس سے اسرائیل کے لیے فوجی فائدہ نہیں ہوا۔ کیونکہ حزب اللہ کو اس حقیقت کا علم تھا کہ حزب اللہ کی مختلف صفوں کے رابطے کا طریقہ صیہونی حکومت کی نگرانی میں ہے۔ دو ماہ قبل میڈیا لائن نے حزب اللہ کو حکومت کے اگلے اقدامات سے آگاہ کر دیا تھا۔ دو ماہ قبل رائٹرز نے اس عنوان کے ساتھ ایک رپورٹ شائع کی: "حزب اللہ اسرائیل کی جدید نگرانی کا مقابلہ کیسے کر رہی ہے۔؟"رائٹرز کی رپورٹ میں پیجر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ حزب اللہ نے اپنے کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کی جدید ترین نگرانی کی ٹیکنالوجی سے بچنے کے لیے خفیہ پیغامات کے لئے پیجرز کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ دو مبینہ ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ سیل فونز کو بھی پرانے مواصلاتی آلات جیسے پیجرز کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا تھا، کیونکہ اس میں ٹریکنگ کی صلاحیتیں تھیں۔

یہاں بات یہ ہے کہ روئٹرز کا دعویٰ ہے کہ اس نے حزب اللہ سے متعلقہ اداروں سے اس بارے میں دریافت کیا تھا، لیکن جواب نہیں ملا۔ حزب اللہ جانتی تھی کہ حکومت کی توجہ تنظیم کی صفوں کے درمیان رابطے کی لائن اور ارکان کے رابطے کے طریقہ کو تلاش کرنے پر مرکوز ہے۔ اس لیے لبنان میں دہشت گردی کے واقعے کے مقصد کی تشریح حزب اللہ کے ڈھانچے پر فوجی/سکیورٹی حملے کے تناظر میں نہیں کی جا سکتی۔ بیروت کی دہشت گردی کی کارروائی کو ضاحیہ ڈاکٹرائن کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

2: بچوں کے قتل کے نظریئے کو اپ ڈیٹ کرنا!
صیہونی حکومت کی فوجی پالیسی کا بنیادی اصول "ڈیٹرنس" پر مبنی ہے۔ 33 روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے ڈیٹرنس کی تعریف ضاحیہ نظریہ کی حکمت عملی کی شکل میں کی۔ اس نظریئے کا نام بیروت کے "مضافاتی" ضلع سے لیا گیا ہے۔ لبنان کی اسلامی مزاحمت کی سماجی بنیاد کا ایک اہم حصہ ضاحیہ میں مقیم ہے۔ 33 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ سید حسن نصر اللہ کی رہائش گاہ ضاحیہ میں ہے۔ اس تناظر میں نواحی علاقوں کے اہم حصوں پر اندھا دھند بمباری کی گئی۔ گذشتہ سال غزہ میں جو کچھ ہوا، وہ بھی ضاحیہ کے نظریئے پر مبنی تھا۔ متذکرہ نظریئے کا مقصد یہ ہے کہ عام لوگ جنگ کی قیمت ادا کریں اور ان میں سے ہر ایک اپنی روز مرہ کی زندگی کی تباہی اور اپنے پیاروں کے سوگ سے پریشان ہو اور اس کے نتیجے میں مقاومت کا مخالف ہو جائے۔

اس صورتحال کو عوام کے ذریعے اپنے لیڈروں پر سماجی دباؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیل اور اعلیٰ درجے کے  امریکی ماہرین کی سمجھ یہ ہے کہ کسی معاشرے پر فوجی یا معاشی دباؤ اسی معاشرے کے اپنے لیڈروں پر سماجی دباؤ کا باعث بنتا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ لبنان میں گذشتہ روز جو کچھ ہوا، وہ دہشت گردی کی شکل میں ضاحیہ کے نظریئے کا نفاذ تھا۔ دہشت گردی کا نشانہ عام لوگ تھے، حزب اللہ کے ارکان نہیں۔ لیکن مقصد اس قتل سے کچھ آگے تھا۔ اس سے پہلے، اگر اسرائیل اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی ملک اس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، تو وہ اس ملک کی فوج اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتا ہے۔ چھ روزہ جنگ میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا۔ عرب دنیا کی سب سے طاقتور فوجوں کے طور پر تین عرب فوجوں کو اسرائیل نے چند گھنٹوں میں ہی تباہ کر دیا۔

اب، حزب اللہ تقریباً ایک سال سے غزہ کی حمایت کر رہی ہے اور فلسطین کے مقبوضہ شمال میں نظر آنے والے تقریباً ہر جاندار کو نشانہ بنایا ہے! تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزہ کی پٹی پر فوجی قبضے سے صیہونی حکومت کے علاقے کے حجم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ فلسطین کی شمالی پٹی حزب اللہ کے ایک سال سے جاری حملوں کی وجہ سے صیہونیوں سے خالی ہوچکی ہے اور اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے صیہونی حکومت کے قبضے سے خالی ہوچکے ہیں۔ لبنان میں دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 3000 عام لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ برسوں سے جاری جنگ کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ اس سطح کا انسانی نقصان ہوا ہے۔ کیونکہ یہ لڑائی بنیادی طور پر فلسطین کے شمال میں اسرائیلی فوج اور لبنان کے جنوب میں حزب اللہ کی افواج کے درمیان جنگ کا جواب ہے۔

حزب اللہ کے ارکان کو ذہانت سے نشانہ بنانے کے الزامات کو صرف "فاطمہ" کے قتل سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس بچی کے قتل کا  صیہونی حکومت کے حق میں فوجی مساوات پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل لبنان کی حزب اللہ پر یہودی حکومت کی شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے سماجی دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔

اسرائیل کی شرط یکطرفہ جنگ بندی اور حزب اللہ کا لبنانی سرحد سے دریائے لیطانی کے عقب تک پیچھے ہٹنا ہے۔ ایسی شرط جو حزب اللہ نے قبول نہیں کی۔حزب اللہ کے مطابق شمالی فلسطین میں جنگ بندی کا انحصار غزہ میں جنگ بندی پر ہے۔ سید حسن نے اس سے قبل حزب اللہ کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کی اسرائیل کی دھمکیوں کے بارے میں کہا تھا کہ دریائے لیطانی کو سرحد پر لانا آسان ہے، لیکن حزب اللہ کو لیطانی کے عقب میں لے جانا زیادہ مشکل ہے، یعنی حزب اللہ صیہونی شرط کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔


خبر کا کوڈ: 1160735

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1160735/لبنان-میں-دہشتگردی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com