اربعین امام حسین علیہ السلام کی کچھ یادیں(1)
12 Sep 2024 10:52
اسلام ٹائمز: 1400 سال سے آپ باطل پر لعنت بھیج رہے ہیں اور اربعین میں امام حسین (ع) کی طرف عشق و محبت کے ساتھ دوڑ رہے ہیں! امام حسین علیہ السلام کے اصحاب نے تاریخ کے اوراق پلٹے اور کتنی خوبصورتی سے لکھا، آپ اور میں صرف پڑھنے والے نہیں ہیں۔ آج تاریخ کا نیا صفحہ پلٹ رہا ہے۔ آپ اور ہم آج کی کہانی کے مصنف ہیں۔ فلسطین کی دردناک کہانی کے! ہم کیا لکھتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آپ اور ہم تاریخ کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
گذشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی اربعین امام حسین علیہ السلام پر جانے کی بے تابی تھی۔ کبھی چھٹی کا مسئلہ، کبھی ویزے کا پرابلم۔ عین وقت پر پتہ چلا کہ تہران میں موجود عراقی سفارت خانہ افغان شہریوں کے علاوہ کسی بھی ملک کے شہری کو ویزہ نہیں دے گا۔ خدا بھلا کرے ان پالیسی سازوں کا، جنہوں نے اربعین پاسپورٹ بنا کر ایران سے جانے والے زائرین کی مشکل حل کر دی۔ اربعین پاسپورٹ جنت کا پروانہ ثابت ہوا۔ اس دوران کئی احباب کے پیغامات موصول ہوئے، کسی نے التماس دعا کہا، کسی نے اپنے تاثرات بھیجے۔ کسی نے اپنا درد دل بیان کیا۔ ہر پیغام میں منفرد لہجہ اور منفرد درد تھا۔
بعض اقتباسات اسلام ٹائمز کے قارئین کے لیے
کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
حقوق اور آزادی مانگنے اور آزادی پسند ہونے کی کہانی
تم کربلا کیوں آئے؟
کیا آپ امام سے ملنے آئے ہیں؟
اچھا اگر آج امام آپ سے کربلا کے بارے میں پوچھیں تو آپ کیا کہیں گے؟
* فلسطین کی ایک دکھ بھری داستان اور اس صابر، بردبار اور مزاحمتی قوم کے ظلم و ستم کا دردناک دکھ درحقیقت ہر آزادی پسند، حق کا متلاشی اور انصاف کے لئے سرگرداں فرد فلسطین کی صورتحال پر پریشان و بے تاب ہے۔
ایک شیر خوار بچہ جو بدترین، انتہائی مجرم افراد کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی جو اپنے بھائی اور بہن کی شہادت کی نفرت کو نگل جاتی ہے اور ہر لمحہ اپنے دفاع کے لیے تیار رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ وہ شہادت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ایک ماں جو اپنے پہلے بچے کے کھو جانے پر کچھ ہی لمحے پہلے ماتم کر رہی ہوتی ہے کہ اس کا دوسرا بچہ بھی اس کی آنکھوں کے سامنے شہید ہو جاتا ہے۔ وہب نصرانی کی والدہ کی طرح وہ راہ خدا میں قربان ہونے کو خوبصورت عمل سمجھتی ہیں۔ ایک باپ جو اپنے بچے کو دفن کرتا ہے، لیکن پہاڑ کی طرح کھڑا ہے اور خاموشی سے سرگوشی کرتا ہے: جو کچھ خدا دیکھتا اور سنتا ہے، وہ کافی ہے اور وہ کتنا اچھا وکیل ہے! اور باپ شرمندہ ہو کر گھر والوں کی طرف واپس چلا جاتا ہے۔ یہ مناظر کتنے مانوس ہیں۔؟
پاگل کتوں اور وحشی بھیڑیوں نے مظلوم لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ اس حملے میں جان سے ہاتھ دھونے والے معصوم بچوں سے زیادہ مظلوم کون ہے۔؟ کیا وہ غلط طریقے سے ہار گئے؟ ان ماؤں سے بڑھ کر مظلوم کون ہوگا، جنہوں نے اپنے بچوں کو بانہوں میں تھام کر اپنی آنکھوں سے موت کو دیکھا اور کیا انہوں نے ان کی مقاومت کا مشاہدہ کیا؟ غاصب صیہونی غاصب حکومت نے آج انسانیت کی آنکھوں کے سامنے ایسے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ انسانیت کا اس پر ردعمل ہونا چاہیئے۔ آئیے اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والوں کی قوت برداشت اور مزاحمت کو دیکھتے ہیں۔ ایک جگہ پر چاروں طرف سے گھرے ہوئے یہ لوگ، سمندر ان کے لیے بند ہے، زمین ان کے لیے تنگ ہے، سرحدیں ان کے لیے بالکل بند ہیں۔ ان کے پینے کا پانی، ان کی بجلی، ان کی سہولیات، سب ناقابل اعتبار ہیں، یہ سب دشمن کی دشمنی اور دشمن کے حملے کی زد میں ہیں اور کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا۔
صیہونی حکومت ایک مسلح، بدکار اور بے رحم دشمن اور اس حکومت کے بدکار، ظالم اور ناپاک رہنماء فلسطینیوں کے خلاف ہر جرم کو روا سمجھتے ہیں، رات دن ان پر حملوں کی بوچھاڑ ہے، لیکن یہ لوگ کھڑے ہیں، مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ سبق ہے۔ کیا آپ نے یہ مناظر دیکھے ہیں؟ آپ نے کہیں پڑھا یا سنا ہے؟ آپ نے سنا ہوگا کہ دنیا کی سب سے زیادہ مجرم فوج کی ایک بڑی تعداد نے امام علیہ السلام کے خیمے اور امام علیہ السلام کے اصحاب پر حملہ کیا۔ فلسطین میں ان تمام جرائم، غاصبانہ قبضے، تباہی اور ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ کیوں لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے ستر سال دور رہیں۔؟ کیا وہ دور ہیں اور جلاوطنی میں رہیں۔؟ غاصب صیہونی حکومت کے پیچھے امریکہ ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو گھیرا ہوا ہے، ایک مظلوم عوام، جن کے پاس باہر نکلنے کا راستہ نہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، ان کے پاس کوئی امکان نہیں، ان کے بیمار زمین پر پڑے رہیں گے، ان کے بھوکے بھی بھوکے رہیں گے، زندگی کی بنیادی چیزیں بھی ان کو میسرنہیں ہوں گی۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔؟
ریاستہائے متحدہ کے صدر، جرمنی کے وزیراعظم، فرانس کے صدر، انگلینڈ کے وزیراعظم، ایسی غاصب و ظالم ریاست کا دفاع اور مدد کر رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔؟ یہ مغربی دنیا، یہ نام نہاد مہذب دنیا جو انسانی حقوق کا دعویٰ کرتی ہے۔ ان کے انسانی حقوق کے دعوے فریب ہیں۔ ان کے خیالات اور اعمال سامراجی ذہنیت کے ہیں۔ چند ماہ کے اندر بچوں سے لے کر نوعمروں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں یہاں تک کہ چالیس ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ لاکھوں بے گھر اور ان کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ لیکن اس تباہی کو مہذب دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ نہ صرف ظالم کو روکتی نہیں ہے بلکہ اس کی مدد بھی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کہلانے والی تنظیم اپنا فرض ادا نہیں کرتی اور انسانی حقوق کہلانے والے ادارے مردہ ہوچکے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟
آج کا فلسطین کربلا امام حسین علیہ السلام سے عجیب مشابہت رکھتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ فلسطین اہل حق و صالحین کا خیمہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے خیمے کی طرح، دنیا کے تمام آزاد لوگ اس خیمے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کے دفاع کی کوشش کر رہے ہیں۔ فلسطین کی تاریخ نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس طرح کے مصائب اور دکھوں کا شکار نہیں ہوئی۔ ایک عالمی سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل قبضہ کر لیا جاتا ہے اور ایک قوم کو اس کے گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور دنیا بھر سے اجنبیوں کو اکٹھا کرکے فلسطینیوں کی سرزمین پر آباد کیا جاتا ہے ۔ حقیقی باشندوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جعلی و غاصب باشندوں کو ان کی جگہ پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
ایک اور پیغام سے اقتباس
خوش آمدید
اب آپ کربلا پہنچ چکے ہیں۔
انتخاب کی سرزمین پر
دشوار گزار دوراہے کی سرزمین
حق و باطل کی سرزمین
اور اب امام حسین علیہ السلام نے آپ کو بلایا ہے۔
آپ کو ایک مشن کے لیے بلایا ہے۔
عاشورہ کی رات کی طرح آپ کو آزمانے کے لیے
جنہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر جو کوئی جانا چاہتا ہے، چلا جائے کیونکہ کل ایک مشکل دن ہے۔ کیونکہ صحیح راستے کے لیے مضبوط اور پرعزم لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ ایک مذاق نہیں ہے!
تم امام کے پاس آئے ہو۔
آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔
آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ امام کی فوج کے ساتھ ہیں اور اس میں شامل ہیں!
تم اب بھی اس اندھیری سڑک اور رات کا فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
اپنا فیصلہ خود کرنے کا یہ ایک منفرد موقع ہے۔
تمہارے انتخاب کا وقت
آپ نے کربلا کا قصہ سنا ہے۔
آپ کا انتخاب کیا ہے؟
اگر آپ عاشورہ کے دن یہاں ہوتے تو آپ کا انتخاب کیا ہوتا؟
اور اب تم اسی سرزمین پر کھڑے ہو،
تم خود نہیں آئے
امام نے آپ کو پوچھنے کے لیے بلایا ہے
تاکہ آپ زہیر کی طرح انتخاب کرسکیں
کہ تم حق اور امام علیہ السلام کے ساتھ رہو گے یا انسانیت اور آزادی کو پامال کرکے امام کو چھوڑ دو گے
اگر تم حق کے ساتھ نہیں رہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم حق کے ساتھ نہیں تھے، اس کا مطلب ہے کہ تم نے امام کو ترجیح نہیں دی، اس کا مطلب ہے کہ تم نے حق کو کمزور کیا۔
* آج مسئلہ فلسطین انسانی اصولوں کی پاسداری اور انسانی اصولوں کی مخالفت کے درمیان ایک علامت ہے۔ مسئلہ اتنا اہم ہے۔
اب آپ فلسطین کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟
کیا آپ حق کی طرف جا رہے ہیں یا مسلسل خاموشی سے باطل میں شامل ہو رہے ہیں؟
آپ کا فیصلہ کیا ہے؟
آپ اپنے آس پاس والوں کے ساتھ کیا کرو گے؟ کیا آپ دوسروں کو اور اہل خانہ کو نیز دوست احباب کو حق کی مدد کے لیے دعوت دو گے؟
کیا آپ حق کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں؟
* اگر ملت اسلامیہ لبنان میں 33 روزہ جنگ اور خوفناک تباہی کے بعد، تباہی پھیلانے والے صہیونیوں کو سزا دینے کا سنجیدگی سے مطالبہ کرتی،
اگر افغانستان میں شادیوں کی باراتوں کی تباہی اور عراق میں بلیک واٹر کے جرائم نیز ابوغریب اور دیگر علاقوں میں امریکی فوجیوں کے سکینڈلز کے خلاف موثر کارروائی کرتی تو آج ہم غزہ میں کربلا نہ دیکھتے۔
* اہل یورپ، امریکہ کے عوام اور دیگر اقوام اس صورت حال میں اپنی ذمہ داری کو واضح کریں۔ انہیں واضح کرنا ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کی طرح نسلی امتیاز کے حق میں ہیں یا نہیں۔ اگر وہ نہیں ہیں تو ان کو اپنی پوزیشن کی نشاندہی کرنی ہوگی۔
تم خدا کے وعدے کو جانتے ہو۔
کوئی بات نہیں، حق جیتتا ہے۔
جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے فتح حاصل کی۔
1400 سال سے آپ باطل پر لعنت بھیج رہے ہیں اور اربعین میں امام حسین (ع) کی طرف عشق و محبت کے ساتھ دوڑ رہے ہیں!
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب نے تاریخ کے اوراق پلٹے اور کتنی خوبصورتی سے لکھا
آپ اور میں صرف پڑھنے والے نہیں ہیں۔
آج تاریخ کا نیا صفحہ پلٹ رہا ہے۔
آپ اور ہم آج کی کہانی کے مصنف ہیں۔
فلسطین کی دردناک کہانی کے!
ہم کیا لکھتے ہیں
دیکھنا یہ ہے کہ آپ اور ہم تاریخ کے کس طرف کھڑے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ: 1159584