9 ربیع الاول، آغاز امامت امام زمانہ عج کی مناسبت سے
امام زمانہ عج ظاہر نہیں لیکن حاضر ہیں
12 Sep 2024 16:09
اسلام ٹائمز: امام زمانہ عج کے انتظار کا صحیح معنی تمام معاشرتی میدانوں میں حاضر رہ کر اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد انجام دینا ہے۔ ائمہ معصومین ع کے فرامین میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمانہ عج کے منتظرین کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان کی باتیں اور عمل اسلام دشمن عناصر کے شدید غصے کا باعث بنتی ہیں۔ امام خامنہ ای مدظلہ العالی جہاد کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جہاد ہر وہ عمل اور اقدام ہے جو اسلام دشمن عناصر کے خلاف انجام پاتا ہے اور انہیں غصے کا شکار کر دیتا ہے۔" آج کے زمانے میں اس کا اہم مصداق مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کرنا اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا ہے۔ لہذا 9 ربیع الاول یعنی امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز کے دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہے۔ امام زمانہ عج جو اگرچہ غائب ہیں اور ظاہر نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر ہیں اور امت مسلمہ کی سرپرستی فرمانے میں مصروف ہیں۔
تحریر: حسین شریعتمداری
9 ربیع الاول کا دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلا دن ہے لہذا اسے امام زمانہ عج کی امامت کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن امام زمانہ عج سے تجدید بیعت کی جاتی ہے اور جس قدر یہ دن اہم ہے اس قدر توجہ کا مرکز قرار نہیں پا سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبین اور پیروکاران اہلبیت اطہار علیہم السلام اس دن کو مناتے نہیں بلکہ اسے اس طرح نہیں مناتے جس طرح اس کا حق ہے۔ اس سال ایران بھر میں یہ دن "سپاہی بننے کے عہد کی صبح" کے طور پر منایا جائے گا جس میں سب اپنے غائب لیکن حاضر امام سے تجدید بیعت کریں گے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں "ایام اللہ" کو اہمیت دینے اور ان کی یاد تازہ رکھنے پر زور دیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: "ایام اللہ کی یاد منانا جس کا حکم خدا نے بھی دیا ہے انسان ساز ہے۔ ایام اللہ کے دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ تاریخ اور انسانوں کیلئے سبق آموز اور بیدار کرنے والے ہیں۔"
امام زمانہ عج سے تجدید عہد کرنے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ منتظرین اپنی ذمہ داریوں اور مشن پر توجہ دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ظالم حکمران جن بڑے چیلنجز سے روبرو رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم میں "اولی الامر" کی اطاعت واضح طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت 59 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اَللّٰهَ وَ أَطِيعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِي اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔۔۔۔۔۔ (اے ایمان والو، خدا کی اطاعت کرو اور رسول خدا ص اور اولی الامر کی اطاعت کرو)۔ اسی طرح خداوند متعال سورہ نحل کی آیت 90 میں فرماتا ہے: إِنَّ اَللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ اَلْإِحْسٰانِ۔۔۔ (یقیناً خداوند متعال عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے)۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ وہ اولی الامر جن کی پیروی اور اطاعت کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے انہیں معصوم ہونا چاہئے۔
دوسری طرف یہ بھی خداوند متعال کیلئے شائستہ نہیں کہ اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم تو دیا ہے لیکن اولی الامر کو متعارف نہ کروایا ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کون سا انسان معصوم ہے کیونکہ صرف خدا ہی انسانوں کے باطن سے آگاہ ہے۔ لہذا خدا ہی معصوم کو متعارف کروا سکتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رسول خدا ص کی بات درحقیقت خدا کی بات ہے اور انہوں نے اپنی کئی احادیث میں نام لے کر اپنے بعد 12 برحق خلیفوں (ائمہ معصومین ع) کو پہچنوا دیا ہے اور یوں امت مسلمہ کیلئے اتمام حجت کر دی ہے۔ یہ حقائق بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کی نظر سے اوجھل نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ائمہ معصومین ع کو اپنا سب سے بڑا اور خطرناک دشمن سمجھتے تھے کیونکہ ائمہ معصومین ع اپنی الہی ذمہ داری کے تحت ہمیشہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھتے اور اسلامی معاشرے میں عدالت کی برپائی کیلئے کوشاں رہتے تھے۔
جس طرح سے تاریخ کے دوران ظالم حکمران اور سادہ لوح مبلغین پرچار کرتے آئے ہیں، الہی فرامین اور اسلام کے حیات بخش قوانین صرف فردی اور شخصی دستورات اور شرعی احکام تک محدود نہیں ہیں۔ اس بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں: "آپ پچاس سے زیادہ فقہی کتب کا ملاحظہ فرمائیں، ان میں سے صرف سات یا آٹھ کتابیں ایسی ہیں جو عبادات کے بارے میں ہے جبکہ باقی تمام کتابیں سیاسیات، سماجیات اور معاشرتی امور کے بارے میں ہیں۔" دوسری طرف شرعی احکام اور الہی قوانین کو لاگو ہونے کیلئے سیاسی طاقت کی ضرورت ہے اور اسی سیاسی طاقت کو حکومت اسلامی کہا جاتا ہے۔ بعض ایسے افراد اور گروہ جو غیبت امام زمانہ عج میں اسلامی حکومت کا انکار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہوئے یا ناسمجھی میں شرعی احکام اور الہی قوانین کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ دین مبین اسلام کا دائرہ صرف فردی شرعی احکام تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی نظامات بھی شامل ہیں۔
قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا ایک اہم ہدف عدل و انصاف کی خاطر قیام ذکر ہوا ہے۔ سورہ حدید کی آیت 25 میں ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلَنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ وَ أَنْزَلْنٰا مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ وَ اَلْمِيزٰانَ لِيَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۔ (بالتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو معجزات کے ہمراہ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب بھی نازل کی ہے تاکہ عوام عدل کیلئے قیام کریں۔۔)۔ واضح ہے کہ جب ایک معاشرے میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو استکباری اور طاغوتی طاقتیں اسے ہر گز برداشت نہیں کریں گی اور اسے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور اقدامات انجام دیں گی جن کا مقابلہ سیاسی طاقت اور اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ اس سیکولر اسلام کے بالکل برعکس ہے جسے تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں نے اسلامی معاشروں میں فروغ دیا ہے۔ یہ دراصل حقیقی محمدی ص اسلام ہے اور اس میں سیاست اور جہاد بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
امام زمانہ عج کے انتظار کا صحیح معنی تمام معاشرتی میدانوں میں حاضر رہ کر اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد انجام دینا ہے۔ ائمہ معصومین ع کے فرامین میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمانہ عج کے منتظرین کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان کی باتیں اور عمل اسلام دشمن عناصر کے شدید غصے کا باعث بنتی ہیں۔ امام خامنہ ای مدظلہ العالی جہاد کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جہاد ہر وہ عمل اور اقدام ہے جو اسلام دشمن عناصر کے خلاف انجام پاتا ہے اور انہیں غصے کا شکار کر دیتا ہے۔" آج کے زمانے میں اس کا اہم مصداق مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کرنا اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا ہے۔ لہذا 9 ربیع الاول یعنی امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز کے دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہے۔ امام زمانہ عج جو اگرچہ غائب ہیں اور ظاہر نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر ہیں اور امت مسلمہ کی سرپرستی فرمانے میں مصروف ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1159541