QR CodeQR Code

ہیریس اور ٹرمپ کے درمیان پہلے مناظرے میں کیا ہوا؟

12 Sep 2024 08:20

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 2024ء کے صدارتی انتخابات کی پہلی بحث میں بائیڈن کی واضح ذہنی کمزوری کی وجہ سے ٹرمپ کی فتح ہوئی، جس کیوجہ ڈیموکریٹس کو امیدوار تبدیل کرنا پڑا۔ اس بحث میں کملا ہیریس نے ٹرمپ کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس بحث سے قبل، ٹرمپ نے ہیریس کے خلاف وسیع پیمانے پر نفسیاتی جنگ پھیلائی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انکے پاس ذہانت کم ہے اور وہ بات بھی نہیں کرسکتی، لیکن جیسا کہ سروے کے نتائج نے پہلی بحث کے بعد ظاہر کیا کہ ہیریس نے تقریباً دو تہائی امریکی شہریوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ پہلی انتخابی بحث میں ہیریس بلاشبہ مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئی ہیں، لیکن اتنی مضبوط نہیں کہ وہ 5 نومبر کے انتخابات میں یقینی کامیابی حاصل کر لیں گی۔


تحریر: سید رضا میر طاہر 

5 نومبر 2024ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیریس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 10 ستمبر بروز منگل کی رات اپنے پہلے مباحثے میں مختلف ملکی اور غیر ملکی مسائل کو اٹھایا اور ایک دوسرے کے خیالات پر سوال اٹھائے۔ دونوں فریقوں کے درمیان نیشنل کانسٹی ٹیوشن سنٹر میں 90 منٹ کی ٹیلیویژن بحث ہوئی۔ سی این این کے سروے کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات کے لیے دونوں امیدواروں کے درمیان ہونے والی پہلی بحث کو دیکھنے والوں میں سے 63 فیصد نے کہا کہ اس مباحثے میں کملا ہیریس نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس سروے کے مطابق اس بحث کو دیکھنے والوں میں سے 37 فیصد کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے اس بحث میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس پول سے پہلے، 50% امریکی ووٹروں کا خیال تھا کہ ہیریس بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور 50% کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اس بحث میں بہتر کریں گے۔ اس ڈیبیٹ کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے رائے دہندگان کے نقطہ نظر پر اثرات  مرتب ہوتے ہیں۔ سابقہ ​​تجربات کے مطابق عام طور پر مباحثوں میں برتری حاصل کرنے والے امیدوار کے پاس صدارتی انتخابات جیتنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

ہیریس اور ٹرمپ کے درمیان پہلی بحث میں، ہر ایک نے دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی۔ ہیریس نے اگلی ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی پچھلی انتظامیہ کے تسلسل کے طور پر دکھانے کی کوشش کی، جبکہ ٹرمپ نے ہیریس انتظامیہ کو بائیڈن انتظامیہ کے تسلسل کے طور پر دکھانے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی ووٹروں کے نقطہ نظر سے دونوں حکومتوں میں سے کسی نے بھی اچھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ بحث کے دوران، اسٹیج کے ایک طرف، ہیرس، جو پہلے کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل تھی، انہوں نے اپنے مخالف کو جمہوریت اور امریکہ کی ماضی کی کامیابیوں کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف، ٹرمپ جو ایک امریکی ارب پتی ہیں، انہوں نے کملا ہیریس کو ایک بائیں بازو کے سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہیریس کی وجہ سے ملک کی معیشت جمود کا شکار ہو جائے گی۔

ٹرمپ کے قانونی مقدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ہیریس ریپبلکن نامزد امیدوار کے مجرمانہ ریکارڈ کو سامنے لائی اور اس وجہ سے ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا: "میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ آپ یہ کسی ایسے شخص سے سنیں، جو ایک مجرمانہ پراسیکیوٹر ہو۔ یہ سکیورٹی کا اور مجرمانہ مسئلہ ہے۔ یہ معاشی جرائم اور انتخابات میں مداخلت ہے۔ ہیریس کے حملے کے جواب میں، ٹرمپ نے کہا کہ ڈیموکریٹس نے ان کے خلاف عدالتی نظام کو "ہتھیار" کے طور پر استعمال کیا۔ "وہ جھوٹے مقدمے اور الزامات لگاتے ہیں۔" ہیرس کے مطابق امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ خرابی ٹرمپ کے دور میں ہوئی۔ ٹرمپ نے خود کہا کہ الیکشن ہار گئے تو خون بہے گا، ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ ٹرمپ صدر بن گئے تو  عالمی رہنماء امریکہ پر ہنسیں گے۔

اس بحث کے دوران ٹرمپ نے پہلے ہیریس کے کردار اور خیالات پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے "مارکسسٹ" کہا اور اس کے والد کو امریکی معاشرے کا "مارکسسٹ استاد" کہا۔ ان کے مطابق افراط زر نے کمر توڑ دی ہے اور ہیریس نے بائیڈن کے اقتصادی منصوبے کی نقل کی ہے۔ اگر ہیریس جیت گئی تو امریکہ تباہ ہو جائے گا۔ ہیریس نے اپنے پروگراموں میں متوسط ​​طبقے کی مرکزیت پر زور دے کر ٹرمپ کو امیروں کا حامی کہنے کی کوشش کی اور اس طرح متوسط ​​طبقے کے ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس حوالے سے ہیریس نے ٹیکسوں میں کمی سمیت ٹرمپ کے اقدامات کو مکمل طور پر امیر طبقے کے حق میں قرار دیا اور یہ بتاتے ہوئے کہ ان کا تعلق متوسط ​​طبقے سے ہے اور وہ عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنائیں گی۔  ان کے بقول، ٹرمپ کے دور میں، عظیم مہنگائی کے بعد امریکہ میں بے روزگاری بدترین شرح تک پہنچی اور ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ پیدا کیا۔

ہیریس نے چین کے تئیں ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ انہوں نے چین کے حوالے سے جو کچھ کیا، وہ یہ تھا کہ انہوں نے امریکی چپس چین کو فروخت کیں، جس کے نتیجے میں چینی فوج مضبوط ہوئی۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ میں نے امریکا کی مضبوط ترین معیشت بنائی اور میں اس کامیابی کو دوبارہ دہراؤں گا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدارتی امیدواروں نے امریکی شہریوں کے سب سے حساس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر،  معاشی خدشات کو سب سب سے زیادہ اہمیت دی۔ امریکی صدارتی امیدواروں نے ایک دوسرے پر معاشی مسائل کا الزام لگایا۔ اگرچہ بائیڈن حکومت بے روزگاری اور افراط زر کو کم کرنے میں کامیاب رہی ہے، لیکن بہت سارے امریکی اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کی معاشی صورتحال اب بھی قابل تشویش ہے۔ پولز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رائے دہندگان ٹرمپ کے لئے زیادہ سازگار ہیں۔

ایک مہینہ پہلے، امریکی سی این بی سی کے اقتصادی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی نائب صدر کملا ہیریس کے اہم معاشی امور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 5 ٪ کی برتری رکھتے تھے۔ اسقاط حمل اور غیر قانونی تارکین وطن جیسے دیگر مسائل بھی ڈیبیٹ میں زیر بحث رہے۔تھے۔ اس کے علاوہ اسرائیل، غزہ جنگ، 7 اکتوبر اور یوکرائنی جنگ کملا ہیریس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بحث کے اہم سوالات رہے۔ اسرائیل کی حمایت کے تناظر میں ہیریس نے کہا: "ہم اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے رہیں گے، لیکن جنگ کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیئے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔" انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ میں اسرائیل کی حمایت کرتی رہوں گی، اسے ایران اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل بناؤں گی اور فلسطینیوں کو حق خود ارادیت کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔ اس کے برعکس، ٹرمپ نے ہیرس کے بیانات پر سوال اٹھایا کہ ہیریس اسرائیل سے نفرت کرتی ہے اور اسرائیل کو دو سال کے اندر ختم کردیا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر میں صدر ہوتا تو غزہ کی جنگ بالکل نہیں ہوتی اور اگر میں صدر ہوتا تو یوکرائن کی جنگ نہ ہوتی، کیونکہ ہمیں پوتن سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ایران مخالف دعوؤں کو دہراتے ہوئے، ٹرمپ نے ایران کے بارے میں بائیڈن ہیریس حکومت کے نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ایران میری صدارت کے دوران دیوالیہ تھا، لیکن اب ایسا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ یوکرائن کی جنگ کے خاتمے اور ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے جیسے دعوے کرکے بائیڈن ہیریس حکومت کی پالیسیوں اور طریقوں پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ غزہ اور یوکرین جنگوں کے علاوہ اس بحث میں دونوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں کو مختصر طور پر بیان کرکے اور اس کا دفاع کرتے ہوئے دوسرے فریق کے نقطہ نظر پر تنقید کرنے کی کوشش کی۔

مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ 2024ء امریکی صدارتی انتخابات کے لئے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیریس اور ریپبلکن نامزد امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹی وی ڈیبیٹ کا اختتام ہیریس کی برتری کے ساتھ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 2024ء کے صدارتی انتخابات  کی پہلی بحث میں بائیڈن کی واضح ذہنی کمزوری کی وجہ سے ٹرمپ کی فتح ہوئی، جس کی وجہ ڈیموکریٹس کو امیدوار تبدیل کرنا پڑا۔ اس بحث میں کملا ہیریس نے ٹرمپ کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس بحث سے قبل، ٹرمپ نے ہیریس کے خلاف وسیع پیمانے پر نفسیاتی جنگ پھیلائی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ذہانت کم ہے اور وہ بات بھی نہیں کرسکتی، لیکن جیسا کہ سروے کے نتائج نے پہلی بحث کے بعد ظاہر کیا کہ ہیریس نے تقریباً دو تہائی امریکی شہریوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ پہلی انتخابی بحث میں ہیریس بلا شبہ مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئی ہیں، لیکن اتنی مضبوط نہیں کہ وہ  5 نومبر کے انتخابات میں یقینی کامیابی حاصل کر لیں گی۔


خبر کا کوڈ: 1159516

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1159516/ہیریس-اور-ٹرمپ-کے-درمیان-پہلے-مناظرے-میں-کیا-ہوا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com