ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا!
10 Sep 2024 18:09
اسلام ٹائمز: یہ عرض کرتا چلوں کہ تفتان بارڈر پر مسافروں کو اذیت دینے کا جتنا انتظام کیا گیا ہے، اگر اس اذیّت کی بجائے بارڈر پر عوام سے فیڈبیک لینے اور سرکاری اہلکاروں کی مانیٹرنگ کا انتظام کیا جاتا تو رشوت، اسمگلنگ اور دہشتگردی کو بلوچستان میں بڑی حد تک روکا جا سکتا تھا۔ ہمارے ہاں عام لوگوں کو لائنوں میں گھنٹوں کھڑا کرنے، انہیں ذلیل و رسوا کرنے اور ٹارچر کرنے کو بہادری سمجھ لیا گیا ہے۔ بہادری اور شجاعت عوام کو اذیّت دینے کا نام ہرگز نہیں۔ اگر ہمیں اپنی ملکی صورتحال کو بدلنا ہے تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔
تحریر: نذر حافی
فائرنگ کا تبادلہ رُکا نہیں۔ مارٹر توپوں سمیت بھاری اور خود کار ہتھیاروں نیز راکٹوں سے حملے جاری ہیں۔ افغانستان کے علاقے خوست سے گزشتہ ایک ہفتے میں تین بار پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے ہوئے ہیں۔ جب سے افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں، تب سے افغان سرزمین کا پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونا ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بین الاقوامی خوارج اور ان کے کمانڈرز مزاحم محسود اور نور ولی جیسوں کو کابل حکومت کی مکمل سرپرستی نیز افغانستان میں وی آئی پی پروٹوکول و افغان گورمنٹل سپیشل پرمٹ حاصل ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والے دہشت گردوں کے ٹریننگ سنٹرز اور ان کی لاجسٹک بیسز کی پاکستان نے کئی مرتبہ نشاندہی کی ہے، لیکن یہ مسئلہ یوں حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاہور سے ایک کالعدم تنظیم کا خطرناک دہشت گرد گرفتار ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے دھماکہ خیز مواد، خودکُش جیکٹیں، ہینڈ گرنیڈز، ڈیٹونیٹر، فیوز وائرز، گولیاں، اسلحہ، موبائل فون اور نقدی برآمد ہوئی ہے جبکہ ان کی شناخت حافظ مطلوب، حمزہ جاوید، خبیب احمد، ظہیر احمد اور سیف اللہ وغیرہ کے نام سے کی گئی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں ہوتی ہیں، یہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث عوام میں مزید بے چینی اور عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر تفتان بارڈر پر عوامی شکایات کے باوجود اعلیٰ حکام کی طرف سے عوام کی احوال پُرسی کا کوئی انتظام نہیں۔ لوگوں کے پاس ویزے ہونے کے باوجود اُن سے رشوت لینے کیلئے انہیں اُس وقت تک وہاں روکے رکھا جاتا ہے، جب تک وہ اہلکاروں کی مُٹھی گرم نہ کریں۔ مُٹھی گرم کرکے بہت سارے جرائم پیشہ افراد کا بارڈر کراس کرنا کس حد تک امکان پذیر ہے، اسے ہر صاحبِ عقل بخوبی سمجھتا ہے، لیکن کوئی بارڈر کیلئے چیک اینڈ کنٹرول کی پلاننگ کرنے یا یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ بارڈر پر یہ سب ہو رہا ہے۔ جو طالب علم اس بارڈر سے سفر کرتے ہیں، ان کے ساتھ اُن کے والدین اور عزیز و اقارب بھی زیارت کی غرض سے ویزے کے ہمراہ جا رہے ہوتے ہیں، لیکن انہیں عزت دینے کی بجائے خوب اذیت دی جاتی ہے اور مختلف بہانوں سے وہاں بارڈر پر گھنٹوں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں آئے روز نہتے سویلین، پولیس اور ایف سی کے جوان نیز فوجی اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔ یہ خونِ ناحق بالآخر انسانوں کا خون ہے۔ اس بے دردی اور سفّاکیت سے اگر کسی ملک میں جانوروں کو بھی قتل کیا جائے تو ملکی سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ بے چارے عوام کا اس ملک میں کچھ بھی نہیں، حتی کہ سکون اور عزت بھی انہیں میسّر نہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں چھوڑیئے اور صرف محکمہ مال کو ہی لیجئے۔ کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس ملک میں ایک چپڑاسی سے رشوت شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ نسل در نسل اس ادارے کے ہاتھوں لُٹ رہے ہیں، لیکن اس ادارے کے سُدھار کا ایک فی صد بھی امکان نہیں۔ کوئی ہے ہی نہیں، جس کیلئے عوامی مسائل اور عوامی خدمت کی ذرّہ بھر بھی اہمیّت ہو۔
ملک کے اندر بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملکی اقتصاد کو دہشت گردی سے بڑھ کر متاثر کیا ہے۔ بجلی کے بحران کے باعث 350 ارب ڈالر کی صنعتیں مفلوج ہو کر بند ہوگئی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے اراکین تو کبھی نہ کبھی پکڑے جاتے ہیں، لیکن مہنگائی اور بجلی کا بحران پیدا کرنے والوں کو پکڑنے کا سرے سے ہی کوئی بندوبست نہیں۔ بات صرف اوور بلنگ اور صنعتی اور کاروباری طبقے کی بدحالی تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں حالت یہ ہے کہ کہیں پر بھی بجلی کا ایک میٹر یا ٹرانسفارمر بھی رشوت کے بغیر نہیں لگوایا جا سکتا۔ اگر میٹر یا ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو پھر لاکھوں روپے عوام سے بٹورے جاتے ہیں۔ واپڈا کی کرپشن کے باعث کئی لوگ بچوں سمیت خود کشیاں کرچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا نے پونے دو روپے یونٹ بجلی مزید مہنگی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آج کی خبر ہے کہ بجلی کمپنیوں نے صارفین کو 8 ارب 44 کروڑ روپے سے زائد کا چونا لگا دیا ہے۔ صرف لیسکو اور آئیسکو نے لاہور اور اسلام آباد میں صارفین سے اوور بلنگ کی مد میں تین ارب روپے سے زائد رقم انیٹھی ہے۔ دوسری طرف ہمارے قومی اداروں کے خود ساختہ جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ابھی خبر گرم ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایف آئی آر میں نام والے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسپیکر ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد کی سرزنش کرتے ہوئے ہدایت جاری کیں کہ جن ارکان اسمبلی کے نام ایف آئی آر میں نہیں، انہیں فوری رہا کیا جائے۔ یقین جانئے ہمارے قومی ادارے ستتر برس سے قوم کو انہی ڈراموں میں مصروف کئے ہوئے ہیں۔
پورے ملک میں جو ادارہ بھی ہے، وہ طاقتور اشرافیہ کا ہے، کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں، جو عوام کیلئے ہو اور عوامی خدمت پر یقین رکھتا ہو۔ اشرافیہ کیلئے سکیورٹی بھی ہے، شکایات سننے والے بھی ہیں، قانون بھی ہے، وکیل بھی ہیں، پارلیمنٹ بھی ہے، وزارتیں بھی ہیں، میڈیا بھی ہے اور ایف آئی آر وغیرہ بھی، لیکن عوام کیلئے۔۔۔۔ اگلے مہینے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ یہ کہنے کو تو ہمارے ملک کی اشرافیہ کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہوگا، لیکن عوام کیلئے۔۔۔ یہ بھی ایک اہم خبر ہے کہ بلائنڈ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 21 نومبر سے 3 دسمبر تک پاکستان میں کھیلا جائے گا، لیکن سوال پھر یہی ہے کہ عوام کو اس سے سوائے اپنا وقت ضائع کرنے کے اور کیا ملے گا۔۔۔؟ کیا اس ملک میں کوئی ادارہ عوام کیلئے بھی ہے۔؟
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ تفتان بارڈر پر مسافروں کو اذیت دینے کا جتنا انتظام کیا گیا ہے، اگر اس اذیّت کی بجائے بارڈر پر عوام سے فیڈبیک لینے اور سرکاری اہلکاروں کی مانیٹرنگ کا انتظام کیا جاتا تو رشوت، اسمگلنگ اور دہشت گردی کو بلوچستان میں بڑی حد تک روکا جا سکتا تھا۔ ہمارے ہاں عام لوگوں کو لائنوں میں گھنٹوں کھڑا کرنے، انہیں ذلیل و رسوا کرنے اور ٹارچر کرنے کو بہادری سمجھ لیا گیا ہے۔ بہادری اور شجاعت عوام کو اذیّت دینے کا نام ہرگز نہیں۔ اگر ہمیں اپنی ملکی صورتحال کو بدلنا ہے تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ: 1159184