فلسطین اور کشمیر کی آزادی قریب آگئی
10 Sep 2024 11:58
اسلام ٹائمز: فلسطین کے دلیر جوانوں نے طاقت کے نشے میں مدہوش بڑی قوتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جو فلسطینی عوام سے پرامن رہنے کی درخواست کر رہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں، بتا دیا ہے کہ مسئلے کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ آج سے 76 سال پہلے اس ناجائز ریاست کا جو بیج بویا تھا، اب اسکی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور تنا بھی دیمک کا شکار ہوچکا ہے۔ اسرائیل کو اگر عافیت درکار ہے تو فوری جنگ بندی کرکے فلسطین سے نکلنے کیلئے آمادہ ہو جائے، کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے، نہ کہ کسی غاصب ریاست یا قوم کا۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
عالمی برادری کی بے حسی کی انتہاء ہے کہ گیارہ ماہ گزر گئے، اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم سے روکا نہیں جا سکا۔ اس کیساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس، حزب اللہ اور انصاراللہ کی کارروائیوں کے باعث اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ کھنڈرات میں تبدیل فلسطین کے اندر دیکھیں تو حماس کے نوجوانوں کا جذبہ شہادت اور حزب اللہ کی فلسطینیوں کی حمایت میں موجودہ جنگ میں شمولیت سے اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اسرائیل کے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ کا رکن روس کے پاس فریاد لے کر جاتا ہے، اس کی صدر پیوٹن سے بات نہ ہوسکی، لیکن اسرائیلی نمائندے نے روس کے دفاعی سفارتی نمائندے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے بتایا کہ حماس کی تحویل میں موجود یرغمالیوں میں ایک روسی نژاد اسرائیلی شہری بھی ہے، لہٰذا آپ انہیں رہا کروانے میں ہمارا ساتھ دیں، لیکن وہ مثبت جواب حاصل نہ کرسکے کہ حکومت اسرائیل نے اصلاح احوال اور جنگ بندی کے بہت سے مواقع گنوا دیئے ہیں، جس کا نتیجہ آپ اب بھگت رہے ہیں۔
اس کے بعد ایک بڑی پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ امریکہ نے اپنا نمائندہ چین بھیجا اور کہا کہ بحر احمر میں صورتحال خراب ہے۔ انصاراللہ کے حوثی بحیرہ احمر کے اندر بحری جہازوں پر حملہ کرکے بین الاقوامی اقتصادیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، یقیناً حوثی آپ کی بات سنیں گے اور اس پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے، امریکہ کو مایوسی ہوئی، چین نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تقریباً ًایک سال ہونیوالا ہے کہ حماس اور صیہونی حکومت کی جنگ جاری ہے، جس میں اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں، شہری آبادیوں کو تہس نہس کر دیا، ہسپتالوں میں مریضوں کا قتل عام کیا، سکولوں میں تعلیم دینے والا اور حاصل کرنیوالا کوئی نہ چھوڑا، ان مظالم پر کسی بین الاقوامی طاقت یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بے گناہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری پر نہ صرف یہ کہ افسوس کا اظہار بلکہ اس دہشت گردی کی مذمت تک نہ کی، بلکہ اسرائیل کو وسائل اور جدید اسلحہ کی ترسیل اب تک جاری ہے اور اس کے تمام مظالم کی پردہ پوشی کیساتھ اس سے تعاون بھی کیا جا رہا ہے، اس طرح یہ تمام ممالک فلسطین کشی کے عمل میں برابر کے مجرم ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ حماس کے اسرائیل کے اندر گھس کر حملے کرنے کے 7 اکتوبر 2023ء کے اقدام سے مسلمان ممالک اتنے خوفزدہ تھے اور اب بھی ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل اپنی قوت سے حماس کے مٹھی بھر نوجوانوں کا خاتمہ کر دے گی، لیکن ابابیلوں کے ہاتھوں ہاتھی والے ابرہا کو تباہ کرنیوالا رب ذوالجلال کتنا عظیم ہے، ایک سال ہونے کے قریب ہے کہ فلسطین کی دفاعی قوت، ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا ہے اور وہ جو عالمی قوتیں سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت ان کی مدد کیساتھ چند دنوں میں حماس کو نہ صرف ختم کر دے گی، بلکہ غزہ پر قبضہ کرکے اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے، لیکن صیہونی حکومت کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا بلکہ نیتن یاہو کیلئے تو یہ ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے۔
ناجائز اسرائیلی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے فلسطینی مزاحمتی تحریک کی دفاعی قوت کو کمزور کر دیں گے، جو نہ ہوسکا۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی قطر میں ہونیوالی نماز جنازہ کے بعد نیا سربراہ یحییٰ سنوار کو منتخب کیا گیا ہے۔ حماس کے نئے سربراہ نے مذاکراتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا انداز اختیار کیا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کے پاؤں ڈگمگانا شروع ہوگئے ہیں، اس سے پہلے اسرائیلی حملوں پر یرغمالیوں کو محفوظ ترین مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا ہے، لیکن چند دن پہلے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں چھ یہودی یرغمالی مارے گئے، جن کی لاشیں اسرائیلیوں کو ملیں تو سراپا احتجاج پورا اسرائیل نیتن یاہو کیخلاف سڑکوں پر نکل آیا۔
صیہونی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، یرغمالیوں کے ورثاء یہ بھی کہتے ہیں کہ حماس سے مذاکرات اسرائیل کی بجائے امریکہ کرے، آخر نیتن یاہو کو مکاری کے آنسو بہاتے ہوئے ٹی وی تقریر میں عوام سے معافی مانگنا پڑی کہ یرغمالیوں کی محفوظ واپسی میں وہ ناکام رہے۔ اسی احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے 90 لاکھ کے ملک میں ٹریڈ یونینز کی ایک دن کی مکمل ہڑتال کی وجہ سے اسرائیل کا کوئی نظام نہ چل سکا۔ حماس کے رہنماء یحییٰ سنوار کا یہ بیان کہ اگر اسرائیل نے حماس پر فضائی حملے بند نہ کیے تو پھر یرغمالیوں کی مزید لاشیں وصول کرنے کیلئے تیار رہے۔ آپ اندازہ کریں کہ ابھی تک تو یہ وہ حالات ہیں کہ نہ حزب اللہ نے بھرپور حملہ کیا ہے اور نہ حوثی جوانوں نے بحیرہ احمر میں کوئی بڑا اقدام کیا ہے، نہ ہی حشد الشعبی عراق نے کوئی بھرپور کارروائی کی، جبکہ ان سب کے سرپرست ایران نے اپنے سپرسونک میزائل کو ابھی تک اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں فلسطین کے دلیر جوانوں نے، طاقت کے نشے میں مدہوش بڑی قوتوں امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی جو فلسطینی عوام سے پرامن رہنے کی درخواست کررہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں، بتا دیا ہے کہ مسئلے کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ آج سے 76 سال پہلے اس ناجائز ریاست کا جو بیج بویا تھا، اب اس کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور تنا بھی دیمک کا شکار ہوچکا ہے۔ اسرائیل کو اگر عافیت درکار ہے تو فوری جنگ بندی کرکے فلسطین سے نکلنے کیلئے آمادہ ہو جائے، کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے، نہ کہ کسی غاصب ریاست یا قوم کا۔ اسی طرح برصغیر میں اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر کشمیر کو متنازعہ بنا کر برطانیہ نے تقسیم کا منصوبہ ادھورا چھوڑا، لیکن آج نہیں تو کل سب کو ماننا پڑے گا کہ جس طرح فلسطین، فلسطینیوں کا ہے، کشمیر بھی کشمیریوں کا ہے۔ انڈیا نوشتہ دیوار پڑھ لے کہ آخر جس طرح کشمیری عوام قربانیاں دے رہے ہیں اور شہداء کے خون سے کشمیر کی آزادی کا نعرہ تقویت پکڑ رہا ہے تو وہ دن قریب ہیں، جب کشمیر کشمیریوں کو ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ: 1159087