پاکستان کی بقاء پر امریکی گرفت؟؟
10 Sep 2024 11:31
اسلام ٹائمز: ہمیں اپنی خود مختاری کا پاس رکھتے ہوئے، اس غلامی سے باہر نکلنا ہوگا۔ جس دن پاکستان مغرب کی غلامی سے نکل گیا، وہی دن پاکستان کی حقیقیی آزادی کا دن ہوگا۔ اس وقت پاکستان کی بقاء امریکی گرفت میں ہے، ہمیں اس گرفت سے باہر آنا ہوگا۔ ہمارے فیصلے وائٹ ہاوس کی بجائے اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاوس میں ہونے چاہیں، اس میں پاکستان کی سلامتی و استحکام کا راز مضمر ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی دباو کے باعث پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جیو نیوز کے مطابق ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پاکستان کی بقاء کا معاملہ ہے، ہم 18 ارب ڈالر کہاں سے دیں گے، اس وقت کے مالی حالات میں ہم 18 ملین بھی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی دباو ایران پائپ لائن معاہدہ پورا کرنے نہیں دے رہا، امریکا سے ڈپلومیسی کی جائے، تاکہ وہ ہمیں یہ معاہدہ مکمل کرنے دے، رواں ماہ وزیراعظم شہباز شریف امریکا جائیں گے، انہیں یہ بات ضرور کرنی چاہیئے، ایران نے برادر اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے بہت صبر کیا ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو 2008ء یا 2009ء میں مکمل ہو جانا چاہیئے تھا، ایران عالمی عدالت جا رہا ہے تو اسے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا پڑ رہا ہے، ایران پاکستان پر 18 ارب ڈالر ہرجانے کیلئے پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی طرح خواجہ آصف بھی اپنی بے باک گفتگو کی وجہ سے کافی معروف ہیں۔ اب ایران کی جانب سے پاکستان کو واضح پیغام کہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کریں، یا معاہدے مطابق 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کریں۔ کیونکہ اس معاہدے کی ایک شق واضح ہے کہ جو فریق اس معاہدہ سے فرار اختیار کرے گا، یا معاہدہ مکمل نہیں کرے گا، اسے 18 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ایران نے پاکستان کی سرحد تک اپنا منصوبہ مکمل کر رکھا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے ایک بھی اینٹ نہیں لگائی گئی۔
اس معاہدے میں جہاں ایران کا فائدہ ہے، وہیں پاکستان کا زیادہ فائدہ ہے، ہم سردیاں تو سردیاں، گرمیوں میں بھی گیس کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اپنی بنیادی ضرورتوں کیلئے بھی امریکہ کے مرہون منت ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ کی اس مداخلت سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ ہمارے معاملات ہمارے حکمرانوں کی بجائے وائٹ ہاوس چلا رہا ہے۔ وزیر دفاع کا یہ اعتراف ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکہ کی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کے بحری بیڑوں کی آس پر ہم آج تک بیٹھے ہیں اور 1965ء اور 1971ء میں کئے گئے وعدوں پر جی رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کا وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی بجائے، اشرافیہ کے چند افراد کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے، ان کی جیبیں بھر دیتا ہے اور پھر ان سے اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔
گیس ہو یا پیٹرول، یہ ہماری ضرورت ہیں۔ اگر ہماری صنعتوں کو گیس کی قلت کا سامنا نہ ہو تو ہم بیرون ممالک کے آرڈرز بروقت تیار کرکے بھجوا سکتے ہیں۔ بجلی اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی خودکشیوں کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ یوں ہمارے بہت سے مسائل صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہمارے حکمران اپنے ملک کی پالیسیاں بنانے سے پہلے اپنا ملکی مفاد دیکھنے کی بجائے امریکی خوشنودی کی طرف دیکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی خوفناک چال بازی سے پاکستان کو جکڑ لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں ایسی ہیں کہ عوام کی گردن دبوچی جا رہی ہے۔ عوام میں حکمرانوں کیخلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا بھی یہی ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کو لٹکا دیں، جس کیلئے زمینہ سازی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام ایک دن ان حکمرانوں کے محلات پر چڑھ دوڑیں گے۔ ایسا صرف پاکستان کیخلاف سازش پر عملدرآمد کیلئے کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی سمندری حدود سے جو گیس اور تیل کے ذخائر دریافت ہونے کی اطلاعات زیرگردش ہیں، ان کے حوالے سے بھی امریکی حلقوں میں پریشانی پائی جا رہی ہے۔ امریکیوں نے اس کے حوالے سے بھی معلومات لینا شروع کر دی ہیں۔ اس کیلئے امریکہ بہادر اجازت دے گا تو ہم وہ گیس اور تیل نکال سکیں گے اور اگر ادھر سے گرین سگنل نہ ملا تو پھر ہمارے میڈیا میں یہ خبریں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گی کہ وہ اندازہ تھا، جو غلط ثابت ہوا۔ وہاں پر تیل اور گیس کا کوئی ذخیرہ موجود نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مغربی قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان پھلے پھولے، اس کیلئے اگر پاکستان معاشی بحرانوں سے نکلتا ہے تو خوشحال ہو جائے گا، خوشحال ہوگیا تو امریکی غلامی سے نکل آئے گا۔ امریکہ دراصل پاکستان کو اپنے غلامی میں رکھنے کیلئے معاشی طور پر اپنا دست نگر رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسی پالیسیاں بننے ہی نہیں دی جا رہیں، جن سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہو۔
ایران کیساتھ بجلی، گیس اور پیٹرول کا معاہدہ ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کی صنعتیں مستحکم ہوں گے۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مگر امریکہ چاہتا ہے کہ ہم ڈالروں کی بیساکھیوں پر ہی رہیں۔ پاکستان امریکہ کا محتاج ہی رہے۔ پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہےٟ، جو اسے امریکی غلامی سے نجات دلا سکے۔ امریکہ کسی طور بھی پاکستان کا خیرخواہ نہیں، امریکہ کی امداد بھی ہمارے ملک کیلئے زہر سے کم نہیں۔ ہمیں اپنی خود مختاری کا پاس رکھتے ہوئے، اس غلامی سے باہر نکلنا ہوگا۔ جس دن پاکستان مغرب کی غلامی سے نکل گیا۔ وہی دن پاکستان کی حقیقیی آزادی کا دن ہوگا۔ اس وقت پاکستان کی بقاء امریکی گرفت میں ہے۔ ہمیں اس گرفت سے باہر آنا ہوگا۔ ہمارے فیصلے وائٹ ہاوس کی بجائے اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاوس میں ہونے چاہیں، اس میں پاکستان کی سلامتی و استحکام کا راز مضمر ہے۔
خبر کا کوڈ: 1159083