غزہ جنگ میں امریکہ کی بحری طاقت میں تزلزل
8 Sep 2024 23:57
اسلام ٹائمز: امریکہ برتر بحری طاقت ہونے اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول کا حامل ہونے کے دعویدار ہونے کے ناطے یمن میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ حملے بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب، بحیرہ عرب اور بحر ہند میں انجام پا رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اس مقصد کیلئے ایک بحری فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور یمن پر کئی فضائی حملے بھی کئے لیکن انہیں حوثی مجاہدین کے خلاف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی اور مقبوضہ فلسطین جانے والی اسرائیلی اور اسرائیل کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ انصاراللہ یمن روزانہ کی بنیاد پر ان کے بحری جہازوں کو میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش جنگی کشتیوں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ جنگ کی ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی بحریہ انصاراللہ یمن کے خلاف جنگ میں شکست کھا چکی ہے۔
تحریر: ابوالفضل صفری
گذشتہ ماہ غاصب صیہونی رژیم نے یمن، لبنان اور ایران میں چند دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیں جن کے بعد اسلامی مزاحمتی بلاک نے اسے سخت انتقامی کاروائی کی دھمکی دی۔ اس دھمکی کے نتیجے میں امریکہ بھی سرگرم عمل ہو گیا اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اپنے جنگی بحری بیڑے خطے کی جانب روانہ کر دیے۔ امریکہ کے طیارہ بردار جنگی بحری جہاز مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی طرف حرکت کرنے لگے۔ اس نقل و حرکت کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار کر کے ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر گروہوں کو ڈرا دھمکا کر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ممکنہ انتقامی کاروائی سے باز رکھنا تھا۔ چونکہ امریکہ کا تصور یہ تھا کہ ماضی کی طرح ایران اس بار بھی اسرائیل پر میزائل حملہ کرے گا لہذا امریکہ، برطانیہ اور صیہونی رژیم کے دیگر اتحادی مغربی و عرب ممالک نے ایک فضائی دفاعی زون ایجاد کرنے کی کوشش کی۔
ایک خطہ جہاں امریکہ نے اپنے جنگی بحری بیڑے روانہ کئے پیسفک سمندر تھا۔ اس اقدام نے امریکہ نواز حکومتوں نیز امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ دیگر مغربی استعماری طاقتوں کی طرح امریکہ بھی ایک بحری طاقت ہے۔ امریکہ کی بحریہ دنیا بھر میں اس کے اثرورسوخ اور طاقت کا سرچشمہ تھی اور اس نے واسنگٹن کو اس قابل بنایا کہ وہ جہاں چاہے طاقت کا اظہار کر سکے، دنیا بھر کے سمندری راستوں پر اپنا کنٹرول قائم کر سکے اور دنیا کے جس حصے میں چاہے لشکر کشی کر کے پوری طاقت سے جنگ کا آغاز کر سکے۔ درحقیقت امریکہ کی بحریہ اس کے فوجی، سیاسی (سفارتی) اور اقتصادی تسلط کی بنیاد اور اساس شمار ہوتی ہے۔ امریکی بحریہ میں بھی طیارہ برداری جنگی بحری جہاز مرکزی اہمیت کے حامل ہیں جن کی بدولت امریکہ اپنی جنگوں کی زیادہ سے زیادہ پشت پناہی کرنے پر قادر ہے۔
یوں طیارہ بردار جنگی بحری جہاز امریکہ کے پاس اپنی طاقت کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ اس طرح طاقت کا اظہار کر کے اپنی خاص قسم کی سفارتکاری انجام دیتا ہے جسے اصطلاح میں "توپ دار کشتیوں" والی سفارتکاری کہا جاتا ہے۔ یہ طیارہ بردار جنگی جہاز مدمقابل پر رعب ڈالنے اور اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ امریکہ کو عالمی سطح پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی بحری طاقت دیگر ممالک سے برتر ہو تاکہ دیگر ممالک اس کی بحری طاقت سے مرعوب ہو کر مختلف سمندری راستوں، آبناوں اور اسٹریٹجک مقامات پر اس کا کنٹرول تسلیم کر لیں۔ لیکن اس وقت زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں اور صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔
ایک طرف چین دنیا میں کشتیاں بنانے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آ چکا ہے جبکہ دوسری طرف کشتیاں بنانے والے ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نام پہلے 15 ممالک میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کی اکثر بندرگاہیں بیرونی کمپنیوں کے پاس ہیں جبکہ دیگر ممالک کی بندرگاہوں پر امریکی مالکیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح کشتیوں کی مالکیت کے لحاظ سے امریکہ کا نمبر عالمی سطح پر چوتھا ہے۔ سمندری تجارت اور اس سے متعلقہ میدانوں میں امریکہ کی متزلزل صورتحال سے چشم پوشی کرتے ہوئے بحری فوجی طاقت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو امریکہ شدید تزلزل کا شکار ہے۔ امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں کی پریشانی پیسفک سمندر میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے اور یہ امریکی بحری طاقت کے زوال کا واضح ثبوت ہے۔
امریکہ برتر بحری طاقت ہونے اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول کا حامل ہونے کے دعویدار ہونے کے ناطے یمن میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ حملے بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب، بحیرہ عرب اور بحر ہند میں انجام پا رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اس مقصد کیلئے ایک بحری فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور یمن پر کئی فضائی حملے بھی کئے لیکن انہیں حوثی مجاہدین کے خلاف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی اور مقبوضہ فلسطین جانے والی اسرائیلی اور اسرائیل کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ انصاراللہ یمن روزانہ کی بنیاد پر ان کے بحری جہازوں کو میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش جنگی کشتیوں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ جنگ کی ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی بحریہ انصاراللہ یمن کے خلاف جنگ میں شکست کھا چکی ہے۔
امریکی کی بحری فوج اس کی مرعوب کرنے پر مبنی سفارتکاری کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی جانب طیارہ بردار جنگی جہاز روانہ کر کے ایران اور اسلامی مزاحمت کو مرعوب کرنے کے درپے تھا۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اربعین آپریشن اور یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے خلاف فضائی حملوں کے نتیجے میں یہ مقصد ناکامی کا شکار ہو گیا ہے۔ درحقیقت امریکہ کی جانب سے مرعوب کرنے والی سفارتکاری اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں بے اثر ہو چکی ہے۔ پیسفک سمندر امریکہ کیلئے اسٹریٹجک اور سکیورٹی کے لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے۔ یہ خطہ، بحر ہند، مغربی ایشیا، صحرائی علاقے، مشرقی یورپ اور قطب شمالی سے ملا ہوا ہے اور یہ تمام علاقے امریکہ کیلئے فوجی اہداف شمار ہوتے ہیں۔ غزہ جنگ کے نتیجے امریکہ پیسفک سمندر سے نکلنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے باعث امریکی اور مغربی تجزیہ کار اسٹریٹجک نقصانات کا عندیہ دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1158805